اداریہ جدوجہد: بانجھ انتخابات

پاکستان کی حکمران سیاسی اشرافیہ ایک مرتبہ پھر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سرگرم ہے۔ میڈیا ان انتخابات کے گرد بحثوں کو بڑھاوا دے رہاہے۔ ایک طرف دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ہی خدشات کا اظہار کیا جارہاہے تو دوسری طرف جمہوریت اور انتخابات کے لیے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ جتن کرنے کے ناٹک کر رہا ہے۔ عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ انتخابات ان کے تمام مسائل حل کر دیں گے۔ ان کو اتنا مخدوش اس لیے بنایا جارہا ہے کہ محنت کش ان کے لیے ترسیں اور بلک بلک کر ان حکمرانوں اور ان کی پروردہ ریاست سے ان انتخابات کے انعقاد کے لیے فریاد کریں۔
مسلط کردہ سیاسی افق پر موجود تمام بڑی پارٹیوں کے انتخابی منشور کا جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی غریب کے مفادات کا کوئی پروگرام یا پالیسی نظر نہیںآتی۔ عمران خان کی پارٹی بھی بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو ترقی دینے کی بات کر رہی ہے۔ اس پالیسی کو اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جیسے بیرونی سامراجی سرمایہ کاروں کو یہاں کے عوام سے بہت محبت ہو اور ان کا مقصد اس سرمایہ کاری میں اپنی دولت لٹا کر یہاں کے محروموں کو روزگار اور آمدن کا کوئی وسیلہ دیناہو۔ حالانکہ حقیقت ہے کہ ہر سرمایہ دار چاہے وہ داخلی ہو یا خارجی ،اس کی سرمایہ کاری کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے ، یعنی منافع اور بڑھتی ہوئی شرح منافع۔ اپنی تجوریوں کو بھرنے کے علاوہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کرنے کا کوئی اور مقصد اور مطلب ہی نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگوں سے لے کر اے این پی تک، ’’سیکولر‘‘ ایم کیوایم سے لے کر اسلامی پارٹیوں تک، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے لے کر قوم پرستوں تک سب کے پاس صرف یہی ایک معاشی پروگرام رہ گیا ہے۔ محنت کش عوام کے مسائل کے حل،ان کے مفادات کے حصول اور ان کو اس ذلت آمیز زندگی سے چھٹکارا دلانے کا کسی کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ چونکہ محنت کش طبقات کی نجات معاشی اور سماجی نظام کی تبدیلی سے مشروط ہے لہٰذہ موجودہ سیاسی اشرافیہ سے ان کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ عمران خان جس انصاف کا شور کرتا ہے وہ اتنا مہنگا ہے کہ 90 فیصد آبادی کی دسترس سے باہرہے۔ انقلاب کا خوب شور ہے مگر عوام کو انصاف کی مفت فراہمی کا اعلان کرنے کی جرات نہیں ہے۔ تعلیم ،علاج اورروزگار، روٹی،کپڑا اور مکان کی طرح انسان کی بنیادی ضروریات ہیں جن کی مفت فراہمی کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ لیکن اس سیاسی اشرافیہ میں سے کوئی بھی ان کی فراہمی کی بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہو گا۔ ان حکمرانوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا واحد مقصد اپنی دولت اور لوٹ مار کی حصہ داری میں اضافہ کروانا ہے۔ جوں جوں معاشرہ محرومی،غربت ،بیروزگاری،جرائم اور دہشت گردی سے مزید سلگ رہاہے اس کی تپش سے ریاست اور سماج مزید عدمِ استحکام اور خلفشار کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں نئے سیاسی ایکٹر اس تماشے میں نمودارہو رہے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال میں حکمرانوں کے لیے انتخابات کو ’مینیج‘ کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی اس کنفیوژن اور تذبذت کا باعث ہے جس کا آج ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ شکار ہیں۔ عوام میں جو سیاسی بے مہری اور بدگمانی پائی جا رہی ہے اس کی بنیادی وجوہات بھی یہی ہیں کہ اس سیاسی میدان میں ان کو اپنے سلگتے مسائل کا کوئی حل، کوئی پروگرام نہیں مل رہا۔ جمہوریت کے نام پر عوام سے جو معاشی اور اقتصادی انتقام لیا گیا ہے اس کے وار سے ہونے والے درد اور اذیت سے وہ کراہ رہے ہیں۔ عوام کے پاس موجودہ صورت حال کا چونکہ کوئی واضح اور ٹھوس متبادل نہیں ہے لہٰذہ ان کے پاس دولت کی اس جمہوریت میں دولت مندوں کو ہی اپنا نمائندہ چننے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ مارکس نے کہا تھا ہر پانچ سال بعد محنت کشوں کو یہ نظام موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے استحصال کے لئے استحصالیوں کے کسی ایک گروہ کو منتخب کرلیں۔ یہ ممکن ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اس انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے سے گریز کرے لیکن ایسی پچھڑی ہوئی سماجی پرتیں بھی ہیں جو اپنے ووٹ کونقد فروخت کریں گی کیونکہ اس سے زیادہ بہتر ان کے ووٹ کا کوئی استعمال ہے ہی نہیں۔ کبھی جمہوریت اور آمریت کے تضادات پیش کیے جاتے ہیں، کبھی سیکولرازم اور قدامت پرستی کی لڑائی بنائی جاتی ہے اور کبھی لبرل ازم اور مذہبی جنونیت کے تصادم کو سماجی نفسیات پر مسلط کیا جاتا ہے جبکہ یہ تمام مفروضے ایک ہی معاشی اور اقتصادی نظامِ سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔
لیکن یہ کھلواڑ کب تک چلے گا؟ حکمرانوں کے ان تماشوں میں محنت کش عوام کا شعور لاامتناہی طور پر الجھائے تو نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ ستم ہمیشہ تو روا نہیں رہے گا۔ ایک مرتبہ عوام کا اجتماعی شعور جاگ اٹھا تو پھر وہ ان فوجی اور سویلین حکمرانوں سے ایک ایک ستم کا انتقام لیں گے۔ یہی سوشلسٹ انقلاب ہو گا!