اداریہ جدوجہد:-
سوال بڑے سادہ ہیں! جواب بھی بڑے سیدھے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سیدھی سادی سچائی، ٹھوس حقائق اور ناقابل تردید دلائل کو سننا ہی نہ چاہے، جاننے اور ماننے سے ہی انکاری ہو، تسلیم کرنے سے ہی خوفزدہ ہو تو انسان کرے تو کرے کیا؟ پاک چین ’’اکنامک کوریڈور‘‘ کا اتنا شور ہے کہ چیخ بھی سنائی نہ دے۔ حکمران طبقے کا ہر دانشور اور مکتبہ فکر، ہر سیاسی پارٹی اور رجحان، کارپوریٹ میڈیا کا ہر دھڑا اس ’’معجزے‘‘ سے اتنی امیدیں لگائے ہوئے ہیں، ’’ترقی‘‘ کا اتنا پراپیگنڈا ہے کہ سائنسی تجزئیے کی ہر آواز دب جاتی ہے، ٹھوس تناظر کی کاوش مسترد کر دی جاتی ہے۔ تذبذب سے دوچار سکڑتی ہوئی مڈل کلاس خاص طور پر اچھل رہی ہے۔ ذلت، بربادی، محرومی اور تباہ کاری کے اس تپتے صحرا میں بھٹکتے عوام کو بھی جو سراب دکھایا جارہا ہے، نجات کی ناقابل برداشت پیاس میں وہ بھی اس کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے جا رہے ہیں۔ چل کے وہ جا نہیں سکتے اور قریب لا کر انہیں دکھانے والا کوئی نہیں۔ لیکن وقت اور حالات اس سراب کی ہولناک حقیقت اور زہریلے فریب کو بے نقاب کریں گے تو کیا ہو گا؟ محنت کش عوام کو کیا کسی اور سحر میں مبتلا کیا جاسکے گا؟ حکمران طبقے کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے لیکن ان کے اپنے بحران اور پراگندگی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود ان سرابوں میں الجھ گئے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کوریڈور کا منصوبہ چین اور پاکستان کے سرمایہ داروں، کمیشن خور سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کے مالی مفادات کے لئے بنایا جا رہا ہے یا غریب عوام کے روزگار، ’’ترقی ‘‘ اور آسودگی کے لئے؟ چین کی معاشی شرح نمو 14.2 فیصد سے گر کر 7.2 فیصد پر آگئی ہے اور گراوٹ کا یہ عمل جاری ہے، عالمی شرح نمو میں اس کا حصہ 2012ء میں 85 فیصد سے کم ہو کر 2015ء میں 24 فیصد رہ جائے گا۔ چین کا ریاستی قرضہ 2008ء میں کل داخلی پیداوار کے 150 فیصد سے بڑھ کر آج 250 فیصد پر جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں کیا چین اتنی بڑی تعمیرات کے اخراجات اٹھا سکے گا؟ وہ مالیاتی وسائل فراہم کر سکے گا جس سے اس طرح کے منصوبے تعمیر ہو سکیں؟ دنیا میں امارت اور غربت کی دوسری بڑی خلیج رکھنے والا چین بھلا پاکستان میں غربت کیسے مٹائے گا؟
ان منصوبہ جات کے ذریعے چین پاکستان کو 27 فیصد کی شرح سود پر 46 ارب ڈالر کا مقروض کر رہا ہے۔ یہی چین بھارت میں 17 فیصد کی شرح سود پر 44 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ زیادہ اونچی دوستی پھر کس سے ہوئی؟ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین میں 20 فیصد آبادی (تقریباً 30 کروڑ افراد) بیروزگار ہیں۔ کیا یہ چین پاکستان میں کوئی روزگار فراہم کر سکتا ہے؟ جس سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی اور مشینری استعمال ہو اور تھوڑی بہت درکار افرادی قوت بھی چین سے ہی آئے وہ یہاں کتنی نوکریاں پیدا کر سکتی ہے؟
دنیا کا 68 فیصد جی ڈی پی رکھنے والے ترقی یافتہ مغرب میں منڈی بیٹھ چکی ہے، بحران گہرا ہے اور سرمایہ داری کے اپنے ماہرین کے مطابق بحالی کے امکانات 2023ء تک نہیں ہیں۔ چین کا مال اب کہاں کھپے گا؟ اگر مال نہیں بکے گا، برآمدات سکڑیں گی تو چین کو کیا اس راہداری کی ضرورت رہے گی؟ ہمارے حکمران کیا سنجیدگی سے اس راہداری کو ترقی کا نسخہ سمجھ رہے ہیں یا صرف اپنے ٹھیکوں اور کمیشن کی امید لگائے بیٹھے ہیں؟ حکمران طبقے کے ماہرین کہیں عوام کو اس فریب میں مبتلا کر کے لوٹ مار کے عرصے میں تھوڑی طوالت تو نہیں چاہ رہے؟ مقامی اور چینی حکمران کیا وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے؟ سوال تو اور بھی بہت ہیں لیکن فی الحال اتنے ہی کافی۔ ان سوالوں کے جواب زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ جواب سوال کے بیچ میں ہی چھپے ہیں۔ لیکن ایک سوال اور بھی ہے۔ عوام کب تک ان کھوکھلی امیدوں پر انتظار کرتے رہیں گے؟ یہ حکمران ان تماشوں کے ذریعے کتنا وقت اور حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ سراب بہت جلد جب ٹوٹے گا تو یہ حکمران کیا کریں گے؟ حالات جس نہج پر ہیں وہاں ایک نیا سراب، نیا سحر تخلیق کرنا آسان تو نہیں ہے۔ ’’چینی ماڈل‘‘سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ناکام ہوچکا ہے۔ 25سال بعد ہندوستان کی شرح نمو (7.5 فیصد)، چین کی شرح نمو (7.2) سے تجاوز کر جائے گی۔ یہ ایسی شرح نمو اور ایسی ترقی ہے جو غربت اور ذلت میں اضافہ ہی کرتی ہے۔ سماجی انتشار اور نفسا نفسی کو شدید تر ہی کرتی ہے۔ یہ نظام زر امریکہ سے لے کر یورپ اور جاپان تک نامراد ہے۔ قرضے، سٹہ بازی، عوام پر معاشی حملوں اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ کی متزلزل بنیادوں پر سرمائے کا یہ ڈھانچہ لڑکھڑا رہا ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں یہ صورتحال ہے تو پاکستان جیسے برباد ممالک میں عوام دہشت گردی کی بربریت اور خاموش معاشی قتل عام پر کب تلک خاموش رہیں گے؟ یہ سراب ٹوٹ جائیں گے۔ برداشت کی حدیں پار ہو رہی ہیں۔ حکمرانوں کے پاس وقت کم پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے بھی کم وقت ان کے پاس ہے جنہیں انقلاب کی تیاری کرنا ہے!