اداریہ جدوجہد:-
انسانی سماج کو انقلاب سے یکسر تبدیل کردینے کا مقصد جہاں عظیم ترہے وہاں یہ سفر تاریخ کے بعض ادوار میں انتہائی کٹھن اور اذیت ناک بھی بن جاتا ہے۔ اس راستے پر چل پڑنے والے انقلابیوں اور انکی تنظیموں سے وقت، معروض حالات اور زمانے بہت ہی تلخ امتحان لیتے ہیں۔ خصوصاً ایسے عہد میں جہاں معروض کے ارتقا اور کردار کی کیفیت بہت پیچیدہ ہوجائے، ایسے میں معاشرت میں سرایت کئے ہوئے رجعت کے رجحان انقلابی تنظیموں پر پے درپے وار کرتے ہیں۔ انقلاب کا مقصد چننے کی وہ سزائیں دیتے ہیں کہ بہت کم انقلابی ایسے ہوتے ہیں جو ان تابڑ توڑحملوں کے زخم سہہ کر بھی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
کٹھن ترین حالات میں جب ظاہری طو رپر سماجی اُفق پر سے منازل اوجھل ہوجائیں تو مارکسزم کے نظریات اور محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت پر سائنسی اور غیر متزلزل یقین ہر زخم کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن زخم صرف باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی لگتے ہیں۔ تلخ اور طویل راستوں پر ہر کوئی چل نہیں سکتا۔ درمیانے طبقے کی بے صبری جن ’شارٹ کٹ‘ راستوں کی جانب انقلابی تنظیموں کو دھکیلنے کی کوشش کرتی ہے ان پر چل کروقتی طور پر ہیروئن کے ٹیکے کی طرح جوش تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن ٹھوس معاشی اور سماجی حقائق جب جوں کے توں رہتے ہیں تو یہ پیٹی بورژوابگاڑ تنظیموں کوبرباد کردینے کا موجب بن سکتا ہے۔ مارکسی تنظیم کو انقلاب کی تیاری کے ادوار میں مسلسل ایک پتلی لکیر پرایک تناؤبھرے توازن کو برقرار رکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ جب اس توازن کو بے صبری اور کم ظرفی بگاڑتی ہے تو تنظیموں پر بہت ہی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نہ صرف تنظیموں کو ایسے حالات، رجحان، رویے اور عناصر اندر سے گھاؤ لگاتے ہیں بلکہ ہر کامریڈ کو انفرادی طور پر توڑ دینے کے وار بھی کرتے ہیں۔ تاریخ کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت رکھنے والی تنظیموں کی تعمیر طویل جدوجہد،قربانی اور جرات کی متقاضی ہوتی ہے لیکن ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے تو بہت تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ ایسے حالات اور واقعات مارکسی فلسفے کی سائنسی پرکھ رکھنے والوں کے لئے مایوس کن یا حیران کن نہیں ہونے چاہئیں۔ تاریخ کے تمام عظیم انقلابیوں کو ایسے ادوار اور داخلی وبیرونی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، آج اور آنے والے کل میں بھی کرنا پڑے گا۔
مارکس اور اینگلز نے جو پہلی انٹرنیشنل بنائی تھی وہ 1871ء کے پیر س کمیون کی خونی شکست کے بعد رجعت کے ایسے ہی تھپیڑوں سے بکھرنا شروع ہوگئی تھی۔ 1872ء میں مارکس اور اینگلز تنہا رہ گئے تھے، ان کے پاس انٹرنیشنل کے نظریات ضرور تھے لیکن کوئی انٹرنیشنل تنظیم باقی نہیں بچی تھی۔ پھر بھی انہوں نے ہمت ہارنے سے انکار کیا اور نئی انٹرنیشنل کی تشکیل میں مگن ہو کر زندگیاں اس جدوجہد میں گزار دیں جس کے ہم امین ہیں۔ 1905 ء کے انقلاب کی شکست کے بعد لینن کو بھی ایسی ہی تنہائی اور ویرانی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس نے وقت کی موجوں کے خلاف بنیادی مارکسی اصولوں پر جدوجہد اور پارٹی تعمیر کا عمل جاری رکھا۔ مارکس اور اینگلز کے برعکس لینن 1917ء کے بالشویک انقلاب کی بنیاد پر فتح یاب اور سرخرو ہوا۔ پھر ہر طرف سے انقلابی تیسری انٹرنیشنل کی جانب دوڑے چلے آئے۔ ٹراٹسکی کو بھی کم اذیتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ سٹالن کے سیاسی ردِانقلاب نے بالشویک انقلاب کی حقیقی قیادت کورسوا کروایا۔ بالشویک انقلاب برپا کرنے والوں پر ’بالشویک‘ ہونے کے دعویداروں نے کون سی تہمت نہیں باندھی۔ لیکن ٹراٹسکی نے نظریات پر یقین اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے کا سفر جاری رکھا، نئی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور نظریات کو اس پیمانے تک ترقی دی کہ آئندہ نسلوں کے راستے منور ہو گئے۔
ایسے کٹھن ادوار میں اعتبار، وفاداری اور کامریڈشپ جیسے عظیم جذبے بھی زہرآلود ہوسکتے ہیں۔ ایسے ایسے زخم لگتے ہیں کہ ناتجربہ کار انقلابی ان کو برداشت ہی نہیں کرسکتے، ٹوٹ جاتے ہیں یا پھر مارکسزم کے راستے سے ہی بھٹک جاتے ہیں۔ جب گہرے اعتماد اور انحصار ہی دھوکہ دہی کے ماخذ بن جائیں تو چوٹ ضرور لگتی ہے لیکن وقت کی بھٹی میں پک کر فولاد ہو جانے والے کیڈرز کو ایسی ہر چوٹ زیادہ مضبوط کرتی ہے۔ وہ ہر درد کو جدوجہد تیز کرنے کی قوت میں ڈھال لیتے ہیں اور نئے عزم سے آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے میں جو درد آئے، جو چوٹ لگے، جہاں سے بھی وار ہو، اس پر یہی کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’یہ بھی ہو جانے دو!‘‘ کیونکہ بہت کچھ ہوجانے کے بعد بھی انقلاب کا سفر جاری رہتا ہے اور برداشت، تندہی اور مستقل مزاجی سے ہی کٹ سکتا ہے!