اداریہ جدوجہد:-
عبدالستار ایدھی کے انتقال پر پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔ یہ محسوس کروایا جا رہا تھا کہ پوری ’’قوم‘‘ ان کی وفات پر دکھ میں مبتلا ہے۔ لیکن قوم کے اندر بسنے والی دو قومیں-امیر اور غریب-مختلف وجوہات اور جذبات کی بنا پر اپنے دکھ کا اظہار کر رہی تھیں۔ حکمران طبقات کے افراد بھرپور منافقت سے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے تھے۔حکمرانوں کا مقصد ہمیشہ ایسے افراد اور شخصیات کو ہیرو کے طور پر ابھارنا ہوتا ہے جو اپنی تمام تر نیک خواہشات اور بے لوث ارادوں کے باوجود اسی نظام میں بہتری کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہوتے بے شمار ہیں لیکن مقبولیت اور شہرت صرف چند ایک کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
اصلاحات اور خیرات کے ذریعے اس نظام کے تحت غربت، ذلت اور محرومی کا خاتمہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ نمائندے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں سے کئی ایک اس حد تک جہالت کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ خیرات وغیرہ کے ذریعے سنجیدگی سے بہتری کی امید رکھتے ہیں۔ تاہم سائنسی حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی سماجی، معاشی اور اخلاقی تنزلی اس بحران زدہ نظام کا بنیادی تقاضا اور ناگزیر پیداوار ہے۔
محنت کش اور غریب عوام ذلت کی گہرائیوں میں اپنی روایتی قیادتوں کی غداریوں اور وقت کی ستم ظریفی سے جس اذیت کا شکار ہوتے ہیں اس کیفیت میں تحریک کے فقدان اور کوئی متبادل میسر نہ آنے کی مایوسی میں بعض اوقات کسی ’’مسیحا‘‘ سے امیدیں لگانے کا رجحان بھی پیدا ہوتا ہے، بالخصوص درمیانے طبقات اور سماج کی پسماندہ پرتوں میں۔ ایسے ادوار میں حکمرانوں کے ذرائع ابلاغ بھی اس نفسیات کو مسلط کرنے اور اس کا پرچار کرنے کا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن آج یہی حکمران ایدھی کے اس آخری پیغام کو دبا دینا چاہتے ہیں جس میں اس نے امداد اور خیرات کے ذریعے مسائل کے حل میں ناکامی کا اعتراف کیا۔ تعلیم اور علاج سے لے کر لاوارث لاشوں کو دفنانے اور بے گھروں کی رہائش تک، ایدھی ٹرسٹ بے شمار فلاحی کام کرتا رہا ہے لیکن دوسری طرف یہ تمام تر مسائل کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایدھی کی تدفین سرکاری سرپرستی میں ’’قومی اعزاز‘‘ کے ساتھ اس ناکام ریاست نے کی۔ جبکہ ایدھی تمام عمر وہ کرنے کی کوشش کرتا رہا جو ان حکمرانوں کے ’’مقدس آئین‘‘کی رو سے ریاست کے فرائض ہیں۔ آج ایدھی کو اعزازات سے نوازنے والی یہی سرمایہ دارانہ ریاست تعلیم اور علاج کی نجکاری میں مصروف ہے، غربت کو شدید اور محرومی کو اذیت ناک بنانے والی ہر اقتصادی پالیسی لاگو کی جا رہی ہے اور بدترین ریاستی جبر و تشدد عام انسانوں پر روا رکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایدھی کی ریاستی تدفین اس کی عزت نہیں بلکہ زندگی بھر کی کاوشوں کی تضحیک ہے۔ جو نظام اس معاشرے میں تمام تر بربادیوں کا ذمہ دار ہے اس کے رکھوالے حکمرانوں اور آلہ کار ریاست کی طرف سے ایدھی کی زندگی اور موت کو ہائی جیک کیا جانا درحقیقت فلاحی کاموں کا کریڈٹ لینے اور ایدھی کو ’کیش‘ کروانے کی کوشش ہے۔ جبکہ یہاں کوئی انسانی فلاح تو دور کی بات، زندگی کو جہنم بنانے پر یہی حکمران اور ان کے ادارے تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں یہ بحران زدہ نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ آبادی کی وسیع اکثریت کے لئے کوئی نئی مصیبت، کوئی نئی محرومی اور ذلت لے کر آتا ہے۔عوام کو یہ حکمران کب تک ایسے خیرات کے سیراب اور فلاح کے خوابوں میں مبتلا رکھ سکتے ہیں۔ اس نظام کی معیشت، ریاست اور سیاست کے زخموں کے درد سے انسانیت کراہ رہی ہے۔ یہی درد، غم و غصے کو بھی جنم دے رہا ہے جو ابھی قدرے خاموش ہے لیکن ناگزیر طور پر انقلابی طوفان بن کر اٹھے گا اور اس نظام کی ہر قدر، ہر ادارے کو چینج کرے گا۔ مارکسی قیادت کے تحت اس انقلاب کی کامیابی محنت کشوں کے اشتراک سے وہ سوشلسٹ ریاست تعمیر کرے گی جس میں ہر محرومی اور بیگانگی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ انسان پر انسان کے جبر و استحصال کے ساتھ ساتھ اس محتاجی کا بھی خاتمہ ہو گا جو اس کی ناگزیر پیداوار اور انسانیت کی تذلیل اور تحقیر ہے۔ سوشلسٹ سماج میں پیداوار کی بہتات انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر آزاد کرے گی۔ انسان آخر کار حقیقی معنوں میں انسان بنے گا!