اداریہ جدوجہد:-
کائنات کا یہ قانون ہے کہ ہر چیز، ہر مظہر مسلسل تغیر، ارتقا، تبدیلی اور حرکت کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی طور پر کوئی انسان ہو یا پورا معاشرہ، جب تک زندگی ہے اس کا ارتقا اور سفر جاری رہتا ہے۔کسی ایک سمت میں سفر رک جائے یا روک دیا جائے تو الٹ یا کسی دوسری سمت میں بھی حرکت جاری رہتی ہے۔ درست سمت اور نجات کی منزل کی جانب سفر جتنا راحت افزا ہوتا ہے اس کے رک جانے اور دوسری اطراف میں سماج اور انسان کا سفر اتنا ہی اذیت ناک اور اکثر اوقات خونریز ہوتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے پورے پاکستان کی طرح کراچی سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں کہ اب یہاں کے حکمران طبقات بھی اپنی کاروباری، سیاسی اور ثقافتی تقاریب دبئی منتقل کر رہے ہیں۔ کرکٹ کے میچ، میڈیا کی تقاریب، پرتعیش پارٹیاں اور حکمرانوں کے جشن وغیرہ سب بیرون ملک ہی ہوتے ہیں۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکمران طبقے نے اپنی حاکمیت میں اس شہر اور ملک کو کس حد تک برباد کر دیا ہے۔ خود اپنی حاکمیت کے علاقوں سے حکمرانوں کا فرار ان کی تاریخی ناکامی، نا اہلی اور سماجی و معاشی شکست کا اعتراف بھی ہے۔
اس خطہ زمین کی تاریخ محمد بن قاسم یا پاکستان کے قیام سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ اس کرہ ارض کی ہزاروں سال پرانی وادی سندھ کی تہذیب کا دیس ہے۔ اشتراکی اور مساوات پر مبنی زندگی والے اس سماج کے آثار آج بھی دیکھنے اور غور کرنے کو موجود ہیں۔ 1947ء کے خونی بٹوارے کے وقت کراچی کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی۔ مذہبی بنیادوں پر اس قدیم تہذیب کی خونی تقسیم اور مذہبی درندگی نے جہاں 27 لاکھ معصوم انسانوں کا لہو بہایا وہاں ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو گھروں سے بے گھر کر کے اور سماجی جڑوں سے اکھاڑ کے ثقافتی طور پر بیگانہ اور نفسیاتی طور پر نسل در نسل عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا بھی کر دیا۔ہجرت سے جنم لینے والی یہ بیگانگی اور عدم تحفظ کی نفسیات اور انسان کے انسان سے خوفزدہ ہونے کا احساس آج تک معاشرے سے مٹ نہیں سکا۔ لیکن انسان میں بقا کی حس سب سے تیز اور طاقتور ہوتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور ہجرت کے بعد انسانوں نے ان انجان معاشروں میں جینے کی کاوشیں پھر سے شروع کر دیں۔ یہ سفر جہاں انفرادی تھا وہاں اجتماعی بھی تھا۔ 1968-69ء کی تحریک اسی سفر میں ایک انقلابی جست تھی جس نے سماج کو طبقاتی بنیادوں پر صف آرا کر دیا اور محنت کرنے والے رنگ، نسل،مذہب اور قوم کے تعصبات کو جھٹک کر طبقاتی جبر و استحصال کے نظام کو للکارنے لگے۔ لیکن انقلابی سمت میں گامزن ہو کر بھی قیادت اور پارٹی کے فقدان نے ان کو منزل سے محروم رکھا۔ سماجی حرکت کی سمتیں پھر بکھر گئیں اور بدلتی رہیں۔ رد انقلابی اور رجعتی دھارے محنت کش طبقے کو کبھی رنگ تو کبھی نسل، مذہب، فرقے اور قوم کے تعصبات اور فریب میں بھٹکاتے رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے بھٹک جانے اور ارتقا کا دھارا منتشر ہو جانے سے جو انتشار پھیلا وہ آج تک خون بہا رہا ہے۔
بٹوارے کے بعد یہاں آنے والے مہاجرین کو یہ بوسیدہ نظامِ معیشت و معاشرت سمو نہ سکا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم جیسے بٹوارے کے زخم آج تک رِس رہے ہیں۔ جہاں غریب اور محنت کش مہاجر اس خوابوں کے وطن سے اکتائے نظر آتے ہیں ایسے میں یہاں کے پرانے باسی اپنی زندگیوں کے تنگ پڑنے پر گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔لیکن رجعتی قیادتیں محنت کشوں کو اگر نجات کے سفر سے بھٹکاتی ہیں تو منافقت اور فریب کے عہد میں بھی ایسے انقلابی عناصر ہوتے ہیں جو انسانی بقا اور نجات کی جنگ جاری رکھتے ہیں۔ تمام تر سناٹے میں بھی ان کی آواز کو کوئی ہم زبان ملے نہ ملے، ان کی پکار جاری رہتی ہے۔ جہاں تہذیب، اخلاقیات، سیاست اور سماجی اقدار دولت کی لونڈی بن جاتے ہیں، ایسے میں بے لوث جدوجہد اور سچائی کا دامن یہ انقلابی اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ راستہ کٹھن ہو سکتا ہے لیکن منزل تو منتظر رہتی ہے۔ اور کٹھن سے کٹھن راستے بھی کٹ کر رہتے ہیں۔سوشلزم کی منزل محنت کشوں اور ان کی آنے والی نسلوں کو مل کر رہے گی۔ انقلاب ہی انسانی آزادی اور شادمانی کا مقدر بنے گا!