اداریہ جدوجہد
نواز شریف اور مریم کو سنائی جانے والی سزا سے انہیں کیا نفع یا نقصان ہو گا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن سزا سنانے اور سنوانے والے اداروں کے معاشرے میں تسلط اور تقدس کو ایک اور کاری ضرب ضرور پڑی ہے۔ مزید برآں فیصلہ سنائے جانے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز نے اپنی جارحانہ روش برقرار رکھتے ہوئے جو فوراً ملک واپس آنے اور گرفتاری دینے کا اعلان کیا ہے اس سے سرکاری آقاؤں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ نواز شریف اگر یہ اعلان نہ کرتا تو اس کی سیاست کو شدید دھچکا لگتا اور وہ کم و بیش ختم ہو کے رہ جاتی۔ لیکن اب صورتحال زیادہ دلچسپ لیکن پیچیدہ ہو چکی ہے جس کے نتائج کئی طرح کے عوامل پر منحصر ہیں۔ یوں یہ لڑائی بڑھ کر حاکمیت کے پورے ڈھانچے کے لئے خطرناک ہو گئی ہے۔ حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف حصوں کے درمیان ابھرنے والے تنازعات جس تصادم میں بدل رہے ہیں جہاں اسے ایک طرف پورے سماج پر مسلط کیا جا رہا ہے وہاں مقدس سمجھے جانے والے اداروں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ قانون کے اندھے پن اور نام نہاد غیر جانب داری کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سینکڑوں معصوموں کے قاتل راؤ انوار کی ضمانت ہو یا دہشت گردی کے خاتمے کے بے شمار دعووں کے بعد پشاور میں ایک خود کش بم دھماکے میں ہارون بلور سمیت اے این پی کے بارہ کارکنان کا اندوہناک قتل، یہ واقعات عام لوگوں کے شعور پر تازیانے لگا رہے ہیں۔ ریاست کی خفیہ چالیں بے نقاب ہوگئی ہیں اور سیاسی اشرافیہ کی بزدلی اور مفاد پرستی بھی ننگی ہو گئی ہے۔ احتساب کے اِس بیہودہ کھلواڑ سے ظاہر ہوگیا ہے کہ اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کبھی بھی صحت مند خطوط پر استوار نہیں ہوسکتی اور ماضی کی جمہوری حکومتیں بھی ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں تھیں۔ بدعنوان حکمران طبقے کی بدکردار سیاست میں جس حد تک جرائم اور لوٹ مار حاوی ہوچکے ہیں اس میں ریاست کے لئے بوقت ضرورت کسی بھی سیاسی نمائندے کی بے خلی کا جواز ڈھونڈنا بڑا آسان ہوگیا ہے۔ لیکن اس سارے عمل میں ریاست کے ادارے بھی اپنی بدعنوانی کو پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ عدلیہ سمیت جہاں تک طاقتور سرکاری اداروں کے کردار کا تعلق ہے تو عام لوگوں کو یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ آج بھی کسی نوآبادیاتی قبضے کا شکار ہیں۔ سرکاری نقطہ نظر سے ہٹ کر کوئی بات کرنے، پالیسی بنانے حتیٰ کہ سوچنے تک کو ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے’’آزاد‘‘ میڈیا بھرپور کاوشوں سے سارے سماج کو نفسیاتی طور پر حقیقی پالیسی ساز اداروں اور ان اداروں میں موجود مخصوص حلقوں کا مطیع بنانے کا کھلواڑ کر رہا تھا۔ لیکن اس نفسیاتی و نظریاتی جبر کو جتنا زیادہ مسلط کیا گیا اتنا ہی یہ کارپوریٹ میڈیا بے توقیر ہوا ہے۔ جب ریاست اپنے مخفی اور مجہول جبر میں اس حد تک چلی جائے کہ اپنے مقدس ترین اداروں کی حقیقت کو ہی بے نقاب کرنے لگے تو پھر وہ ایسے عیار اور زہریلے اوزاروں سے محروم ہو جاتی ہے جو ظلم اور استحصال کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔
