اداریہ جدوجہد:-
معیشت کے بحران کے مسلسل اور مہلک زوال نے اشرافیہ کی منافقت اور خصی پن کو عیاں کر دیا ہے۔ بھیانک حالات کے تناظر میں ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان تباہی اور بربادی کی اندھی کھائی میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کے پاس عذر اور توجہ ہٹانے کے طریقے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی بے حسی، سفاکی اور عوام کی جانب تحقیر آمیز رویہ ننگا ہو کر سامنے آ چکا ہے۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے چالیس روزہ جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ پاکستانی حکومت کی جانب سے گرفتاریاں اور اس گروپ سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زیادہ افراد کی ہلاکت بتائی گئی ہے۔ اس کے مطابق ’’مذاکرات خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ جاری رہیں گے اور اگر حکومت واضح پروگرام پیش کرے، تو (طالبان) سنجیدہ قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ‘‘یہ اعلان پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے اس بیان کے تین روز بعد کیا گیا کہ یہ عمل ’’جامع‘‘ مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔
طالبان نے ہزاروں آدمیوں کی رہائی، پاکستانی افواج کے فاٹا سے مکمل انخلاء اور اسے ’’پر امن‘‘ علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے جس کا انتظام طالبانوں کے پاس ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں طالبان نے ایک چھوٹی سی ریاست کا مطالبہ کیا ہے جو ان کے مکمل اختیار میں ہو جہاں وہ اپنے متروک اور ماضی پرست نظریے پر عمل کر سکیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے فیصلے کے جواب میں، حکومت نے وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدارت میں کابینہ کمیٹی برائے قومی سکیورٹی کے اجلاس کے بعد مذاکرات کے عمل کی رفتار ’سست‘ کرنے اور ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے مذاکرات صرف پر امن حالات اور ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے نہ ہونے کی صورت میں ہی کیے جائیں گے، بصورتِ دیگر طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ اجلاس میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، چےئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود، فضائیہ کے چیف طاہر رفیق بٹ، بحریہ کے چیف ایڈمرل محمد آصف سندھیلہ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ظہیر الاسلام اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان بھی شریک تھے۔
اس بد نصیب ملک کے جواں مرد محافظوں کے جانب سے یہ کتنا قابلِ رحم جواب ہے۔ اگر60,000 افراد ذبح اور کئی ہزار اپاہج نہ ہوئے ہوتے تو یہ رپورٹیں مضحکہ خیز محسوس ہوتیں۔ طالبان کے عجیب و غریب مطالبات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان نام نہاد مذاکرات کی کامیابی کے متعلق پہلے ہی کئی شکوک عام پائے جاتے تھے۔ اشرافیہ کے انتہائی زور دارتجزیہ کار وں نے بھی کبھی ان مذاکرات کو سنجیدہ نہیں لیا، اگرچہ وہ اپنے فرائض کی تکمیل میں الیکٹرانک میڈیا پر بے ہودہ، بے معنی اور نہ ختم ہونے والی بحث میں مشغول رہے۔ دریں اثنا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ نیم مذہبی دائیں بازو کی حکومت اور کارپوریٹ میڈیا انتہائی متعصب اور رجعتی ملاؤں کو ٹی وی پر مفت وقت فراہم کرتے رہے کہ وہ اپنے زہر یلے اور نفرت پھیلانے والے خطبے دے کر سماج کو رجعت، خوف اور مایوسی کی دلدل میں مزید دھکیل سکیں۔
چالیس روزہ ’جنگ بندی‘ کے دوران دہشت گرد حملوں میں بمشکل کوئی کمی آئی اور جنگ بندی کے اس تماشے کے خاتمے کے بعد بھی یہ غارت گری نہیں رکے گی۔ مذاکرات کی تمام کاروائی ریاست کے متصادم اور کند ذہن منصوبہ سازوں کی جانب سے ایک دھوکہ اور فریب تھا۔ طالبان نے اپنے کچھ دہشت گرد رہا کروا لیے اور اس کے بدلے ریاست کی کوئی بات نہیں مانی۔ کیا طالبان بہتر سودے باز ہیں یا حکومت کی جانب سے مذاکرت کرنے والے اپنے نظریاتی ہم کاروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے نامور سیاست دانوں کے مشہور بچوں کی رہائی کے مطالبے کا ذکر تک نہیں کیا۔ آخر اغوا برائے تاوان کی آمدنی ان نام نہاد طالبان کا ذریعہ معاش ہے۔ مالیاتی معاملات مذاکرات کے ایجنڈے پر نہیں تھے۔
المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خلاف لڑائی، سب مالی مفادات کے لیے ہے۔ کمیونزم کے خلاف ڈالر جہاد کے ان سابقہ اتحادیوں اور ساتھیوں میں ان اختلافات کے پیچھے حقیقی مسائل نظریہ اور مذہب نہیں ہیں۔ یہ باغی عفریت اور ان کے آقا سی آئی اے کے تاریخ میں سے سب سے بڑے خفیہ آپریشن کی پیداوار ہیں، جس کا مقصد افغانستان میں ہونے والے اپریل1978ء کے ثور انقلاب کو شکست دینا تھا، جو جاگیر داری، قرونِ وسطیٰ کی قبائلی استبداد، عورتوں پر جبر، سرمایہ دارانہ رشتوں اور سامراجی جکڑ بندیوں پر ایک ضرب تھی۔ تاہم سوویت یونین کے انہدام پر جب سامراجی چلے گئے تو اندھیری رجعت کی یہ قوتیں ہیروئن کی پیداوار، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دوسرے مجرمانہ طریقوں سے کالے دھن کا سرمایہ جمع کرنے کے مالیاتی وسائل کو آگے بڑھاتی رہیں۔ جہاں غلط طریقوں سے کمائی گئی دولت ہو، وہاں زمانہ قدیم کے ان ڈاکوؤں کے مختلف رقیبانہ دھڑوں کے مابین خون ریز تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی خاطر ریاست کی مختلف کٹھ پتلیوں کی اس جنگ میں ریاستی سر پرست بھی کھچے چلے گئے۔
افغانستان پر سامراجی جارحیت اور قبضے اور بلیک واٹر اور ڈین کارپ کے کرائے کے فوجیوں اور جنگ اور جاسوسی کے دیگر کارپوریٹ ٹھیکیداروں کے ذریعے پاکستان میں گہری مداخلت نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ اور بگاڑ دیا۔ کرپشن اور کمزوری کی بنا پر پاکستان کی بورژوا سیاسی اشرافیہ ریاست اور اس کی ایجنسیوں کے تابع اوران کے ساتھ شریکِ جرم بن گئی جو ملک کی خارجہ اور داخلی سکیورٹی کی پالیسی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ چناچہ یہ ’طالبان‘ ان مختلف جرائم پیشہ گروہوں کا ایک غلط نام ہے جو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہوئی مختلف علاقائی اور مغربی سامراجی قوتوں کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو بیک وقت امریکیوں، ہندوستانیوں اور پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور ان میں آپسی خون ریز لڑائیاں بھی جاری ہیں۔ ان متنوع گروپوں کو ایک یکجا اکائی بنا کر پیش کرنا اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے انہیں باعزت بنانا ایک شرمناک حرکت ہے۔ آپس میں متصادم مختلف اور متعدد جرائم پیشہ مافیاؤں کے خلاف مذاکرات اور فوجی آپریشن کی لفاظی دھوکہ دہی اور دغابازی پر مبنی ہے۔
لیکن اس سے مسلح افواج میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ فوج کی ہائی کمان کو نوجوان افسران اور ان سپاہیوں کی جانب سے بہت زیادہ ناراضگی اور غم و غصے کا سامنا ہے جو اس جنگ میں لڑ رہے ہیں جہاں کوئی نہیں جانتا کہ اصل دشمن کون ہے اور کہاں ہے؟وفاداریاں فوراً تبدیل ہوتی ہیں۔ کٹھ پتلیوں میں پھوٹ پڑتی ہے اور علیحدہ ہونے والے گروہ اپنی دہشت کے خوف میں اضافے کے لیے سفاکی میں پہلے سے بھی زیادہ ظالم اور دہشت ناک ہو جاتے ہیں، جو ان کے مجرمانہ کاروباروں، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی آمدن میں اضافے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ دولت مند اشرافیہ گلا پھاڑ کر ’جمہوریت کے دفاع‘ کا کراہت آمیز لاگ الاپ رہی ہے۔ اگرچہ فوجی حکام نے کچھ بیانات پر شکایت کی ہے لیکن فوری طور پر ایک فوجی کو کا خطرہ بعید از قیاس ہے۔ زرداری اور نواز شریف کا فوٹو سیشن عوام کی تکالیف کی جانب سیاسی اشرافیہ کے تحقیر آمیز رویے کو تقویت دیتا ہے، کیونکہ جمہوریت کے نسخے سے ذلت، غربت اور محرومی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ متروک، گھناؤنی اور ناگوار کہانیاں اور لیڈر عوام کے لیے قابلِ نفرت ہو چکے ہیں۔
فوجی اور سویلین حکومتوں کی تبدیلیوں سے اس نظام اور ریاست کا بحران مزید گہرا ہوا ہے جو اب بسترِ مرگ پڑے ہیں۔ اس میں یکسر تبدیلی کے بغیر کوئی بہتری اور بدلاؤ نہیں آ سکتا۔ سماج کی شکستگی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ منتشر سماج، تباہ کن معیشت اور تاریخی طور پر فنا نظام میں کسی بھی طرح کا امن، آسودگی اور خوشحالی سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