وقت

اداریہ جدوجہد:-

جب معیشت دم توڑ رہی ہو، عوام غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہوں، محنت کش طبقہ قیادت کی غداریوں سے بدظن ہوکر خاموش اضطراب میں مبتلا ہو، دہشت گردی اور قتل و غارت گری سماجی معمول کا درجہ اختیار کر جائیں، رشتے مٹ رہے ہوں اور احساس ماند پڑ جائیں، پورا معاشرہ بیگانگی اور نیم رجعت کی لپیٹ میں آ جائے، بیروزگاری اور ناخواندگی عام ہو، کوئی راستہ کوئی منزل نظر نہ آئے، بدعنوانی اور منافقت اخلاقیات کا درجہ اختیار کرلیں اور ہر طرف مجبوری و محکومی کا راج ہو تو سیاست بھلا کیسی ہوگی؟ ان حالات میں ریاست کی حالت کیا ہوگی؟ لیکن ریاست ٹوٹ پھوٹ اور بدترین داخلی انتشار کے باوجود بھی چل رہی ہے اور زمینی حقائق سے کوسوں دور ہونے کے باوجود بھی حاوی سیاست میں شور و غل مچا ہوا ہے۔
آج اخلاقی اقدار، ثقافت اور فن کے معیار گر گئے ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی بظاہر طاقتور ہونے کے باوجود اندر سے کھوکھلی ہے۔ رعونت اور جاہ و جلال کی بیش بہا نمائش کے باوجود حکمران بے اختیاراور بے بس ہیں۔ ایک کے بعد دوسری ’’جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوچکی ہے لیکن ریاست اور سیاست میں عوام کی نمائندگی سرے سے موجود نہیں ہے۔ بیمار لاعلاج ہیں اور بچے تعلیم سے محروم۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اوربجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ معاشی و سماجی انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور حکمران بے نیاز ہیں۔ وہ ایک کے بعد دوسرا ’’منصوبہ‘‘ شروع کرنے میں مصروف ہیں۔ منصوبے پہلے بھی بہت بنے ہیں اور آگے بھی بنتے رہیں گے لیکن عوام کے بنیادی مسائل نہ پہلے حل ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام کی بنیاد پر سماج کا ہر ادارہ قائم ہوتا ہے اور معیشت چلتی ہے وہ خود مر چکا ہے۔ سرمایہ داری اپنا وقت، اپنی مدت پوری کرچکی ہے۔ یہ نظام دنیا کے کسی کونے میں انسانیت کو آسودگی اور آسائش دینے سے قاصر ہے۔ کوئی بھی نظام جب تک پیداواری قوتوں کو ترقی دے رہا ہو، سماج کو آگے بڑھا رہا ہو تب تک معیشت میں اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے کہ حکمران چھوٹی موٹی مراعات عوام کو دے کر پرسکون طریقے سے استحصال جاری رکھ سکیں۔ لیکن ایک متروک نظام پر براجمان حکمران طبقے کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ محنت کش طبقے کی جدوجہد کے تمام راستے بند کردئیے جائیں اور بے حسی کی آخری حدتک جاکر عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا جائے۔ آج حکومت میں بھی حکمران بیٹھے ہیں اور اپوزیشن بھی انہی کی ہے۔ فوج بھی ان کے لئے ہے اور عدلیہ بھی انہی کی باندی ہے۔ صحافت بھی حکمران طبقے کے ایجنڈے پر چلتی ہے اور ثقافت کے معیار بھی وہی طے کرتے ہیں۔ انہوں نے عوام کے لئے صرف ملا، مسجد اور اطاعت ہی چھوڑی ہے۔
تاریخ کے کسی حکمران طبقے نے صرف طاقت اور جبر کے زور پر اپنا اقتدار اور استحصال قائم نہیں رکھا ہے۔ یہ لوگ محنت کش عوام کے شعور کو بھی نفسیاتی زنجیروں میں قید رکھتے ہیں۔ محکوم طبقے کی سوچ کو اس قدر محدود اور چھوٹا کر دینے کی کوشش کی جاتی ہے یہ طبقاتی نظام کو حتمی و آخری، ازلی و ابدی سمجھنے لگے۔ ’’احتجاج‘‘کی حدود مقرر کردی جاتی ہیں جس میں رہ کر ’’سول سوسائٹی‘‘ اور این جی اوز موم بتیاں جلاتی ہیں اور سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی اور لبرل ازم کا جعلی تضاد بھی حکمران طبقے کی وارداتوں میں سے ایک ہے۔ ذرائع ابلاغ پر براجمان ’’دانشور‘‘ اور تجزیہ نگار بھی سامراج اور حکمران طبقے کے تنخواہ دار ہیں۔ ان کے پاس عمران خان بھی ہے اور نواز شریف بھی، فضل الرحمان بھی ہے اور طاہرالقادری بھی۔ اس تماشے میں کٹھ پتلیوں کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت پڑنے پر کسی کی بھی ڈوری ہلا کر ناچ کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ڈوریاں صرف مقامی حکمران طبقے، جرنیلوں اور ریاست کے ہاتھ میں ہی نہیں ہیں بلکہ یہاں امریکہ سے لے کر چین اور سعودی عرب سے کر ایران تک کی مداخلت بھی موجود ہے۔ جماعت اسلامی سے لے کر ایم کیو ایم، اے این پی، قوم پرستوں اور بلوچستان کی این جی او حکومت تک، سب اس سیاسی ڈرامے میں اپنے اپنے طے شدہ کردار ادا کررہے ہیں۔
لیکن اس دیوہیکل ریاست اور سرمائے کی بیش بہا طاقت کے باوجود بھی یہ حکمران خوفزدہ ہیں۔ ان کا تذبذب بے معنی بیانات، مسلسل بنتی بگڑتی پالیسیوں، مردہ باڈی لینگویج اور بیزار لہجے سے ظاہر ہے۔ یہ بے وجہ کی بیان بازیاں اور الزامات، یہ بے موقع نورا کشتیاں یونہی تو نہیں کروائی جارہی ہیں۔ سماج کی اس ساکت سطح کے نیچے ایک ہلچل بپا ہے۔ ایک خلفشار اور بے چینی ہے جسے حکمران بھی محسوس کررہے ہیں۔ یہ جتنی بھی کوشش کرلیں سماج کی حرکت کو ختم نہیں کرسکتے۔ وقت کی پکار کو ہمیشہ کے لئے نہیں دبا سکتے۔ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ تحریک میں تاخیر کا ازالہ اس کی شدت، معیار اور حجم سے ہوجاتا ہے۔
ذلت سے نجات کی جدوجہد انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ عوام کی دبی ہوئی صدا حشر برپا کرے گی۔ آج یہ معاشرتی سکوت، سماجی جمود، عوام کی خاموشی اور محنت کش طبقے کی مایوسی کسی بڑے بھونچال کا پتا دے رہے ہیں۔ وہ طوفان جو اس نظام کو حکمران طبقے کی سیاست، ریاست، معیشت، ثقافت اور اقدار سمیت اکھاڑ کر رکھ دے گا۔ ان حکمرانوں کو اپنی حماقتوں پر پچھتانے کا وقت بھی نہیں مل پائے گا۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس بھی وقت بہت کم ہے۔ وقت، جو تمام تر صلاحیت اور توانائی کو انقلابی قوت کی تعمیر کے لئے وقف کردینے کا متقاضی ہے!