جمہوریت اور آمریت کے تضاد کو ابھار کر طبقاتی تضاد کو دبانے کی واردات بھی اب نامرادمعلوم ہوتی ہے۔ کونسی آمریت رہی ہے جس کو یہاں کی سیاسی اشرافیہ کی بھرپور حمایت نہیں ملی اور کونسی ایسی جمہوریت آئی ہے جس میں حتمی فیصلے ریاست کے مقتدر حلقے نہیں کرتے رہے؟ پیسے کی اس جمہوریت میں سرمایہ دار نواز شریف کو کالے دھن کے نودولتیے پچھاڑ گئے ہیں۔ سزا سنائے جانے کے بعد شہباز شریف نے جو پریس کانفرنس کی وہ درحقیقت کسی سرنڈر سے کم نہیں تھی۔ نہ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی کسی جرات مندانہ مزاحمتی تحریک کی کال دی گئی۔ مریم اور نواز شریف کیا پھر انہی عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگیں گے؟ یہاں سوال بڑاسیدھا ہے کہ کیا اب ان انصاف کے مندروں کو مسمار کرکے آگے بڑھنے کا نظریہ، سوچ اور ہمت نواز شریف اور مریم کے پاس ہے؟ شہباز شریف ‘ جالب کا شعر ’’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘‘ بہت پڑھتا ہے۔ لیکن حبیب جالب تو ایک انقلابی سوشلسٹ تھا جس کے نظریات کی وسعت اتنی تھی کہ وہ اس نظام کے آئین، قانون اور اداروں سے آگے دیکھ بھی سکتاتھا اور انہی خطوط پر جدوجہد بھی کر رہا تھا۔ لیکن ایسی نظریاتی وسعت نہ ہونے کے سبب نوا ز شریف کا سفر ایک بند گلی میں رُک جاتا ہے۔ ویسے حکمران طبقات کے خوش فہمیاں پالنے والے حصوں کو بھی کچھ ادراک تو ہوگیا ہوگا کہ ان کے نظام میں اگر انہی کو انصاف نہیں مل سکتا تو محروم اور مظلوم محنت کش طبقات کو بھلا کیسے مل سکتا ہے۔ اس سرمایہ دار طبقے کا کردار نہیں ہے۔ اس لئے پھر سب پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔ باقی سیاسی پارٹیاں پہلے سے ہی سرکار کے آگے سربسجود ہیں۔ عمران خان فی الوقت ’’اے ٹیم‘‘ ہے اور زرداری کو’’بی ٹیم‘‘ کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ کبھی نوازلیگ بھی انہی ٹیموں میں سے ایک ہوا کرتی تھی۔
اس نظام میں نہ تو انصاف مل سکتا ہے نہ ہی تعلیم، علاج اور روزگار۔ نہ معاشرے کو خوشحالی مل سکتی ہے اور نہ ہی انسان کو سماجی اور ثقافتی آزادی حاصل ہوسکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ہر ادارہ سرمائے کا غلام ہوتا ہے۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ جیسے اس نظام سے پیچھے نظام گزرے ہیں ویسے ہی اس کے آگے بھی ایک نظام ہے۔ لیکن انقلاب کے بغیر وہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا ۔ اب تو اس نظام کا بحران اس کی آخری حدود کو بھی عوام کے سامنے عیاں کر گیا ہے۔ ایسے میں اگر نواز شریف پھر اسی نظام کے انتخابات کے ذریعے جدوجہد کی بات کر رہا ہے تو یہ انتخابات بھی انہوں نے ہی کروانے ہیں جنہوں نے یہ سزا سنائی ہے۔ عوام تک پہنچنے کے لئے، ان کے دکھوں کے مداوے کے لئے انقلابی پروگرام درکار ہے۔ جبکہ مسلم لیگوں کا تو خمیر ہی انقلاب کی بجائے رجعت اور سٹیٹس کو پر مبنی ہے۔ لیکن جب سب کچھ بے نقاب ہوچکا ہے تو یہ انتخابات اور ان سے برآمد ہونے والی نئی حکومت بھی عام لوگوں میں اشتعال کو جنم دیں گے۔ یہ اشتعال اگر بھڑک کر انقلاب بنا تو اس کے شعلے سارے نظام کو ہی جلا کر راکھ کردیں گے۔