اداریہ جدوجہد
کہتے ہیں کہ ’چور چوری سے جائے، ہیر ا پھیری سے نہ جائے۔‘ امریکی سامراج آج اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کی شدت سے لاغر ہوچکا ہے، لیکن سامراجی مداخلت اور جارحیت کی وارداتیں جاری ہیں۔ پاکستان پیسے والوں کے لیے پیسے والوں نے بنایا تھا۔ چونکہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے اس لیے یہاں کے حکمرانوں نے رو زاول سے ہی سامراجی گماشتگی کی سکہ بند پالیسی کو جاری رکھا۔ جہاں سامراجیوں نے برصغیر کے مقامی حکمران طبقات کی ملی بھگت سے دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا خونی بٹوارا کروایا وہاں تاریخ میں انسانوں کی سب سے بڑی تعداد کو ان کی جڑوں سے اکھاڑ کر ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ مذہب کے نام پر اس بٹوارے کے بعد بھی سامراج کا بالواسطہ تسلط اور استحصال جاری رہا۔ لیکن جب ان نوآبادیاتی ممالک میں مقامی حکمرانوں کے جبر اور سامراجی جکڑ کے خلاف تحریکیں ابھرنے لگیں تو مقامی حکمرانوں کے لیے ان پر قابو پانا ناممکن ہوگیا تھا۔ جہاں سامراجیوں نے ان مقامی حکمرانوں کے ساتھ مل کر عوام کی انقلابی تحریکوں کو براہِ راست جارحیت سے کچلا وہاں انہوں نے رجعتی نظریات اور سوچوں کو فروغ دے کر محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد کو توڑنے کے نئے نئے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے۔ کروڑوں اربوں ڈالر لگا کر اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا گیا اور یہاں سے فرقہ وارانہ منافرتوں کی خونی ہولی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملاں، ’’مذہبی مفکرین‘‘ اور مذہبی پارٹیاں دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی ہوگئیں۔ مذہبی جنونیت کا مجرمانہ کاروبار خوب پلا بڑھا اور دہشت گردی کی حیوانی شکلوں کو سامراجی استعمار کو جاری رکھنے کے لیے ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن جب یہ جنونی، دولت کی اندھی ہوس میں اتنے پاگل ہوگئے کہ انہوں نے اپنے سامراجی آقاؤں کو ہی کاٹنا شروع کردیا تو پھر یہ گھناؤنا ہتھکنڈا سامراجیوں کے لیے ہی وبال جان بننا شروع ہوگیا۔ تاہم دولت کے اس نظام میں اس ناسور کے خلاف کوئی حتمی لڑائی لڑی جا سکتی تھی نہ ہی سامراجی خدا اور اُن کے مقامی گماشتہ حکمران اپنے اس زہریلے اوزار کا یکسر خاتمہ چاہتے تھے۔ اس لیے یہاں ’’اچھے اور برے‘‘ طالبان کا عنصر نمایاں ہوا۔ سامراجیوں کے آج بھی مشرق وسطیٰ میں القاعدہ کے نعم البدل’’النصرہ فرنٹ ‘‘، ہندو بنیاد پرستانہ وحشت کے لیڈر نریندرا مودی، یہودی بنیاد پرست صیہونی ریاست اور پاکستان کے ان گنت ملاؤں سے تعلقات بھی ہیں، وابستہ مفادات بھی اور مالی اخراجات بھی۔
تاہم مذہبی دہشت گردی کے اس طریقہ واردات کے خلاف جب عوام میں نفرت اور طیش کی انتہا ہوگئی تو انہی سامراجی قوتوں نے اسکی باقیات کو فعال رکھتے ہوئے اس کے متوازن اور مدمقابل سیکولرازم ، ’’جمہوریت‘‘ اور لبرل ازم کی سیاست کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ سی آئی اے نے جہاں مذہبی بنیاد پرستی کے جنون کو پچھلی صدی کے دوسرے حصے میں تخلیق کیا تھا، اب انہوں نے ہی لبرل سیکولر دانشوری کے ذریعے ایک سیاسی رحجان کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔ پاکستان میں سی آئی اے کی اس سویلین شاخ کی قیادت حسین حقانی کے پاس ہے۔ اس سے بہتر ہو بھی کون تھا؟ وہ بنیاد ی طور پر جماعت اسلامی کے سکول کا تربیت یافتہ ہے، پھر وہ نواز شریف اور وہاں سے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت سے خوب فیضیاب ہوا۔ بے نظیر بھٹو کا حسین حقانی کی دانش سے متاثر ہونا اور اس کو سر پر چڑھانا، فکر کے معیار اور عزائم کے بارے میں بہت کچھ آشکار کرتا ہے۔ لیکن اب حسین حقانی صرف پیپلز پارٹی کی سیاست کے سامراجی مفادات کے لیے استعمال تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آج کل کے’’اہم صحافیوں‘‘،’’ادیبوں‘‘، ’’ترقی پسندوں‘‘، ’’لبرل‘‘ اور سیکولر دانشوروں، لکھاریوں،’’وکلا‘‘،این جی اوز اور ’’سماجی کارکنان‘‘ پر مبنی ایک سامراجی جھکاؤ کی رائے عامہ ہموار کرنے کے مشن پر ہے۔ پچھلے دنوں اس سلسلے میں لند ن کا شیریٹن ہوٹل بُک کروایا گیا اور اس قسم کے درجنوں لوگوں کو اس اجلاس میں مدعو کیا گیا۔ اس میں بڑے بڑے ترقی پسند کہلوانے والوں کے نام بھی آتے ہیں، کیونکہ سٹالن ازم کے انہدام کے بعد بہت سا سابقہ ’’بایاں بازو‘‘ اب واشنگٹن سے ماضی کے ماسکو اور بیجنگ والی سہولیات کا طلب گار ہے۔
اس سارے عمل سے یہاں کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کو اپنی سالمیت کا بہت خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ حالانکہ سامراجیوں سے ناطے توڑنے کی ان میں بھی جرات نہیں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اب سماجی رائے عامہ میں سامراج نوازی کو ترقی پسندی کا درجہ دیا جارہا ہے۔ عوام میں سامراجیوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے، یہ جتنی جائز ہے اتنی ہی باشعور بھی ہے۔ اسی وجہ سے وہ جہاں ملاؤں کی جعلی سامراج دشمنی کو مسترد کرتے ہیں وہاں اس نئے ’’سیکولر ازم‘‘ کے جال میں بھی پھانسے نہیں جاسکتے۔ جیسے مذہبی بنیاد پرستی کا حربہ ناکام ونامراد ہوا ہے، ویسے یہ لبرل سیکولر رحجان بھی مسترد ہواہے۔ کیونکہ ایسی مذہبی یا لبرل سیاست میں عوام کے سلگتے مسائل کا حل تو درکنار ان کا تعین بھی ممکن نہیں ہوتا۔ محنت کش اور غریب انسان جب کوئی بغاوت کریں گے تو وہ ان ذلتوں، محرومیوں اور جبر واستحصال کے یکسرخاتمے کے لیے ہی میدان میں آئیں گے۔ یہ ان کی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اپنی تحریک میں وہ سامراجیوں اور مقامی حکمرانوں کے ان سطحی، جعلی اور رجعتی تضادات کو چیر کر انقلابی سوشلزم کی منزل اور مقصد کے لیے ایک حتمی بغاوت میں اتریں گے۔