اداریہ جدوجہد:-
ہندومت کے نیک اور پرہیز گار بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا دورہ سعودی عرب انتہائی دلچسپ تھا۔ اُدھر کے کٹر اور پرہیز گار وہابی شہنشاہوں نے نیکی کے اس فرشتے کا نہ صرف تاریخی پرتپاک استقبال کیا بلکہ ان شریفین حرم نے سعودی عرب کی بادشاہت پر مبنی ریاست کا سب سے بڑا ایوارڈ اور اعزاز بھی اس ہندو مت کے بنیاد پرست حکمران کی نذر کیا۔ مذہب کوئی بھی ہو اسکے اصل اور کٹر پیروگار ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام اور قدر جانتے ہیں۔ لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگوں کو نیکی اور مذہبی پرہیزگاری کے ان پیامبروں کے ملن، بھائی چارے اور نوازش پر حیرانی ہوئی ۔ پریشانی یا حیرانی تو تب ہونی چاہیے تھی اگر یہ ایوارڈ ہندوستان کے نوجوانوں کمیونسٹ لیڈر کنہیا کمار جیسے کسی فرد کو سعودی شہنشاہ عطاکرتے ۔ کیونکہ مذہب چاہے مختلف سہی لیکن بنیاد پرستی کے جنونیوں کی سوچ، مقاصد، نظریات، طریقہ کار اور لا ئحہ عمل تو مشترک ہی ہیں۔ جہاں’’گناہ‘‘ اور ’’برائی‘‘ ہوگی اس کا خاتمہ کرنے کا انہوں نے اعادہ کیا ہوا ۔دنیا سے ترقی پسندی جیسے گناہ مٹانے کا عزم لیے ہوئے یہ رجعتی حکمران اپنی طاقت اور ریاستی جبر کو کسی انتہا تک بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر ’’مقدر‘‘ نے غریبوں کو غریب بنایا ہے تو انسانوں کا کیا کام ہے کہ وہ اس امارت اور غربت کی تفریق اور استحصال کا خاتمہ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اور پھر اس سے بڑا جرم یہ کہ وہ اسکے خلاف جدوجہد بھی کریں اور بغاوت بھی ! ایسا بالکل نہیں چلے گا! یہ تو ایسے دیندار حکمران اور شہنشاہ کبھی نہیں چاہیں گے!
اگر سعودی حکمران ’’نیکی‘‘ پھیلانے کے لیے ننگی تلواروں سے گردنیں کاٹنے اور سر عام کوڑے لگانے میں شہرت رکھتے ہیں تو مودی بھی ہندومت کے دشمنوں کو زندہ جلانے میں خوب مہارت رکھتا ہے اور اپنے کنٹرول میں کر کے ’’سیکولر ریاست‘‘ کو تماشائی اور رفیق بھی بنا سکتا ہے۔سعودی بادشاہت اور مودی سرکار کے معاملے میں ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے علمبردار سامراجی حکمرانوں کے سر بھی کافی گہرائی تک ریت میں دب جاتے ہیں ۔لیکن پتا نہیں کیوں پاکستان میں سعودی خیرات کے ایندھن پر چلنے والے ملاں اور اس بادشاہت کی پروردہ اسلامی پارٹیوں کے قائدین خاموش ہیں۔ حالانکہ ہمیشہ کی طرح اپنے آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملا کر ان کو تو سعودی مودی بھائی بھائی کے نعرے لگانے چاہئے تھے، کیونکہ مذاہب تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مذہبی لگن کی اس انتہا پر مقاصد تو ایک ہی ہیں کہ قدامت پرستی اور رجعت میں لپیٹ کر سرمایہ دارانہ استحصال کو معاشرے پر مسلط کیا جائے، چاہے کتنا ہی جبر اور کتنی ہی وحشت ڈھانی پڑے۔رجعت اور جبر کو مسلط کرنے کے ریاستی ڈھانچے آخری تجزئیے میں ایک ہی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔سرمائے کی حاکمیت چاہے بادشاہت کی شکل میں ہو یا جمہوریت کے نام پر، بنیادی تقاضا تو دھن اور دولت کے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ اور فروغ ہی ہوتا ہے۔
یہاں کے ملاں اگر کبھی سعودی نمک کا حق ادا کرتے ہوئے ریاست سے پورا کام نہیں کرواپاتے تو بھی اپنے مدرسوں میں بارود میں ملبوس انسانوں کی تیاری کا عمل جاری و ساری رکھتے ہیں جنہیں بازاروں سے لے کر عبادت گاہوں، سکولوں اور تفریحی مقامات پر بوقت ضرورت بروئے کار لایا جاتا ہے۔ جہاں تک سعودی مودی بھائی چارے پر ان کے ہیجان کا تعلق ہے تو اس کے لیے بھی وہ کوئی آسمانی صحیفہ پیش کر سکتے ہیں۔ سعودی دولت کی ترسیل بس جاری رہنی چاہیے ۔
حقیقت یہی ہے کہ مسئلہ نہ مذہب کا ہے نہ نیکی اور بدی کا ہے ۔ مسئلہ اس لکشمی کا ہے جس کے زور پر مودی حاکمیت میں آیا اور جو سعودی بادشاہت کے ظلم وجبر اور طاقت کا بھی سرچشمہ ہے۔ان مٹھی بھر حکمرانوں کو چھوڑ کے یہی دھن دولت نسل انسان کے لیے اب وبال جان بن چکی ہے۔ اس نظام زر کے حکمرانوں کے روپ بدلتے رہتے ہیں، استحصال اور ظلم کی اذیت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ لیکن اس ڈھٹائی سے مذہبی جنون کا سہارا لینے کے معنی یہ ہیں کہ سرمائے کے جبر اور غلبے کے دن تھوڑے ہیں۔ نوجوان اور محنت کش اب صدا اس بربریت کو برداشت نہیں کریں گے!