اداریہ جدوجہد:-
مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی سامراجیوں نے بھارت کو نیوکلیئر کلب (NSG) میں شمولیت کی اجازت دے دی ہے۔ مودی اور بھارت کے حکمران طبقات اسے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ انہوں نے بھی سرکاری طور پر امریکی حکومت کو نیوکلیئر کلب میں شمولیت کی درخواست دائر کر دی ہے۔ دنیا کے دو غریب ترین ممالک کے حکمرانوں کا ایٹمی طاقت ہونے کا جنون مضحکہ خیز نہیں تو شرمناک ضرور ہے۔ ان ایٹمی طاقتوں میں دنیا کی سب سے زیادہ غربت پلتی ہے۔ ایک ارب سے زائد انسان بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ لیکن سرمایہ داری میں یہ حاکمیت غریبوں کی حالت زار بدلنے کے لئے نہیں بلکہ دولت کے انبار لگانے کے لئے ہے۔
1947ء کے بٹوارے کے بعد جنم لینے والی دو مصنوعی ریاستوں کے بارے میں پایا جانے والا تاثر نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہے۔ مغربی اور مقامی کارپوریٹ صحافت اور دانش کی جانب سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک رجعتی اور مذہبی معاشرہ ہے جبکہ ہندوستان ایک ترقی پسند اور روشن خیال سیکولر ریاست ہے۔ لیکن تقسیم کے 70 سال بعد اگر ہم آج کا ہندوستان دیکھیں تو ہمیں یہاں ماضی کے اندھیرے چھائے نظر آتے ہیں۔ ہندومت کی بنیاد پرستی نہ صرف عروج پر ہے بلکہ برسر اقتدار ہے۔ مودی سرکار کی شکل میں اسے جمہوریت کے ملغوبے میں ڈھال کر مسلط کیا جا رہاہے اور ہندوستان کے محنت کش پہلے سے کہیں زیادہ معاشی اور سماجی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد مودی سرکار نے ایک بتدریج جارحانہ انداز میں داخلی طور پر قدامت پرستی کو مسلط کرنا شروع کیا ہے۔ اسی طرح بیرونی طور پر بھی وہ نیولبرل ایجنڈا اور سامراجی عزائم کھل کر جاری رکھے ہوئے ہے۔ معاشی زوال کی موجودہ کیفیت میں ہر ملک کے حکمران اپنے نظام کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ہندوستان کی کل آبادی جہاں 1.25 ارب ہے وہاں تقریباً 30 کروڑ کا درمیانہ طبقہ بھی ہے۔ سب اس وسیع درمیانے طبقے پر مشتمل منڈی کے درپے ہیں اور اس میں اپنے سرمایہ داروں کے مال کی کھپت کے لئے کوشاں ہیں۔ سعودی عرب سے لے کر ایران تک کے رجعتی ملاں اور شہنشاہ مودی جیسے ہندو بنیاد پرست کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رہے ہیں۔
قطر میں مودی نے اپنے حالیہ خطاب کے دوران ہندوستان کی دنیا میں سب سے بلند معاشی شرح نمو (7.7 فیصد)کی خوب ڈینگیں ماریں اور یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ہندوستان ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بن چکا ہے۔ ہندوستان میں جہاں 111 افراد ڈالروں میں ارب پتی ہیں وہاں آبادی کا وسیع حصہ انتہائی غربت، ذلت اور محرومی کی اذیتوں سے دو چار ہیں۔ آدھی آبادی بیت الخلا اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہے۔ لیکن عام انسانوں کی اس حالت زار کے بارے میں ان حالیہ دوروں میں کسی نے مودی سے دریافت کیا اور وہ خود اپنا بھانڈا بھلا کیسے پھوڑ سکتا تھا۔
معاشی ترقی سے اب سرمایہ داری میں معاشرتی ترقی نہیں ہوتی۔ کھوکھلے اور یکطرفہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ہندوستان میں غربت میں کمی کے دعوے بھارتی حکمرانوں کی جانب سے اور سامراجی جریدوں میں ہوتے رہتے ہیں تاہم صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں ہر سال مرتب کئے جانے والے MPI انڈیکس (کئی زاویوں سے غربت کی پیمائش کا انڈیکس) کے مطابق ہندوستان میں 64 کروڑ افراد غربت کی اتھاہ گہرائی میں زندگی گزار رہے ہیں، یعنی دنیا کی 40 فیصد غربت صرف ہندوستان میں پلتی ہے۔ کانگریس اور دوسری علاقائی پارٹیاں سیکولرازم اور جمہوریت کی نعرہ بازی کی سیاست کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس سرمائے کی جمہوریت نے عوام کو صرف برباد ہی کیا ہے۔ مودی کو ان بورژوا پارٹیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت نے بھی ابھی تک یہ سبق نہیں سیکھا کہ ہندوستان جیسے سابق نو آبادیاتی ممالک کے حکمران طبقات تاریخی طور پر تاخیر زدہ ہونے کی وجہ سامراج کی دلالی کا کردار ہی ادا کر سکتے ہیں، سرمایہ داری کے تحت ان ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کا ’مرحلہ‘ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔
ان حالات کو ہندوستان کے محنت کش اور وسیع تر محروم اور مجبور عوام کب تلک برداشت کریں گے۔ انہیں بغاوت پر اترنا ہو گا۔ سرمایہ داری کے تحت نام نہاد معاشی ترقی تضادات کو مٹا نہیں بلکہ بڑھا ہی سکتی ہے۔ یہ تضادات جب بغاوت بن کر تحریک کی شکل میں پھٹیں گے تو کمیونسٹ پارٹیوں کو یا تو ’کمیونسٹ‘ بن کر براہ راست سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام دینا ہو گا، یا پھر تحریک انقلابی قیادت خود تراشے گی۔ ہندوستان کا انقلاب نا گزیر طور پر پورے برصغیر کا سوشلسٹ انقلاب بنے گا۔