| اداریہ ’’مزدور نامہ‘‘ |
اذیتیں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں، مسائل ہیں تو کم ہونے کا نام نہیں لیتے، تکلیفیں ہیں تو ایک سے بڑھ کر ایک۔ اس سماج میں ایک عام انسان کے لئے جینا عذابِ مسلسل بنتا جا رہا ہے۔ غریب محنت کشوں کے لئے زندگی اک آگ کا دریا ہے اور زندہ رہنے کے لئے اس آگ کے دریا کو روزانہ ڈوب کے پار کرنا پڑتا ہے۔ پر سکون محلات، عالی شان عشرت کدوں اور محفوظ آشیانوں میں رہنے والے حکمران کیا جانیں کے پاکستان کی 80 فیصد آبادی کن حالات میں جی رہی ہے! آئین کی بالادستی اور ترمیم در ترمیم، جمہوریت کی بقا، ناقابل تسخیر دفاع کے لئے اسلحہ کی ڈیلیں، میڈیا کی آزادی اور اس جیسے بے شمار ’’مسائل‘‘ کے حل کی ذمہ داری جو ان کے کاندھوں پرآن پڑی ہے۔ انہیں کہاں فرصت کہ یہ سوچیں کہ غریب سے دو وقت کی روٹی بھی چھنتی جا رہی ہے۔ نون لیگ کی موجودہ مزدور دشمن حکومت تو مسائل کے حل کی ڈینگیں مارنے کے اہل بھی نہیں رہی۔ ان حکمرانوں کے شب و روز تو بس اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر میں گزرتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ریاست کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اور تو غریبوں کو کیا دیں گے، جو حقوق یہ ریاست اور اس کا آئین محنت کشوں کو دیتے ہیں وہ بھی تو محنت کشوں سے چھین لئے جاتے ہیں۔ آج ہر ادارہ اپنے محنت کشوں کے لئے جیل خانہ بن چکا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں مزدور چار چار، چھ چھ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کے لئے مجبور کر دیے گئے ہیں جب کہ حکومتی سطح پر کم از کم اجرت بارہ ہزار روپے ہے۔ پہلاسوال تو یہ جنم لیتا ہے کہ کیا حکومت جو اعلان کر دیتی ہے اس پر کوئی عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے کسی خاص کوشش کی ضرورت نہیں۔ بس اپنے اردگرد ایک نظر دوڑا لی جائے تو جواب مل جاتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کم از کم اجرت کتنی؟ اور پھر سوالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے؛کیا واقعی حکومتی سطح پر طے شدہ کم از کم اجرت زندگی گزارنے کے لئے کافی ہے؟ اور یہ اجرت طے کون کرتا ہے؟ اس کے لئے کون سے اشاریے مدنظر رکھے جاتے ہیں؟ جو لوگ یہ طے کرتے ہیں کیا وہ بھی اسی اجرت پر کام کرتے ہیں؟ اس اجرت کو طے کرنے والوں کی اجرت اور آمدن کن اصولوں کے تحت طے ہوتی ہے؟ اور ان افراد کو کیا مزدوروں نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اس اجرت کا تعین کریں؟ کیا انہوں نے اس اجرت کے تعین سے قبل کسی مزدور کے ساتھ ایک دن گزارنے کی بھی کوشش کی ہے؟ کسی مزدور کے شب و روز سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی؟اکثر سوالات کے جوابات مثبت نہیں ہیں۔ پھر یہ اجرت آٹھ گھنٹے کے کام کے لیے ہے جس میں ایک ہفتہ وار چھٹی بھی شامل ہے جبکہ ہر جگہ بارہ سے چودہ گھنٹے کام معمول بن چکا ہے اور ہفتہ وار چھٹی ختم ہو چکی ہے۔ یعنی حقیقی اجرت آدھی سے بھی کم ہو چکی ہے اور مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
ان بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے والوں اور محلوں میں عیاشی کرنے والے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بارہ ہزار میں اپنے گھر کا ماہانہ خرچ چلا کے تو دکھا دے۔ اس بارہ ہزار میں کھانے پینے کے اخراجات، بجلی، گیس اور پانی کا بل، بچوں کی فیس، علاج کے اخراجات، کپڑوں جوتوں اور دیگر لازمی ضروریات کا بجٹ ہی بنا کے دکھا دیں۔ یہ اعلان شدہ کم از کم اجرت مزدوروں سے ایک مذاق کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
کسی ایک کنبے کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آٹھ گھنٹے روزانہ کام کی کم از کم اجرت بھی ایک تولہ سونا ماہانہ کے برابر ہونی چاہئے اور اسے مہنگائی کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہئے۔ اداروں سے افسر شاہی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور تمام تر انتظامی عہدیداروں کی اجرت کسی طور بھی ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ یہ سب ممکن ہے اور اسے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے حصول کے لئے ایک جدوجہد، ایک لڑائی کی ضرورت ہے۔ ہم مزدور ایک پلیٹ فارم پر متحدہ ہو کر ہی اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کو اجتماعی طور پر آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ہمیں رنگ، نسل، زبان، فرقے ، قوم اور قبیلے میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے امیر اور غریب کے طبقاتی فرق کے خاتمے کی جدوجہدکرنی ہو گی۔ یہ کسی ایک ادارے کے مزدوروں کا نہیں بلکہ سب محنت کشوں کا مسئلہ ہے۔ یہ لڑائی صرف اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور کی حکمرانی قائم کی جائے اور امیر اور غریب کا طبقاتی فرق ختم کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ زندگی آسان بنانے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