اداریہ جدوجہد:-
منیر نیازی نے جس آسیب کے سائے والے شہرکا ذکر کیا تھا اس کے سائے صرف گہرے اور تاریک ہی نہیں ہورہے ہیں بلکہ پورا سماج لہو لہان ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کی حالیہ واردات میں سرعام ایک ہی بس پر فائرنگ کرکے 43 نہتے انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ اس قتلِ عام کا کریڈٹ لینے کے لیے بھی خونخوار بنیاد پرست جنونی گروہوں میں مقابلہ جاری ہے۔ کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بظاہر بڑے مذاکرات ہوئے‘ آپریشنوں کی بھرمار کی گئی لیکن یہ دہشت گردی ہے کہ مٹنے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حکمرانوں کی روٹین میں اب ’’مذمتوں کے بیانات‘‘ روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ ملاؤں کے مزے ہیں۔ ہر دہشت گردی کی واردات‘ فرقہ واریت کا ہر قتل‘ عام معصوم انسانوں کو ان کی بے گناہی کی اموات دینا‘ ایسے واقعات ہیں جو پورے معاشرے میں رجعتیت کو تقویت دیتے ہیں۔ ملاؤں کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اس مذہبی جنون کی درندگی میں وہ مزید حیوانی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مسجدوں پر لاؤڈ سپیکروں کی تعداد میں اضافے ہوتے ہیں۔ فرقہ واریت کی نفرتوں سے بھرے اس زہریلے شور سے نہ صرف فضا مزید آلودہ ہوتی ہے بلکہ معاشرے کی سوچ اور نفسیات مجروح ہوتی ہے۔ غربت‘ بھوک‘ افلاس‘ محرومی کی ذلتوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی ہوتی ہے اور اس سب کے نتیجے میں فرقہ واریت کی منافرتوں کے کھلواڑ کرنے والے ان نیک اور پاکباز ملاؤں اور مذہبی پیشواؤں کی تجوریاں کالے دھن سے مزید بھرتی جاتی ہیں۔ پھر اس دہشت گردی کی واردات کو مزید بڑے پیمانے پر جاری کیا جاتا ہے۔ جس سے ان کالی رجعتیت کے جلادوں کی دہشت معاشرے اور کاروبار میں بڑھتی ہے۔ یہ ’’دہشت‘‘ اب ایک بہت ہی قیمتی جنس بن چکی ہے جس کے استعمال سے بلیک میلنگ اور جرائم کے ارتکاب کو ترغیب اور سہولت حاصل ہوتی ہے اور یہ کھلواڑ چلتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ محنت کش طبقہ ششدر ہے۔ حکمران اپنی لوٹ کھسوٹ کے لیے مزید وقت اقتدار کے حصول کی اندھی دوڑ میں ہیں۔ درمیانہ طبقہ یا تو روتا ہے یا پھر اسی وحشی جنون کا حصہ بن کر دولت اور وحشت کے حصول کا شارٹ کٹ تلاش کررہا ہے۔
ریاست ایک مذاق بن چکی ہے۔ عدلیہ دہشت گردوں کے ساتھ اپنے لاڈلوں کا سلوک کرتی ہے اور افواج ان سے ’’لڑ‘‘ بھی رہی ہیں اور انہی کے دوسرے حصوں کو استعمال بھی کرتی ہیں۔ ایسے خلفشار میں پھر کسی بیرونی ہاتھ کا اشارہ دے دیا جاتا ہے۔ میڈیا پہلے بہت شور مچاتا ہے۔ ہر دہشت گردی کے واقعے کو مزدوروں کی تحریکوں کو دبانے اور خبروں سے سینسر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پھر کوئی دوسرا دہشت گردی کا واقعہ‘ کوئی بڑا کرپشن کا سیکنڈل میڈیا کی زینت بن جاتا ہے۔ اور عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو اس سیاہ پردے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہ یہ معاشرہ جس بربریت کی جانب بڑھ رہا ہے وہ یہاں سے تہذیب وتمدن کو تاراج کردے گی۔ غریب توپہلے ہی بربادہیں حکمرانوں کے کیٹ واک اور بدقماشیاں بھی تباہ وبرباد ہوجائیں گی۔ دہشت گردی ان کے اس نظامِ زر کی براہِ راست پیداوار ہے۔ ٹراٹسکی نے اس کو سرمایہ دارانہ ناسور کا عرق قرار دیا تھا۔ سوسال پہلے عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے جب کہا تھا کہ ایک صدی بعد یہ نظام انسانیت کو جس دوراہے پر آن کھڑا کرے گا وہاں ایک طرف بربریت ہوگی، دوسری جانب نجات کا راستہ سوشلزم ہوگا۔ پاکستان میں اب یہ محض تناظر نہیں رہ گیا‘ یہ ہورہا ہے۔ جس نظام کی وجہ سے ہورہا ہے اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ لیکن اس نظام زر کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑے بغیر بربریت کی یہ بڑھتی ہوئی کیفیت روکی نہیں جاسکتی۔ بربریت ایک حقیقت بن کر انسانی زندگی کو فنا کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آج عملی طور پریہ فیصلہ ہماری چوکھٹ پر کھڑا ہے۔ زیادہ دیر ایسا نہیں رہے گا۔ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لیکن سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی ضرورت انتہاؤں پر سلگ رہی ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ اپنے طبقاتی وجود کے ہوتے ہوئے اس بربریت کو چھانے نہیں دے گا۔ اس کا پیمانہ بھی لبریز ہورہا ہے۔ اس کا لاوا بھی اب شدت سے بھڑک رہا ہے۔ یہ پھٹنے کو ہے۔ اس انقلاب کی تیاری کی ضرورت کی شدت شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب جینا ہے تو لڑنا ہوگا ورنہ جن حاصلات کے لیے زندگیوں کی اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے ان کاملنا تو درکنار‘ جو موجود ہے وہ بھی بربا د ہوجائے گا۔ جب معاشرہ‘ تہذیب اور تمدن ہی تاراج ہوجائے گا تو انسانی زندگی کے معنی کیا رہ جائیں گے؟