اداریہ جدوجہد:-
موجودہ سیاسی تناؤ کی فضا میں جہاں پہلے سے لڑکھڑاتی معیشت مزید اپاہج ہورہی ہے اور عوام کی بدحالی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے وہاں سنسنی خیزی کا کرب اعصابی کھچاؤ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی بوکھلاہٹ ان کے عدم اعتماد کی غمازی کرتی ہے تو ’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے دھرنے اپنے بے مقصد اور لایعنی ہونے کا ثبوت خود دیتے چلے رہے ہیں۔ محنت کش عوام پہلے کیا کم تنگ تھے کہ انکے عذابوں میں اب یہ نیا سیاسی عذاب بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اتنی غیر یقینی کیفیات پاکستان جیسے پرانتشار معاشرے میں کم ہی طوالت اختیار کرتی ہیں۔ یہ دھرنے اب ایسا نان ایشو بن چکے ہیں جو منظر سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ میڈیا کی چاندی ہے۔ ریٹنگ کی ایک لاامتناہی ریس لگی ہوئی ہے۔ جس کے جی میں جو آتا ہے بولتا چلا جارہا ہے۔ پل پل میں وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں، فریق بدلتے جارہے ہیں اورکھیل میں ہر روز کسی نئے کھلاڑی کی انٹری ہو رہی ہے۔ لیکن ہیجان زدہ سماج کی کوکھ میں بھی ایک لاوا بھڑک رہا ہے جو پھٹا تو اس تمام جعلی خلفشار کا صفایا کر دے گا۔
مطالبات بدل رہے ہیں اور مانگوں میں مسلسل ترامیم ہورہی ہیں۔ حکومتی ایوان کبھی پسپا ہوتے ہیں، کبھی دفاع کی حکمت عملی تبدیل ہوتی ہے تو کبھی جارحانہ قدم اٹھانے کی بے دلانہ، بھونڈی اور ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہورہا اور ہو سکتا بھی نہیں۔ قادری کی جماعت ہو، تحریک انصاف ہو یا نواز لیگ۔ ۔ ۔ ان دھرنوں، مد مقابل ریلیوں اور میڈیا پراپیگنڈا پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ یہ اخراجات کو ن کررہا ہے؟وہ کون سے ایسے سخی ہیں جو اپنی دولت کو ان بے مقصد اور بے منظر تحریکوں پر لٹائے جارہے ہیں؟یہ بنیادی سوال ذرائع ابلاغ کے تجزیوں، تبصروں اور بحثوں سے غائب ہے۔
ویسے یہ باتیں اتنی ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ ریاست کے کون کون سے دھڑوں کی کس کس سے کیا کیا لڑائی ہے؟ کوئی نظریاتی جنگ ہے نہ اصولوں اور عقائد کا کوئی جھگڑا ہے۔ نہ ہی اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے وسیع حصے کا کوئی مفاد اس نورا کشتی سے وابستہ ہے۔ حکمران طبقات کا اپنا معاشی اور سماجی نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ سیاست سمیت ہر شعبہ زوال پذیرہے اور عدم استحکام ایک معمول بن چکا ہے۔ ان کی اقدار جھوٹی ہیں،طریقہ کار بدعنوان ہیں اور اخلاقیات منافقت پر مبنی ہیں۔ کاروبار اور لوٹ مار کا نام سیاست ہے اور ریاست اپنے آپ سے ہی برسرِپیکار ہے۔
ریاست کا ایک دھڑا شفاف انتخابات کا بہت شور مچارہاہے اور انتخابی دھاندلی کارونادھونا کیا جارہا ہے۔ اندر سے سب کو پتہ ہے کہ اس بوسیدہ نظام اور ریاست کے ڈھانچوں میں کبھی بھی منصفانہ اور شفاف انتخابات ممکن ہی نہیں ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ کے شوقین حکمرانوں کے اس ملک میں آج تک کوئی انتخابات نہیں ہوئے جن پر بدعنوانی اور دھاندلی کے داغ نہ ہوں۔ تجزیہ نگاروں اور حاوی دانشوروں میں تاثر پایا جاتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات نسبتاً منصفانہ اور شفاف تھے۔ لیکن 1970ء کے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی تھی۔ یہ دھاندلی ہارنے والی پارٹیوں کے خلاف نہیں بلکہ جیتنے والی پارٹی کے خلا ف ہوئی تھی۔ خصوصاً مغربی پاکستان میں اس واردات کے ذریعے پیپلز پارٹی کو دوتہائی اکثریت سے محروم کیا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے خلاف بڑی دھاندلی نہیں ہوسکی تھی۔ اسکی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ سوشلسٹ پروگرام رکھنے والی NAP کے سربراہ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے ماؤ زے تنگ کے حکم پر انتخابات سے چند ماہ قبل تحریک اور الیکشن سے دستبرداری اختیار کرلی تھی جس سے عوامی لیگ کو کھلا میدان مل گیا تھا۔ لیکن زیادہ اہم وجہ یہ تھی کہ عوامی لیگ کا پروگرام اور لائحہ عمل طبقاتی کشمکش کی بجائے قومی آ زادی کی جدوجہد پر مبنی تھا لہٰذا مجیب الرحمٰن کو مشرقی بنگال میں ریاستی مشینری، خصوصاً نچلی پرتوں کی افسر شاہی اور عدلیہ کی حمایت حاصل تھی۔ بنگالی بالادست طبقات کی دولت، ذرائع پیداوار اور جائیدادوں کو بھی عوامی لیگ سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے انہیں 169 میں سے 167 نشستیں حاصل ہوئیں۔
مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کا پروگرام قومی نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد پر مبنی اور سوشلسٹ تھا جس سے ریاستی افسر شاہی، حکمران طبقات کے’’22خاندانوں‘‘، سرمایہ داروں او ر جاگیرداروں سمیت امریکی سامراج کو بھی شدید خطرہ لاحق تھا۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی کے باوجود بھی انتخابی دھاندلی پر احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور پختونخواہ کے مختلف حلقوں کے ساتھ ساتھ کراچی اور کچھ دوسرے شہروں میں دھاندلی کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن اپنے اقتدار اور لوٹ مار کو لاحق اتنے بڑے خطرے کے باوجود ریاست اورحکمران طبقات پیپلز پارٹی کی جیت کو اس لئے روک نہ پائے کیونکہ اس انقلابی تحریک کے ازسر نو ابھار کا خوف تھا جو 6 نومبر 1968ء سے 25 مارچ 1969ء تک ملک کے طول و عرض میں مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں نے برپا کی تھی۔ اس تحریک نے طاقت کا توازن ہی عوام کے حق میں بدل دیا تھا۔ اقتدار حکمرانوں کے ایوانوں سے گلیوں بازاروں، فیکٹریوں،کھیتوں اوریونیورسٹی کالجوں میں منتقل ہو گیا تھا۔ طاقت درحقیقت محنت کش طبقے کے پاس تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے حکمران طبقے سے ’’مصالحت‘‘ (آج کی پارٹی قیادت جس کی بہت دلدادہ ہے) اور مذاکرات کی ہر پیش کش کواس لئے مستردکر دیا تھا کیونکہ اس کے پیچھے بیدار اور متحرک عوام کی قوت اور دباؤ تھا۔ پیپلز پارٹی نے ایوب خان کی’’راؤنڈ ٹیبل کانفرنس‘‘ میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا جبکہ عوامی لیگ سمیت تمام دوسری پارٹیاں اس میں شریک تھیں۔ محنت کشوں نے اس سرزمین پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا تھا لیکن ایک لینن اسٹ پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اس انقلاب کو حتمی فتح سے ہمکنار نہیں کرپائی۔ لیکن پارٹی پر براجمان زرداری ٹولے نے آج کی پیپلزپارٹی کو تو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس ’’پارٹی‘‘ میں 1970ء کی پیپلزپارٹی کا شائبہ تک نظرنہیں آتا۔ کرسٹینالیمب نے اپنی کتاب ’’ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’اگر ذوالفقار علی بھٹو آج اپنی قبر سے اٹھ کر آئیں تو اپنی پارٹی کو پہچان بھی نہ پائیں گے۔‘‘ یہ 1989ء کی صورتحال تھی جس کے بعد تنزلی کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ آج پیپلزپارٹی میں پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام کا ذکر کرنا بالکل ایسے بنا دیا گیا ہے جیسے ضیاء الحق کے دور آمریت میں بھٹو یا پیپلز پارٹی کا سر عام ذکر تھا۔ پارٹی پر قابض سرمایہ داروں اور ضیا باقیات پر ’’ترقی پسندی‘‘ کا غلاف چڑھانے والے طبقاتی جدوجہد کے غدار نام نہاد ’’بائیں بازو‘‘ کے نودولتیے ’’لیڈر‘‘ محنت کش طبقے کے مجرم ہیں۔
1968-69ء کے انقلابی ریلے کو انتخابی چینل میں ڈال کر زائل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انقلابی تحریکوں کی حدت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے انتخابی ہتھکنڈوں کا استعمال حکمران طبقے کا آزمودہ فارمولا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دلوانے میں ناکام اور بے بس تھی۔ فوج کی نچلی پرتوں کے 68 فیصد افسران اور سپاہیوں نے انقلابی سوشلسٹ منشورکو ووٹ دیا تھا۔ 1968-69ء کا انقلاب واقعتا سوشلسٹ تھا جو کارخانوں، تعلیمی اداروں اور دیہاتوں سے پھوٹا تھا۔ آج کے دھرنے اور مارچ مصنوعی ہیں۔ ان میں تڑپ ہے نہ جستجو۔ 1968-69ء کے انقلاب میں عوام کے سامنے مقصد اور منزل واضح تھے۔ ان کی آنکھوں میں اپنی تقدیر بدل دینے کا راستہ مل جانے کی چمک تھی۔ آج حکمرانوں کے رچائے گئے ’’انقلابوں‘‘ اور دھرنوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اس بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔‘‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ کب تک یہ مذہبی سیاسی او ر دائیں بازو کی دوسری پارٹیاں ایسے ناٹکی مارچ اور دھرنوں کے ذریعے عوام کی حقیقی تحریکوں کو روک پائیں گی؟ عوام کے صبر کا پیمانہ تو بس لبریز ہونے کو ہے! یہ طوفان بدیر نہیں جلد اٹھے گا اور جعلی سنسنی کو ختم کرکے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے آگے بڑھ جائے گا۔ 1968-69ء کی میراث آج کی نئی نسل کو پکارتی ہے۔ ۔ ۔