اداریہ جدوجہد:-
جب کسی معاشرے پر زوال آتا ہے تو اسکے رشتوں، ناطوں، قدروں اور ڈھانچوں کا اصل روپ بے نقاب ہوتا ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ ’’برے وقت میں تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ لیکن انسان ہے کہ مانتا نہیں۔ سب کچھ جان کر بھی جھوٹے رشتوں اور سرد مہر آسروں پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
سماجی نظام کا بحران صرف اسکی معیشت ‘ سیاست ‘ثقافت‘ صحافت اور ریاست کی ہی تنزلی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ اسکے ہر ڈھانچے ہر رشتے کو کھوکھلا اور ناقابل اعتبار بنا دیتا ہے۔ عام طور پر لوگوں میں اس بیگانگی کے عالم میں خاندان پر انحصار کا ایک لاشعوری سا آسرا ہوتا ہے۔ لیکن جب مفادات اور مالیات کے تقاضوں کے تھپیڑوں کا سامنا ہوتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کون اپنا کون پرایا ہے۔ خاندان کا ڈھانچہ سماج کا بنیادی یونٹ تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہری اور روایتی طور پر جذبات اور لگن کے رشتوں پر مبنی اس خاندان میں ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کے تصورات سماجی نفسیات میں پائے جاتے ہیں۔ ایک مخصوص عہد اور نظام میں شاید اسکی افادیت بھی تھی ۔لیکن جوں جوں نظامِ زر نے اس معاشرے میں کسی طاعون کی طرح سرایت کی ہے اس کے خاندان کو بھی کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ رشتوں کی پہچان اب مالیاتی حیثیتوں اور سماجی رتبوں پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی بیروزگار نوجوان کی جانب اس کے جاذب ترین خونی رشتوں کی نظریں بھی بدل جاتی ہیں۔ اجتناب کرنے لگی ہیں۔امارت اور غربت کا فرق خاندان کو بھی طبقاتی بنیادوں پر دولخت کردیتا ہے۔امیر گھرانوں میں پلنے والے غریب رشتہ دار جس اذیت سے گزرتے ہیں عمر بھر اس کے عذاب سے نکل نہیں سکتے۔ ماضی کے وہ خاندان جس کا تصور افسانوں اور داستانوں میں ملا کرتا تھا آج سردمہری سے مٹ گیا ہے۔
اب سماجی حیثیت خاندانی رتبے کا تعین کرتی ہے اور یہ سماجی حیثیت دولت اور طاقت کی لونڈی ہوتی ہے۔ ایک طبقاتی نظام میں خاندان رجعتی کردار کا اس لیے حامل ہو جاتا ہے کیونکہ خاندان میں مقام بنانے کے لیے ہر ناطہ‘ ہر خونی رشتہ اور ہر جذباتی لگاؤ کا تعلق صرف یہی ترغیب دیتا ہے کہ ’’معاشرے میں اپنا مقام بناؤ!‘‘ یہ مقام بنانے کے لیے اس سماج میں نہ صرف ضمیر کے سودے کرنے پڑتے ہیں بلکہ دولت کے حصول کی اس اندھی دوڑ میں ہر کسی کو روند کر آگے بڑھنے کی دیوانی اپنے خونی رشتوں اور قریبی عزیزوں کو بھی معاف نہیں کرتی۔
ہر وہ کاوش‘ ہر وہ جدوجہد جو ان گھٹیا اور مادی مفادات سے ہٹ کر ہو‘ فن اور ثقافت کے میدان میں ہو یا اس سماج کو بدلنے اور نسلِ انسانیت کی نجات کے عظیم مقصد کے لیے ہو خاندان کی نظر میں ہیج اور تضحیک آمیز بن جاتی ہے۔ کیونکہ جس خاندان کی اپنی بنیادیں سرمائے کی بیساکھیوں کے آسرے پر ہوں وہ اس معاشرے کی دی ہوئی نفسیاتی اور جذبوں کی اپاہجی سے بھلا کیسے آزاد ہونے دے گا۔ جب ہر معیار‘ ہر تقدس‘ ہر محبت اور ہر ناطے کی قیمت لگ جائے تو وہ ایک بازاری جنس کے علاوہ کیا رہ جاتی ہے۔
خاندان کا بنیادی ستون ماں ہوتی ہے۔ ماں ہی جنس اور دولت کے دوہرے استحصالوں میں جکڑی ہوئی ہو تو پھر وہ خاندان کیسے کسی کا آسرا بن سکتا ہے۔ اس نظامِ زر سے چھٹکارا صرف معاشرے اور خاندان کی آزادی کا نام نہیں ہے بلکہ ہر اس لطیف جذبے‘ خونی رشتے اور سچے پیار کوزر کی غلامی سے آزاد کرواکے اس کو اس پاکیزگی سے منور کروانا مقصود ہوتا ہے۔ جس کو اس نظام نے مجروع اور گھائل کیا ہے۔ ایسا خاندان جو مفادات اور سماجی رتبوں کے لیے اپنوں کو فراموش کردے‘ سچے جذبے رکھنے والے رشتوں کو بے دخل کردے خود اس قابل نہیں کہ اس کا حصہ بنا جاسکے۔اس خاندان کو انسانی رشتوں کی لطافت اور لگن کا گہوارہ بنانے کے لیے پہلے اس زہر سے آلودہ ہر رشتے سے آزاد ہونا پڑتا ہے۔ کچھ غریب لوگ خاندانوں سے دھتکارے جانے کے بعد حادثات اور واقعات کے ذریعے جب ’’بڑے آدمی‘‘ بن جاتے ہیں تو یہی خاندان خود انکی قدم بوسی کرتا ہے۔ لیکن اس نظام میں بڑا آدمی ہمیشہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ نیچ ہوئے بغیر اس میں بڑا کوئی بن نہیں سکتا۔ ایسی لڑائی کو انسانیت اور تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کسی لعنت سے کم نہیں ہے۔ لیکن بڑائی صرف وہ ہوتی ہے جو انسان میں اس زندگی میں ایک ایسا مقصد حاصل کرکے اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردے جو مقصد اس زندگی سے بڑا ہو۔ جو کسی انسان کی انفرادی زندگی کے لیے محدود نہ ہو بلکہ نسلِ انسان کی زندگی کو فلاح اور خوشحالی بہم پہنچانے کی زندگی ہو۔ اس معاشرے میں اپنا صرف وہی ہوسکتا ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے لمبے سفر میں آخری منزل تک مطلب اور مفاد کے بغیر ساتھ نبھا سکے!