اداریہ جدوجہد:-
تاریخ کے سفر میں بعض واقعات سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ یہ واقعات اس کشمکش میں ہار یا جیت کی علامت بن جاتے ہیں جو انسانی سماج میں روز اول سے جاری ہے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’تمام تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔‘‘ اس طبقاتی کشمکش میں حکمران طبقہ اگر محنت کشوں کو کچلتا چلا جاتا ہے تو ایسے ادوار بھی آتے ہیں جب محنت کش طبقہ حکمرانوں کے نظام کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اس خطے میں صدیوں سے طبقاتی استحصال جاری ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے محنت کش طبقے کو کبھی کوئی معاشی یا سماجی راحت نصیب نہیں ہوئی۔ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کے نقاب میں سرمائے نے اپنا راج قائم رکھا ہے۔ سرمائے کے اس جبر کے خلاف محنت کشوں نے بھی کئی بغاوتیں کی ہیں۔ 6 نومبر 1968ء کو راولپنڈی میں ایک نوجوان طالب علم عبدالحمید کے پولیس کے ہاتھوں قتل نے پورے ملک میں انقلاب کی آگ بھڑکا دی تھی۔ اسی طرح 25 جولائی 1977ء کو ضیاالحق کا شب خون اور 4 اپریل 1979ء کو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ایسے واقعات ہیں جو رجعت کے جبر اور انقلابی تحریک کی پسپائی کی غمازی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مختلف دھڑے 4 اپریل کا دن ایک افسوسناک یادگار کے طور پر مناتے ہیں۔ لیکن ماتم کرنے والے پارٹی قائدین اس ظلم کے انتقام اور اس انتقام کے مقاصد، لائحہ عمل اور منزل کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہ تھا۔ اصل مقصد طبقاتی کشمکش اور محنت کش طبقے کی اس انقلابی تحریک کا قتل تھا جس کا تشخص بھٹو کی ذات بن چکی تھی۔ اس سال بھٹو کی 35ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس برسی کی تقریبات میں شامل عوام کی تعداد اور مجموعی رویہ، معروض کی نوعیت کا عکاس ہوتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام اور’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ کانعرہ بلند کرنی والی جو پارٹی راتوں رات اس ملک کے محنت کشوں کی سیاسی روایت بن گئی تھی اس سے وابستہ کی جانے والی امیدوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج ان امیدوں اور آرزوؤں کی کیا کیفیت ہے؟ روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم، علاج، روزگار سے محروم محنت کش طبقہ آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ مفلسی اور بیگانگی کا شکار ہے۔ لیکن مجبوری کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو، مایوسی بظاہر کتنی ہی حاوی کیوں نہ ہوجائے، انسان امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا۔ یہ امید زندگی کی تلخیوں اور عذابوں سے نجات کی آرزو بن کر روح اور احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ انقلابی تحریکوں کے طویل درمیانی وقفوں میں کئی مرتبہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ طبقاتی کشمکش ختم ہوچکی ہے۔ قیادت کی غداریاں اور حکمرانوں کی رجعت وقتی طور پر محنت کشوں کو پسپا تو کرسکتی ہے لیکن ایک طبقاتی سماج میں دو متضاد طبقات کے درمیان کشمکش کبھی مٹ نہیں سکتی۔
ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی نے سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ تو بلند کیا تھا لیکن اس انقلاب کو مکمل کرنے کے لئے واضح پروگرام، طریقہ کار اور لینن اسٹ لائحہ عمل موجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فیکٹریوں، کھیتوں اور شہروں، دیہاتوں کے گلی کوچوں میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے انقلاب برپا تو کیا لیکن اس تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سیاسی اوزار تعمیر نہ ہوسکا۔ انقلابی پارٹی انقلاب کے دوران تعمیر نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے کہیں پہلے گھٹن اور جمود کے عہدوں میں پروان چڑھتی ہے۔ تحریکیں اور انقلابات نہ تو انفرادی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں اور نہ ہی انقلابی پارٹی کی تعمیر کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں ایسی شخصیات اور جماعتیں سیاسی خلا کو پر کرتی ہیں جو سماج کو بدلنے کی عوام کی اجتماعی آرزو سے جزوی طور پر میل کھاتے ہوں۔ 1968-69ء میں پیپلز پارٹی ایسا ہی سیاسی مظہر تھااور تیسری دنیا کے اس سماج کی نفسیاتی اور ثقافتی کیفیت کے پیش نظر بھٹو اس کے تشخص اور پہچان کے طور پر نمودار ہوئے تھے۔
پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد اور قوت تو محنت کش عوام ہیں لیکن قیادت اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی خواہش اور نظریات سے محروم ہے۔ جب بھی پاکستان کے عوام بڑے پیمانے پر سیاسی یا انتخابی میدان میں اترتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو برسر اقتدارلے آتے ہیں لیکن پھر پارٹی کی افسر شاہی اور قیادت عوام کی بجائے اقتدار کی ہوجاتی ہے۔ اس موقع پرستی اور غداری کے نتیجے میں عوام میں پیدا ہونے والی بدظنی ان کے سیاسی جذبوں اور امیدوں کو توڑ دیتی ہے جس کے بعد دائیں بازو کی جمہوری یا آمرانہ حکومتیں برسر اقتدار آجاتی ہیں۔ ظلم، جبر اور استحصال کا بازار گرم ہوتا ہے جس کے رد عمل میں عوام کو پھرسیاسی میدان میں اترکر متبادل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس تلاش میں حاوی سیاسی جماعتوں کے بائیں طرف عوام کو اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ پھر پیپلز پارٹی ہے۔ یہ ایک گھن چکر ہے جس میں اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے گھوم رہے ہیں۔ لیکن تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو پہلے کی نسبت بلند یا پست معیار پر دہراتی ہے۔ بھٹو کے بعد آنے والی ہر پیپلز پارٹی حکومت کا رجحان مسلسل پستی کی طرف ہی رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پستی، موقع پرستی، نظریاتی انحراف اور عوام سے غداری کا یہ عمل کب تک جاری رہے گا؟ محنت کش عوام کب تک وقت اور زمانے کو امتحان دیتے رہیں گے؟ معاشرہ تیزی سے معاشی اور سماجی تنزلی کا شکار ہے۔ بربریت کے آثار واضح ہوتے جارہے ہیں۔ خودکشیوں، جرائم، دہشت گردی، جنسی زیادتیوں، بدعنوانی، بے روزگاری اور غربت کو مد نظر رکھیں تو انسانی تہذیب ہی خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے۔ اپنی بربادی کو عوام کب تک برداشت کریں گے؟
جو لوگ تاریخ کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے وہ ناگزیر طور پر انہیں دہراتے ہیں۔ بھٹو کے عدالتی قتل جیسا غیر معمولی واقعہ بہت سے اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ استحصال پر قائم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے غریبوں کے حق میں اصلاحات کرنے والوں کا انجام خوشگوار نہیں ہوتا۔ ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔ حکمران طبقہ موقع ملتے ہیں انہیں راستے سے ہٹا دیتا ہے۔ جب تک سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقات کی حکمرانی اور غلبہ قائم ہے عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے رہیں گے۔
نواز لیگ کی موجودہ حکومت دراصل سرمایہ داروں کا عوام دشمن اور رجعتی اقتدار ہے۔ یہ حکومت تیزی سے محنت کشوں اور غریبو ں پر نجکاری اور مہنگائی کے حملے کرتی چلی جارہی ہے۔ حکمرانوں کے پالیسی ساز اور دانشور یہی سمجھتے ہیں محنت کش طبقہ مستقل طور پر شکست پذیر ہوچکا ہے اور اس میں لڑنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سماج کی رگوں میں بغاوت کا لاوا پک رہا ہے۔ اس آتش فشاں کا دھماکہ یقینی ہے لیکن حتمی وقت کی پیش گوئی ممکن نہیں ہے۔ بے چینی، عدم استحکام اور بظاہر سکوت کسی بڑے طوفان کا پتہ دے رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ عوام اٹھیں گے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا محنت کشوں کی بغاوت کو وہ انقلابی قیادت میسر آسکے گی جو اسے درست راستے پر گامزن کرتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچا سکے؟
پیپلز پارٹی کی موجودہ ’’نوجوان قیادت‘‘ اسے محنت کشوں کی نمائندہ جماعت سے تبدیل کر کے این جی او بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ آج کی نئی نسل کے لئے تاریخ کا چیلنج یہی ہے کہ وہ آنے والے طوفانی واقعات کی تیاری کے لئے منظم سیاسی قوت اور پارٹی کی تعمیر کریں۔ یہ آج کے دور کا سب سے اہم تاریخی فریضہ ہے۔