تارکین وطن کے المیے!

اداریہ جدوجہد:-

پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں یہاں سے بیرون ملک ہجرت کرنے والے محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے پروفیشنلز کا کردار گزشتہ کئی دہائیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ان کی ترسیل کردہ رقوم زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ان رقوم سے خصوصاً کشمیر جیسے پسماندہ علاقوں کی معیشت کا پہیہ گھومتا ہے جہاں روزگار کے مواقع انتہائی قلیل ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے ان تارکین وطن کی اپنی حالت سماجی اور معاشی طور پر ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
یہاں سے نسبتاً ترقی یافتہ ممالک میں جا کر آباد ہو جانے والوں کی اکثریت اگرچہ محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن ’’باہر‘‘ چلے جانے کی نفسیات بعض اوقات حاوی ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے طبقے سے بالاتر ہو گئے ہوں۔ برتری کے اسی احساس کے پیش نظر وہ یہاں ضرورت نہ ہونے کے باوجود بھی نئے مکان بناتے ہیں، فرسودہ رسم و رواج اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی برتر حیثیت کی دھاک بٹھانے کے لئے بے دریغ اخراجات کرتے ہیں۔ اپنی اس ’’چودھراہٹ‘‘ اور مصنوعی نمائش کے لئے خود کو کنگال کرنے کے بعد جب وہ واپس ’’باہر‘‘ جاتے ہیں تو قرضے اتارنے یا خسارے پورے کرنے کے لئے انہیں کئی کئی ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں۔ درمیانے طبقے کی ’حیثیت‘ کو قائم رکھنے کے لئے وہاں سب سے کم تر درجے کے کام کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن 2008ء کے بعد سے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں معاشی تنزلی کی وجہ سے حالات تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپ میں اسی اقتصادی بحران کی وجہ سے نسل پرستی پہلے ہی پھیل رہی تھی۔
یورپ میں تارکین وطن کی اکثریت کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ کئی نسلیں گزر جانے کے باوجود ایک مخصوص طرز کی سماجی زندگی میں مقید ہیں۔ اس کے پیچھے مذہبیت اور دوسرے رجعتی تعصبات کارفرما ہیں جو بعض اوقات وہاں جا کر پاکستان سے بھی زیادہ، سوچ اور رویوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یورپ میں ملنے والی جنوب ایشیائی کمیونٹیوں میں زیادہ تنگ نظری، قدامت پرستی، خواتین پر جبر، ذات پات اور برادری کے تعصبات اور مذہبی فرقہ واریت کی جکڑ محسوس ہوتی ہے۔ یورپ میں رہ کر پاکستانی اور انڈین میڈیا کے بیہودہ ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔وہاں اور یہاں کے ملاں ان سے چندے لے کر اپنے کاروبار چلاتے ہیں اور مال بناتے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ان تارکین وطن کی نئی نسل کو یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی بائیں بازو کی تحریکوں اور پارٹیوں میں زیادہ سرگرم ہو کر خود کو اور اپنے عزیز و اقارب کو اس رجعت کے خول سے نکالنا ہو گا۔سوشلزم کے نظریات کے تحت ہی دائیں بازو کے فسطائی رجحانات اور نسل پرستی کو شکست دی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ، خصوصاً خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن کی حالت غلام داری سے کم نہیں ہے۔ یہ عربی شیخ، جن کو اتنی مذہبی تعظیم سے پیش کیا جاتا ہے، درحقیقت سامراج کے پالے ہوئے درندے ہیں جن میں کسی انسانی قدر کا شائبہ تک نہ ملے گا۔ تارکین وطن اس ملک کی بیروزگاری اور محرومی سے تنگ ہو کر، اپنی تمام پونجی بیچ بچا کر، وہاں جاتے ہیں۔ اس بھیانک سفر میں پہلے تو فراڈیوں اور ایجنٹوں کا جال پار کرنا پڑتا ہے۔ جو وہاں پہنچ جاتے ہیں انہیں انتہائی تلخ حالات میں کم اجرتوں پر مزدوری کرنا پڑتی ہے، کبھی کفیل کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونا پڑتا ہے۔ادھر سب خوش ہوتے ہیں کہ بیٹا باہر چلا گیا ہے، اسے خوشحالی کی علامت سمجھا جانے لگتا ہے، لیکن باہر بیٹھا نوجوان کن اذیت ناک حالات سے گزرتا ہے، اس کا ادراک شاید کم ہی کیا جاتا ہے۔ وہاں سے کئی مہینے جیل کاٹ کر ڈی پورٹ ہونے والے محنت کش پہلے تو شکر ادا کرتے ہیں لیکن یہاں آتے ہیں تو مصائب پہلے سے بھی بڑھ چکے ہوتے ہیں، ایسے میں وہ کچھ عرصے بعد ہی اِس جہنم سے اُس جہنم جانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں جہاں سے توبہ کر کے پہلے آئے تھے۔
جب تک سوچ اور شعور کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا جو مارکس اور اینگلز نے 167 سال پہلے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں واضح کی تھی کہ ’’مزدور کا کوئی دیس، کوئی وطن نہیں ہوتا اور جو اس کا ہے ہی نہیں ، اس سے کوئی نہیں چھین سکتا‘‘، اس وقت تک بہت سے محنت کش خود کو جسمانی مشقت اور دکھاوے میں برباد کرتے رہیں گے۔ ایک بار جب مارکسزم کے نظریات کے ذریعے وہ محنت اور سرمائے کے تضاد کو سمجھ جائیں گے، معاشرے میں سرمائے اور فرسودہ تعصبات کا کردار پرکھ لیں گے تو ذہنی طور پر آزاد، روحانی طور پر درخشاں اور جسمانی طور پر نئی توانائی سے بھرپور ہو کر طبقاتی جدوجہد میں اتریں گے۔ محنت کسی بھی ملک میں کی جائے اس کا کردار اور استحصال ہر طرف ایک ہی ہے۔ہر دوسرے تعصب کو مسترد کرکے محنت کرنے والوں کی جڑت ہی ان کے مذہبی نسلی قومی جبر سے آزاد کرسکتی ہے۔