اداریہ جدوجہد:-
’’گلی گلی میں شور ہے سارے لیڈر چور ہیں!‘‘ یہ نعرہ برصغیر میں کتنی نسلوں سے یہ خلق سنتی آرہی ہے، لگاتی آرہی لیکن جوں جوں کرپشن کے خلاف شور بڑھتا گیا ہے کرپشن مزید پھلتی پھولتی ہی گئی ہے۔ عمران خان نے اس معمول کو ایک غیر معمولی کیفیت دے کر اس پرانے نعرے کو نئے سرے سے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو کرپشن کے خلاف مہم بنیادی طور پر اس نظام زر کے تحفظ اور اسکی المناک بربادیوں کے کردار پر مزید پردہ پوشی کا کام ہی کرتی ہے۔
درحقیقت یہ کرپشن کے علاج کا ڈھونگ اورعوام میں جو شعور پیدا کرنے کی جھوٹی کاوش ہے وہ بیماری کی بجائے اس کی علامات کا علاج کرنے کا نسخہ ہے۔ کرپشن کے اس شور تلے اس حیوانی نظام کی مشقت واستحصال کے مظالم چھپائے جاتے ہیں۔ دولت کو’’جائز طریقوں‘‘ سے اکٹھا کرنے اور اسکی ذخیرہ اندوزی کے لئے رائے عامہ ہموار جاتی ہے۔ کرپشن کے واویلے میں بڑے بڑے امرا، ’’مخیر حضرات‘‘، ’’شرفا‘‘ اور مذہبی پیشوا دولت کے اجتماع اور منافعوں کی ڈاکہ زنی کو جائز قرار دینے کی اصل وار دات کررہے ہیں۔
پہلے تو جائز اور ناجائز دولت کے اجتماع میں تفریق کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ امارت اور غربت میں بڑھتی ہوئی تفریق اور دولت کے انبار لگا کر بھوک اور غربت پھیلانے کو اگر اخلاقی یا قانونی طور پر درست قرار دیا جاتا ہے تو پھر کرپشن کو گالی دینے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ کیا محنت کے استحصال سے حاصل کردہ قدر زائد یا منافع خوری جائز ہے؟ اگر یہ ’کرپشن‘ نہیں ہے تو پھر اس سے بڑا جھوٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ غریبوں کو مزید غریب کرکے اور امارت میں بے ہودہ اضافوں کا عمل اگر جائز ہے تو پھر کرپشن کیسے ناجائز ہے؟لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقیات ہوں یا اقدار، سماجی رجحان ہوں یا مختلف مفروضوں کی تعریف، ایک طبقاتی سماج میں ان کے بنانے او ر بگاڑنے کا حق صرف بالادست طبقات کے نمائندگان اور انکے کاسہ لیس مفکروں اور تجزیہ نگاروں کے جبر کے حوالے کردیا گیا ہے۔
لیکن ایک محروم معاشرے میں جہاں نظام ترقی کرنے اوردینے سے قاصر ہوجائے وہاں کا سرمایہ دار بجلی اور ٹیکس چوری کیے بغیر، سرکاری خزانے کو لوٹے بغیر اور محنت کشوں کی روٹی روزی پر لات مارے بغیر تو سرمایہ دار ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ جیسے جیتے ہیں ویسے ہی مرنہیں سکیں گے، انکی اوباشی پل نہیں سکے گی اور وہ سیاست اور طاقت کوخرید کر حاکمیت کرنہیں سکیں گے۔ جس معاشرے میں ذلت اور رسوائی ہر طرف پھیلی ہو اور زندگی کو اذیت ناک بنار ہی ہووہاں کرپشن معاشرے کی ہڈیوں اور رگوں میں سرائیت کرجاتی ہے۔ کرپشن کے بغیر شناختی کارڈ تک نہیں بن سکتا تو پھر ایسے معاشرے میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا بنیادی طور پر اس نظام کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں ہے جس کی کرپشن ضرورت اور ناگزیر پیداوار ہے۔
فوج میں کرپشن اتنی ہے کہ اس کا وجود اور ڈھانچے بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سپریم کورٹ کا ہر نیا چیف جسٹس عدلیہ کی کرپشن کا رونا روتے روتے اپنی مدت ختم کرلیتا ہے اور عدالتی کرپشن کے ذریعے باقی زندگی عیش وآرام سے گزارتا ہے۔ صحافت میں کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور ہے اورجتنی کرپشن اسکے ان داتاؤں نے کی ہے اور کررہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے میں پولیس کی اشرافیہ بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ معاشرے کی کوئی پرت، کوئی ادارہ، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو کرپشن کے بغیر چل سکتا ہو یا قائم بھی رہ سکے۔ لیکن پھر بھی کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور ہے۔ جہاں ایک کرپٹ عدالتی نظام بدترین کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کو بری کردیتا ہو وہاں وہی حکمران اور جج پھر کرپشن کے خلاف راگ الاپتے ہیں۔ یہ کیسا کھلواڑ، کیسا ناٹک ہے۔ نواز شریف کا خاندان ہو یا باقی حکمران طبقات کے دھڑے ہوں، اگر کرپشن نہیں کریں گے تو اس نظا م میں وہ حکمران بنیں گے کیسے؟ سیاست کے جس جلسے میں کرپشن کے خلاف آگ اگلی جاتی ہے اسی جلسے یا جلوس کو بدترین کرپشن کرنے والے ہی فنانس کرتے ہیں۔ ملک ریاض جیسے کرپٹ نودولیتے، بلیک منی پر چلنے والے جرنیلوں سے لے کرعام سیاسی لیڈروں تک کو کرپشن سے تابع کرلیتے ہیں۔ ہر ادارے کو کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔ صحافت انکی داشتہ بن جاتی ہے۔ ریاست انکی مشکور ہوتی ہے۔ سیاست ان کے کرموں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہے۔
پھر بھی کرپشن کے شور کا کھلواڑ جاری ہے۔ کرپشن کے کھلاڑی عوام کو اس کرپشن کے ایشومیں الجھائے رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اب عوام اس کرپشن کے ناٹک سے اکتا چکے ہیں۔ انکی سیاسی بیگانگی اس ایشوکے استعمال کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بیگانگی جب پھٹے گی تو پھر جاگے ہوئے محنت کش عوام کی یلغار اس پورے نظام زر کو اکھاڑنے اور دولت کی طاقت کو نیست ونابود کرنے کا وار بن جائے گی۔ پھر نہ رہے کا بانس نہ بجے کی بانسری!