اگست 1947ء میں برصغیر کی خونریز تقسیم کے ذریعے جو آزادی حاصل ہوئی تھی اسے آج چھیاسٹھ سال گزر چکے ہیں۔ اس خطے کے عظیم شاعر اور اپنے کیمونسٹ ہونے پر فخر کرنے والے فیض احمد فیص نے اس آزادی کو ’’شب گذیدہ سحر‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ انگریزوں کے براہ راست اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی ان کا نافذ کردہ سرمایہ دارانہ نظام، اس نظام کا استحصال اور اس کے نتیجے میں سامراجی تسلط برقرار رہا۔ برصغیر کے محنت کشوں کے لئے یہ ایک مفلوج آزادی تھی کیونکہ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی وہ معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر غلام رہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں اس خطے کے محنت کش عوام کی زندگیاں کہیں زیادہ تلخ، انکی محرومی کہیں زیادہ اذیت ناک اور انکے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ سرکاری دانشوروں اور مڈل کلاس کی ذہنیت کے برعکس ’’آزادی‘‘ کوئی تجریدی چیز نہیں ہے کہ سرکاری طور پر اس کے اعلان کے بعد خوشی کے شادیانے بجائے جائیں بلکہ یہ ایک ٹھوس مادی کیفیت اور حقیقت کا نام ہے جو برصغیر کے سماج میں ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئے گی۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی پاکستان اور ہندوستان کے حکمران 14 اور 15 اگست کوپھر ایک جشن کا اہتمام کریں گے۔ سماج پر غالب ذرائع ابلاغ، خاص کر سرکاری اور کارپوریٹ الیکٹرانک میڈیا پر اس جشن کا اتنا شور کیا جائے گا کہ محنت کش عوام وقتی طور پر اس کے مفتوح ہوجائیں گے۔ تذبذب اور پراضطراب درمیانے طبقے میں ’’جوش و خروش‘‘ خاص طور پر زیادہ ہوگا۔ لیکن بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی کی ذلتوں کے شکار دکھ اور درد کے اس سماج میں یہ جشن نہیں تماشا ہوگا۔ یہ ایک المیہ ہے کہانگریز آقاؤں کی روانگی کے بعد اس استحصالی نظام کو جاری رکھنے کے لئے اس خطے کے عوام پر ایک خاص قسم کی سماجی نفسیات کو مسلط کرنا مقامی حکمران طبقات کے لئے ضروری تھا۔ صرف یہیں نہیں بلکہ دنیا بھر میں حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے درکار نظریات اور نفسیات کو پروان چڑھاتے ہیں اور اس مقصد کے لئے تعلیمی نصاب اور اقدار مرتب کئے جاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس کے ذریعے آزادی کا مقصد بیرونی حکمرانوں کی مقامی حکمرانوں سے تبدیلی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے سماجی علوم میں بھی حسب ضرورت حقائق کو توڑ مروڑ کے قومی شاونزم اورمذہبی منافرتوں کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں اور استحصالی نظام کو ’’فطری‘‘ بنا کر اسے تسلیم کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ اس نصاب سے متاثرہ ہر نئی نسل تاریخی حقائق کو ماننے سے انکار کردیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلی صدی کے دوسرے عشرے میں انگریز سامراج کے جبر و تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی میں ایک نئے رجحان نے جنم لیا تھا۔ آج ’ہندوستان ریپبلکن سوشلسٹ ایسوسی ایشن‘ کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ سرکاری نصابوں کی تاریخ میں جدوجہد آزادی میں محنت کش طبقے کے کردار کو سرے سے غائب کر دیا گیا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریک سے انگریز سامراج کی خوفزدگی کی مثالیں ہمیں اس وقت کے ذرائع ابلاغ میں ملتی ہیں۔ 29 جنوری 1928ء کو برطانوی سامراج کے نمائندہ اخبار ’’لندن ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’’برصغیر میں چلنے والی دونوں تحریکوں، محنت کش طبقے کی تحریک اور حزب مخالف کانگریس کے درمیان کوئی باہمی تعلق موجود نہیں ہے۔ ان کے اس متضاد وجود سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ لارڈارون (وائسرائے ہند) مزدور تحریک کے مسائل پر توجہ دینے میں حق بجانب ہے۔ ‘‘یہاں ’’توجہ دینے‘‘ کا مطلب مزدور تحریک کو ریاستی دہشتگردی سے کچلنا ہی ہے۔ 