ابھی پچھلی نسل کی ہی تو بات ہے کہ ضیا الحق کی خونی آمریت کے خلاف لازوال جرات اور ہمت سے جدوجہد کی گئی۔ نوجوان، مزدوراور کسان قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے اور یہ گولیاں ربڑ کی نہیں تھیں۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو سر عام کوڑے مارے گئے، نہ جانے کتنے پھندے پر جھول گئے یا کبھی واپس نہ آنے کے لئے ٹارچر سیلوں میں بھیج دئیے گئے۔ اس سیاسی تحریک میں پوسٹر لگانے سے لے کر دریاں بچھانے، کرسیاں لگانے اور پنڈال سجانے کا کام بے لوث سیاسی کارکنان کیا کرتے تھے۔ یہ کام کرائے پر کروانا یاپارٹی کارکن کی قیمت لگانا ایک جرم تصور کیا جاتا تھا۔ کسی سیاست دان میں جرات تھی نہ ایسی کوئی ریت روایت کہ سیاسی سرگرمیوں میں زر کا زہر شامل کیا جائے۔
پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان نے ضیا آمریت کی بربریت کے خلاف قربانیوں کی داستان اپنے لہو سے رقم کی۔ پھر جمہوریت آئی۔ چہرے اور سیاست بدل گئے۔ اس ’’جمہوریت‘‘ میں سرمائے کی آمریت اور بھی وحشی ہو گئی۔ نظریات کو سیاست سے خارج کر دیا گیا۔ بدعنوانی کے جغادری، پیسے کے پجاری اور انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شمار ہونے والے سیاسی ’’رہنما‘‘ بن گئے۔ کارکنان کی قربانیوں کو سر بازار نیلام کیا جانے لگا۔ جیلوں، کوڑوں اور پھانسیوں کے نیلام گھر سجائے گئے۔ نظریات سے عاری اس سیاست میں اقتدار کے حصول کے لئے، محنت کش عوام کی روایت پیپلز پارٹی کو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا آلہ کار بنا دیا گیا۔ کارکنان کے لئے سیاست، معیشت، نظرئیے پر بحث و مباحثے اور پارٹی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے تمام راستے بند کر دئیے گئے۔ نجکاری کا آغاز بھی اسی دور میں کیا گیا۔ 1968-69ء میں سرمایہ داری کے خلاف عوام کی آواز بن کر ابھرنے والی پیپلز پارٹی اب اسی نظام کا حصہ بن کے رہ گئی۔ عوام کی امیدیں دم توڑنے لگیں اور پارٹی کی سماجی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی گئیں۔ سامراج اور ریاست نے پینترا بدلا اور حکمران طبقے کی روایتی جماعت مسلم لیگ کو اقتدار میں لایا گیا تاکہ بدگمان اور نڈھال عوام پر کھل کر معاشی حملے کئے جائیں۔ محنت کش طبقے پر استحصال اور لوٹ مار کی کاری ضربیں لگائی جانے لگیں۔ اس ڈاکہ زنی اور بندر بانٹ نے حکمران طبقے کے آپسی نفاق کو جنم دیا اور ریاست کی یہ داخلی لڑائی ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو برسر اقتدار لے آئی۔ قیادت نے پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام سے انحراف کی روش برقرار رکھی۔ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن کے کھلی عوام دشمن سرمایہ دارانہ پالیسیاں اپنائی گئیں۔ توانائی کے شعبے میں مقامی اور سامراجی نجی کمپنیوں کی مداخلت اسی دور میں شروع ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کو مکمل وفاداری کا عندیہ دیا گیا۔ عوام کی آرزوؤں کو کچل کے رکھ دیا گیا۔
عوام برباد ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، ’’جمہوریت‘‘ چلتی رہی لیکن معاشی بحران اور سیاسی خلفشار اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ فوج کو بادل نخواستہ خود میدان میں کودنا پڑا۔ مروجہ سیاست عوام کی نظروں میں مسترد ہو کر اتنی گر چکی تھی کہ مشرف نے اپنے لئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ منتخب کیا۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی اس نیم جمہوریت نیم آمریت کے ذریعے نظام کو چلانے کی کوشش کی گئی۔ عالمی سطح پر معاشی بوم سے فائدہ اٹھا کر کریڈٹ فنانسنگ کے ذریعے نسبتاً بلند معاشی شرح نمو حاصل کی گئی لیکن عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہ آسکی اور اوسطاً دس ہزار انسان ہر روز خط غربت سے نیچے گرتے رہے۔ ریاست کے داخلی تضادات نے مشرف کو رخصت ہونے پر مجبور کیا۔
ایک نئی نسل جوان ہو چکی تھی۔ 18 اکتوبر 2007ء کو نئی نسل کی نئی امید لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو کراچی کی سڑکوں پر لے آئی۔ سامراج، ریاست اور پارٹی قیادت کے معاہدے کو عوام کا سمندر بہا لے گیا۔ وفاداری اور ’حد‘ میں رہنے کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اس ابھرتی ہوئی تحریک کے محور کو 27 دسمبر 2007ء کو ختم کر دیا گیا۔ حسب روایت اس ’’شہادت‘‘ کی بھی بولی لگوائی گئی۔ پیپلز پارٹی حکومت نے بے حسی، انحراف اور زوال پزیری کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری کو نئی انتہاؤں تک پہنچا دیا گیا۔ قدیم یونانی کہاوت ہے کہ دیوتا جنہیں غرق کرنا چاہتے ہیں پہلے انہیں پاگل کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو عوامی استردار کا شکار بنی ہی لیکن بدترین معاشی زوال کی کیفیت میں ریاست کے کچھ حصوں نے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ دلوا کر سرمایہ داروں کی ’’مضبوط حکومت‘‘ قائم کروا دی۔ گزشتہ ایک سال میں عوام کا جو حشر ہوا سو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس’’ مینڈیٹ ‘‘ اور ’’مقبولیت‘‘ کا پول بھی کھل گیا۔ مینڈیٹ جتنا بڑا تھا حکومت اتنی ہی کھوکھلی ہے۔ نواز لیگ کے تمام پارٹی رہنماؤں میں ایک بات مشترک ہے۔ سب بڑے سرمایہ دار اور کاروباری ہیں۔ سنا ہے نواز شریف کے والد نے اسے نصیحت کی تھی کہ جب بھی کسی افسر یا بیوروکریٹ سے کام کروانا ہو تو اس وقت تک کرسی سے نہیں اٹھنا چاہئے جب تک وہ شخص نوٹوں کی گڈی یا بریف کیس اپنی جیب میں یا میز کے نیچے سنبھال کر رکھ نہ لے۔
آج سیاست اس حد تک کمرشلائز ہو چکی ہے کہ پارٹی ٹکٹ، جلسے، جلوس، انتخابی مہم اور دھرنے…ہر سیاسی سرگرمی کاروبار بن چکی ہے۔ عوام سیاست سے لاتعلق اور بد ظن ہیں۔ ان حالات میں سرمائے کی ساری سیاست پیسے اور ٹھیکے پر چلائی جارہی ہے۔ پرانی دہلی کے سیتا رام بازار اور ’’آزاد مارکیٹ‘‘ میں دھرنوں، جلسوں اور مظاہروں کے لئے نہ صرف مختلف محکموں کی وردیاں بلکہ سیاسی کارکنان بھی کرائے پر ملتے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی ایسے ہی بازار کی گاہک ہیں۔
حالیہ نورا کشتی میں حکمران طبقے کے دو سیاسی دھڑے باہم برسر پیکار ہے۔ یہ لانگ مارچ اور دھرنے کروانے والوں کی معاشی بنیادیں مروجہ سیاست کے دوسرے رجحانات سے قطعاً مختلف نہیں ہیں۔ 5 ستمبر کو بی بی سی نے ایک رپورٹ ’’انقلابیوں کو گھر جانے کی اجازت نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان عوامی تحریک کے ’انقلاب مارچ‘ میں مبینہ طور پر کرائے پر لائے جانے والے افراد اب اپنے گھروں کو جانے کے منتظر ہیں۔ ۔ ۔ جب وہ اپنے عہدیداروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تو اْنھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بس سٹینڈ پر اْن کے بندے کھڑے ہیں جو اْنھیں گھر جانے کی بجائے ’اگلے جہاں‘ پہنچا دیں گے اور اْن کے گھر والوں کو بتا دیں گے کہ وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔ ‘‘ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے قادری کے دھرنے میں منہاج القرآن کے ملازمین کی بڑی تعداد شریک ہے، گوجرانوالہ سے لائی گئی خواتین کے گھر والوں کو دس ہزار روپے ماہانہ دئیے جارہے ہیں، ان خواتین کو کہا گیا ہے کہ شیر خوار بچے ساتھ لانے پر انہیں پانچ ہزار روپے اضافی دئیے جائیں گے۔ عمران خان کے مارچ اور دھرنے کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لینن کے بقول ’’سیاست مجتمع معیشت کا عکس ہوتی ہے۔ ‘‘ اگر نواز لیگ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی پارٹی ہے تو تحریک انصاف کی قیادت میں کون سے فقیر بیٹھے ہوئے ہیں؟ طاہر القادری چندہ دینے والی ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے بغیر اپنے مدرسے اور دھرنے چلا سکتا ہے؟ نچلی سطح کے جن ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ تین وقت کا کھانا بھی مل رہا ہے وہ تو ساری عمر بھی دھرنے میں بیٹھنے سے گریز نہیں کریں گے۔
سوال کسی ایک یا دوسری پارٹی کا نہیں ہے۔ ہر طرف سرمائے کا راج ہے۔ یہ راج اسی طبقے کے مفادات کا محافظ ہے جو سیاست اور ریاست کو خرید سکتا ہے۔ یہ سوچنا کہ اس نظام میں کبھی غریبوں کی بھی سنی جائے گی، سراسر خود فریبی ہے۔ تعلیم اور علاج کی فراہمی ’’آئین کے مطابق‘‘ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن حکمران طبقہ کیا آئین پڑھ کر سب کچھ کرتا ہے؟ آئین اور قانون کمزور اور غریب کے لئے ہوتا ہے، طاقتور مکڑی کے یہ جال پھاڑ کے نکل جاتا ہے۔ نجی پاور پلانٹس سے لے صنعت و زراعت اور تعلیم و علاج کے منافع بخش کاروبار تک، جو طبقہ دولت اور ذرائع پیداوار پر حاوی ہے سیاست اور ’’جمہوریت‘‘ بھی اسی کی باندی ہے۔ نواز شریف سے لے کر عمران خان اور طاہر القادری تک… اس سیاست کا ہر رجحان اسی طبقے کا نمائندہ ہے۔ تاریخ میں کسی حکمران طبقے نے اپنی دولت، مراعات اور ملکیت رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ سب کچھ محنت کشوں کو چھیننا پڑتا ہے۔ اسی عمل کو انقلاب کہتے ہیں۔ لیکن استحصالی نظام کی سیاست کرنے والے کبھی اپنے اور اپنے نظام کے خلاف ’’انقلاب‘‘ نہیں کر سکتے۔ محنت کش عوام طبقاتی بنیادوں پر حکمران طبقے اور اس کے نظام کے ہر ادارے، ہر قدر سے ٹکرا کر انقلابات برپا کرتے ہیں اور اشتراکی سماج معرض وجود میں آتے ہیں۔