اداریہ جدوجہد:-
تیسری بار بطور وزیر اعظم برسر اقتدار آنے والے نواز شریف کی حکومت کے پہلے سال کا اختتام اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے کلرکوں پر بدترین ریاستی تشدد پر ہوا۔ باجوڑ میں سات پاکستانی فوجیوں کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔ ترنول کے قریب خود کش دھماکے میں آئی ایس آئی کے دو کرنل اور تین شہری ہلاک ہوگئے۔ لندن پولیس نے آخر کار الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کر ہی لیا۔ بجلی کی قیمتیں دوگنا کرکے لوڈ شیڈنگ پر ’’جزوی قابو‘‘ پا لیا گیا۔ مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ بے روزگاری کی شرح نئی انتہاؤں کو پہنچ گئی۔ غربت کا سمندر مزید گہرا اور وسیع ہوگیا۔ جس ہائی کورٹ کے دروازے پر ایک بے کس حاملہ عورت کو سنگسار کیا گیا اسی کے جج نے واقعے کی ’’رپورٹ‘‘ طلب کر لی۔
غربت، جبر اور محرومی کے عذابوں میں گھرے عوام کا مذاق اب ’’ترقی‘‘ کے دعوے کر کے اڑایا جارہا ہے۔ بجٹ میں امیروں کی مراعات اور ٹیکس چھوٹ کو دوگنا کردیا گیا ہے۔ عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ محنت کشوں کی تذلیل سر بازار کی گئی ہے۔ اس ذلت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر دارلحکومت کے مرکزی چوک میں پولیس نے ڈنڈوں، لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ کر دی۔ لیکن کلرکوں کی یہ سرکشی کسی بڑے طوفان کی علامت ہے۔ محنت کش عوام کی بغاوت کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی آپسی خونریزی اور فوج پر حملوں کا نیا سلسلہ ’’مذاکرات‘‘ کی بیہودگی اور جعل سازی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اس نان ایشو میں عوام کو زبردستی پھنسانے کی ہر ممکن کوشش میڈیا اور حکمران طبقے کے وظیفہ خوار ’’دانشوروں‘‘ نے کی۔ شروع سے لیکر آخر تک یہ ’’مذاکرات‘‘ ایک فریب تھے جن کا بھیانک انجام ناگزیر تھا۔ دوسری طرف فوجی آپریشن اس ادارے کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ اور سلگتے ہوئے تضادات کی غمازی کرتا ہے۔ فوج کا داخلی تناؤ اتنا شدید ہوچکا ہے کہ ریاست کے اس سب سے طاقتور اور ’فیصلہ کن ‘ ادارے کی صفوں اور ڈھانچوں کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
الطاف حسین کی گرفتاری بھتے، جرائم اور کالے دھن پر مبنی ایم کیو ایم کے اصل ’کاروبار‘ کو عیاں کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اس نیم فسطائی نسل پرست جماعت میں پڑنے والی دراڑیں بھی پچھلے کچھ عرصے سے منظر عام پر آرہی ہیں۔ کراچی کے محنت کشوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے والا حکمران طبقے کا یہ اوزار اب زنگ آلود ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کا زوال، حکمرانوں کے پیدا کردہ نسل، زبان، مذہب اور فرقے کے تعصبات کے پاش پاش ہونے کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ جہاں محنت کشوں کو گھائل کرتا ہے وہاں انہیں حکمرانوں کے آپسی تضادات اور نان ایشوز سے نکل کر معاشی اور سیاسی حقائق کا ادراک کرنے اور نظام کے خلاف بغاوت پر بھی مجبور کرسکتا ہے۔ ’’ترقی‘‘ کے دیوہیکل منصوبے جن کا اتنا شور مچایا جارہا ہے، دراصل چینی اور ترک حکمرانوں کے ساتھ مل کر پہلے سے بھری ہوئی تجوریوں میں مزید دولت ٹھونسنے کی واردات کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان منصوبوں سے قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا اور بچی کھچی معیشت کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔
بجلی کا بحران اور لوڈ شیڈنگ سامراجی اور مقامی کارپوریٹ سرمائے کے لئے اندھے کو ملنے والی دو آنکھوں کے مترادف ہے۔ ان طفیلی جونکوں نے ’’گردشی قرضے‘‘ کے چکر میں سرکاری خزانے کو چوس لیا ہے۔ اب ’’سستی‘‘ بجلی کے ’’نئے‘‘ منصوبوں کے ذریعے عوام کے جسم سے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لینے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ لیکن اس سماج میں انسانوں کی اکثریت نچڑ نچڑ کر پہلے ہی پتھر ہوچکی ہے۔ یہی پتھر آنے والے وقت میں ان حکمرانوں کے سر کچلیں گے۔
شدید معاشی بحران کی کیفیت میں سرمایہ داروں کی روایتی اور کلاسیکی پارٹی کے برسر آقتدار آنے سے طبقاتی جنگ کا نقارہ پہلے ہی بج چکا ہے۔ حکمرانوں کے پہلے واربڑے خوفناک تھے لیکن اب محنت کشوں کی صفیں سیدھی ہورہی ہیں۔ مروجہ سیاست کو عوام مستردکرچکے ہیں۔ اب اس استرداد کا اظہار ہوگا۔ اس جعلی جمہوریت کے انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ انقلاب کے ذریعے۔ شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ انتظار جرم ہے۔ انقلاب کے لئے مستعد اور ٹھوس بنیادوں پر تیاری انقلابی مارکسسٹوں کا ہنگامی فریضہ ہے۔