1943ء تک برصغیر کی تحریک آزادی میں کیمونسٹ پارٹی کا کردار کلیدی تھا، لیکن سٹالن کے چرچل (برطانوی وزیر اعظم)، روز ویلٹ اور ٹرومین (امریکی صدور) کے ساتھ تہران، یالٹا اور پوٹس ڈیم معاہدوں کے بعد ماسکو نواز کیمونسٹ پارٹی کی قیادت نے سٹالن کے احکامات بجا لاتے ہوئے تاریخی جرائم سرزد کئے۔ قیادت کی اس غداری کے باوجود محنت کش طبقے نے ایک بڑی انقلابی تحریک برپا کی جس نے برطانوی سامراج کے ایوانوں کو ہلا کے رکھ دیا۔ 18 فروری 1946ء کو بمبئی، کراچی، مدراس اور دوسرے شہروں میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں نے بغاوت کر دی جو پولیس، فضائیہ اور بری افواج میں سرائیت کر گئی۔ اس بغاوت کو منظم کرنے والی انقلابی کمیٹی کے صدرسگنل مین ایس این خان اور نائب صدر پیٹی آفیسرمدن سنگھ منتخب ہوئے۔ مذہبی فرقہ واریت کو چیرتے ہوئے انہوں نے برطانوی بحری بیڑے کے جہازوں پر سرخ پرچم سربلند کر دئے۔ اس بغاوت سے شکتی حاصل کرتے ہوئے ریلوے اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر کلیدی شعبوں کے صنعتی مزدوروں نے عام ہڑتال کر دی۔ سامراجی بوکھلا گئے۔ ہندوستان میں برطانوی افواج کے سپہ سالار جنرل کلاڈ آکنک نے برطانوی وزیر اعظم ہاؤس (وائیٹ ہال) کو ایک سنگین تار بھیجا: ’’اگر تین دن میں انکو آزادی نہ دی گئی تو یہ اسے چھین کے رہیں گے۔ ‘‘یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ جہازیوں کی اس بغاوت کو کچلنے اور سبوتاژ کرنے میں ہندو اور مسلمان حکمران سیاستدانوں نے انگریزوں سے بھرپور معاونت کی تھی۔ اگر ایک مارکسی قیادت کی موجودگی میں یہ تحریک آگے بڑھتی تو برصغیر کی آزادی، قومی آزادی کے مرحلے تک محدود نہ رہتی بلکہ اس نظام کو اکھاڑتے ہوئے معاشی آزادی اور سماجی نجات کی منزل کی جانب گامزن ہوجاتی، برطانوی سامراجی کی براہ راست حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس کے استحصالی نظام کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔
آج، اس آزادی کے چھیاسٹھ سال بعد بھی اس خطے کے حکمران طبقات عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے۔ ہندوستان کی 28 میں سے 19 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں کچلنے کے لئے کشمیر سے لے کر آندھرا پردیش اور اوریسا تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بدترین ریاستی جبر اور دہشتگردی کر رہی ہے۔ ایک ارب سے زائد انسان مفلسی اور ذلت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ’’پاک بھارت دشمنی‘‘کے زہریلے پراپیگنڈے کے ذریعے بھارتی میڈیاعوام کے سلگتے مسائل کو دبا رہا ہے۔
پاکستان کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ بلوچستان سے کراچی اور کراچی سے پختونخواہ تک، ملک کے ہر کونے میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ یہاں کے باسیوں کی زندگیوں کو ایک جبر مسلسل بنا دیا گیاہے۔ تقسیم کے زخم بھرنے کی بجائے گل سڑ کے تعفن پھیلا رہے ہیں۔ منافرتیں خون ریز ہو کر معصوم انسانوں کو کچل رہی ہیں۔ سرمائے کے نظام میں اس حقیقی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ مارکس نے بہت پہلے وضاحت کی تھی کہ ’’منڈی کی معیشت کی نفسا نفسی اور عدم استحکام میں انسان کو کبھی خوشی اور فلاح نصیب نہیں ہوگی۔ ‘‘
’’یوم آزادی‘‘ کا پیغام یہ ہے کہ حقیقی آزادی کے حصول کے لئے اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس عظیم تاریخی مقصد کے لئے محنت کشوں کو رنگ، نسل، مذہب، فرقے، لسانی اور ماضی کے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی طور پر متحد اور یکجا ہونا ہوگا۔ استحصال کرنے والوں کے خلاف استحصال زدہ عوام کی تحریک اس مسلط کردہ مقدر کو ہی بدل دے گی۔ 1947ء میں لکھی گئی فیص کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ کا آخری بند آج بھی وہی پیغام دے رہا ہے:
ابھی چراغ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی چلے
چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!