اداریہ جدوجہد:-
ویسے تو اس سرمائے کے نظام میں ہر حاکمیت کا بنیادی فریضہ محنت کشوں اور عوام کو لوٹنااور حکمران طبقات کی تجوریاں بھرنا ہوتاہے لیکن حالیہ شریفوں کی حکومت اور ریاستی اشرافیہ نے جتنی لوٹ مار کی انتہا کی ہے اتنے ہی پاک باز ظاہر کیے جارہے ہیں۔ پہلے کچی گولیاں کھیلنے والوں اور نچلے درجے کے فراڈیوں کی حکومت تھی۔ مال تھوڑا اور واویلا زیادہ۔ ویسے بھی غریبوں کے نام پر بنی پارٹی میں لوٹ مار سے جنم لینے والے بھاری بھر کم نودولتیے جلد ہی بے نقاب ہوجاتے ہیں لیکن سرمایہ دار شریفوں کی واردات ہی کچھ الگ ہے۔ ظاہری شرافت اور عاجزی کے ناٹک ہیں اور مال بھاری اور وار گہرے ہیں۔ اس حکومت نے ایسا کشکول توڑا ہے کہ کم ترین مدت میں سب سے زیادہ قرضوں کی مسلسل بھرمارکردی ہے۔ دوسری جانب اتنی ہی سرعت سے اپنے بدعنوان اور رجعتی سرمایہ دار طبقے کے سیٹھوں کے 280 ارب روپے کے قرضے صرف تین سال میں ہی ’’معاف‘‘ کروائے ہیں۔ سامراجی کارپوریشنوں اور کاروباری طبقے کوٹیکسوں میں چھوٹ ہی چھوٹ ہے۔ جتنے بھی سیٹھ جتنے بڑے قرضے لیتے ہیں سرکاری اہل کاروں اور شعبہ معیشت کے افسران پر ان کا سیاسی اور ریاستی جبر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔ دوسری جانب محنت کو ٹھیکیداری نظام پرمنتقل کرنے کے عمل نے سرمایہ داری کے استحصال کو غلام داری سے بھی ابتر بنا دیا ہے۔ بجلی، گیس، پانی، تعلیم، علاج اور غذائی اجناس پر ٹیکس پہ ٹیکس لگتے جارہے ہیں۔ سامراجی اجارہ دار اپنی سرمایہ کاری کے عوض اشیائے صرف اور اجتماعی استعمال کی ضروریات کو مہنگا سے مہنگا کیے جارہے ہیں۔ لیکن اس ننگی معاشی جارحیت کے خلاف کون بولے گا؟ بول بھی کیسے سکتا ہے؟ سیاست، صحافت ریاست اور عدلیہ… سب کے سب خود اس لوٹ مار کے بازار میں حصہ دار اور آڑھتی ہی تو ہیں۔
سماج میں مہنگائی کو اس طرح بڑھایا جارہا ہے جیسے کسی انسانی جسم میں ’’سلوپوائزننگ‘‘ سے ہلکاہلکا زہر سرائیت کروایا جارہا ہو۔ بیواؤں، بزرگوں اور پنشنروں کی ’قومی‘ بچت سکیموں کی آمدن میں کٹوتیاں کی جارہی ہے۔ لیکن اس طرح شرح سود کو کم ترین سطح پر لا کر سرمایہ داروں کے قرضے تقریباًمفت ہورہے ہیں اور سرکار جو خسارے در خسارے کے سلسلے کو پورا کرنے کے لئے بینکوں کا سارا سرمایہ اچک رہی ہے اس کو بھی سستے قرضے میسر ہیں۔ تاہم دنیا بھر کی طرح یہاں بھی سرمایہ دار ان قرضوں کو کسی پیداواری عمل میں لگانے کی بجائے سٹاک ایکسچینج، پراپرٹی اور سٹے بازی کے دوسرے شعبوں میں ہی صرف کر رہے ہیں۔ زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی اور پیداواری سیکٹر بھی روبہ زوال ہیں۔
عوام اس وقت سب کچھ سہہ رہے ہیں۔ وہ سلگ تو رہے ہیں لیکن ابھی بھڑک نہیں رہے۔ لیکن تمام تر سطحی تجزیوں کے برعکس سرمائے کے اس ننگے جبر کو مسلط رکھنے کے لئے نواز شریف کا سب سے زہریلا اور کاری اوزار عمران خان ہے۔ پچھلے تین سالوں کے دوران اگر ’اپوزیشن‘ کی آڑ میں عمران خان کا عنصر نہ ہوتا تو محنت کش طبقے کی تحریک کے واضح امکانات تھے جس سے نواز شریف حکومت کا بچنا ممکن نہ ہوتا۔ ایسی تحریک اس حکومت کو ہی نہیں پورے نظام کو خطرے میں ڈال دیتی۔ لیکن عمران خان کی نام نہاد ’تحریکیں‘ اور دھرنے اصل مسائل پر ابھرنے والی تحریکوں اورطبقاتی جدوجہد کو زائل کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ ان تماشوں کو اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے پورے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ دھرنے کارپوریٹ میڈیا کے لئے منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ نفرت اور بغاوت کی بھاپ جو بنتی ہے عمران خان اور دوسری ’’اپوزیشن‘‘ فروعی مسائل اور نان ایشوز کی چیخ وپکار سے اس کو زائل کروا دیتے ہیں۔ اس طر ح کے ہر دھرنے کے بے انجام اختتام پر نواز شریف حکومت کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر سماج کے لاشعور میں سرائیت کرتا ہے یا کروایا جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کہنے کوبہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن کرنہیں رہی۔ کرنا چاہتی بھی نہیں ہے۔ نوازشریف سے اتفاق بھی ہے اور تکرار بھی۔ قادری کا جوکر اس تاش میں ریاست کے ہی کسی اور حصے نے داخل کیا ہے۔ لفاظی کو انتہا تک لے جا کر پھر عوام کا غم وغصہ مایوسی اور بے بسی میں بدل کرکینیڈا فرار ہوجانا اس کا شیوا بن چکا ہے۔
اب پھر ایک تحریک کرپشن کے خاتمے کے لیے چلائی جارہی ہے۔ لیکن کرپشن ختم کس نے کرنی ہے؟ محنت کش عوام تو اس سیاست کو مسترد کرچکے ہیں۔ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی پوری ریاست اپنے گھناؤنے اور بدعنوان روپ میں بے نقاب ہوچکی ہے۔ وہ ان حقائق کا ادراک رکھتے ہیں کہ عدلیہ بدعنوانی اور رجعت کا تاج سجائے ان انصاف کے مندروں پربراجمان ہے، فوج نے کالی اور سفید معیشت کا ہرشعبہ ہرٹھیکہ اپنے نام کرلیا ہے، ریاست کا انگ انگ کرپشن سے اٹا ہوا ہے۔ عمران خان بھی اسی سیاست کا ناگزیر حصہ اور اوزار ہے۔ اس کے پاس سرمایہ داری کا بھی کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مڈل کلاس نے بھی اسے سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ یہ مسلط سیاست درحقیقت جہانگیر ترین سے اسحاق ڈار اور ملک ریاض سے لے کر میاں منشا جیسے بدعنوان اور لمپن سرمایہ دار دھڑوں کے درمیان لوٹ مار کی لڑائی ہے جو محنت کشوں کے نقطہ نظر سے نورا کشتی کے علاوہ کچھ نہیں۔
لیکن ریاست کے اندر جتنا انتشار اور تضادات ہیں اور یہ سارا نظام جس انتہائی نحیف اور نازک کیفیت میں چل رہا ہے اس کے پیش نظر نواز شریف کااقتدار مسلسل لرزتا رہتاہے۔ نوا ز شریف کا ’’مینڈیٹ‘‘ جتنا بھاری ہے اتنا ہی کھوکھلا اور ناپائیدار بھی ہے۔ حکمرانوں کی اس آپسی نورا کشتی میں یہ سارا سیٹ اپ گر بھی سکتا ہے۔ لیکن پھر آئے گا کون؟ مسائل کا حل اس نظام کے کسی سیاست دان یا پارٹی کے پاس ہے ہی نہیں کیونکہ نظام ہی گل سڑ چکا ہے۔ اس کو بدلنا ہوگا۔ تحریک کو طبقاتی اور انقلابی بنیادوں پر ابھرنا ہوگا۔ اس ملک کی 70 سالہ تاریخ میں یہاں کے عام لوگوں کی تاریخ 1968-69ء کے انقلاب کے صرف 139 دنوں پر محیط ہے۔ باقی سب حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ محنت کش اپنی تاریخ پھر دہرائیں گے۔ لیکن کہیں زیادہ بلند پیمانے پر۔ اس میں دیر ہے لیکن محنت کشوں کا مستقبل اندھیر نہیں ہوسکتا۔ دیر بھی شاید کم ہی رہ گئی ہے!