اداریہ جدوجہد
کیلنڈر کے سال بدلنے سے عام انسانوں کے حالات نہیں بدلتے۔ لیکن یہی مظلوم محنت کش مخلوق جب تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنے معاشرے کے حالات بدل دیتی ہے تو وقت کا کردار بھی بدل جاتا ہے۔ لیکن انقلابات کے دن اور تاریخیں دینے سے وہ برپا نہیں ہوتے۔ جب محنت کشوں کی سرکشی سرفراز ہوتی ہے تو پھر وقت ،دن اور عہد اس کے تابع ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 2017ء جیسے ادوار محض محنت کشوں کو کٹھنائیوں سے دوچار کرکے ان کا امتحان لیتے ہیں۔ انقلابیوں کے ظرف، ثابت قدمی، ہمت اور انقلاب کے یقین کو تاریخ کی کسوٹیوں پر مسلسل پرکھتے ہی جاتے ہیں۔ ایسے حالات کبھی سالوں اور کبھی دہائیوں تک چلتے ہیں۔ کچھ لوگ تھک جاتے ہیں، کچھ ہارجاتے ہیں،کچھ دغا دے جاتے ہیں اور کچھ بک جاتے ہیں۔لیکن وقت تو چلتا ہی رہتا ہے۔ طبقاتی کشمکش ماند پڑ سکتی ہے، ختم نہیں ہوا کرتی ۔
یہ اذیت جہاں لاکھوں کروڑوں کو گھائل اور مجروح کرتی رہتی ہے وہاں اس کی آگ کی شدت ایسے کندن بھی بناتی ہے جو تاریخ کا دھارا موڑنے کی جرات اور حوصلے سے سرشار ہوتے ہیں۔ حالات کے تھپیڑے ایسی چٹانوں سے ٹکراکر خود ایک نہ ایک دن، کسی نہ کسی سال ہار ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
استحصالی نظام کے دیوتا اپنی رعونت اور قدامت پرستی میں اس عہد کو لامتناہی سمجھ کر اپنے تسلط کو لافانی تصور کرنے لگتے ہیں۔ لیکن کائنات اور تاریخ کا یہ اصول اور قانون ہے کہ ہر چیز مسلسل تغیر اور تبدیلی کا شکار رہتی ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ عام حالات اس عمل سے عاری ہیں لیکن اس ارتقائی عمل کا جاری رہنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ تبدیلیاں عیاں نہیں بھی ہوتیں تو مجتمع ضرور ہوتی رہتی ہیں۔ سماج میں بھی، دلوں اور احساس میں بھی اور حالات و واقعات میں بھی! ظلم، جبر اور استحصال بے دریغ ہو کر اپنے وار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی بظاہر کسی مزاحمت اور بغاوت کے آثار بھی نظر نہیں آتے لیکن محنت کشوں کے سینوں میں نفرت، حقارت اور انتقام کی جو چنگاریاں ابھرتی ہیں وہ بھڑک کر باہر نہ آئیں تو بھی بجھتی نہیں ہیں۔ جسم و جاں میں گردش کرنے والا لہو اپنی تپش سے ان کو راکھ نہیں ہونے دیتا۔ لیکن یہ کسی ایک دل و دماغ کا عمل نہیں ہے۔ ہر فرد کی جہاں اپنی ایک ذات ہے وہاں وہ عام افراد کے کُل کا ایک جزو بھی ہے۔ اس معاشرے پر مسلط بالادست طبقات کی دولت کی ہوس ان کو پیسہ بنانے والی مشین بنا دیتی ہے۔ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ محروم ہوجاتے ہیں ۔
لیکن جنہیں زندگی گزارنے کی ضروریات کی کاوش اور جستجو اور دن رات کے نہ ختم ہونے والے تناؤ میں اپنا وقت صر ف کرنا پڑتا ہے وہ انسان ہونے کے ناطے اس سلگتے احساس سے سرشار ہوتے رہتے ہیں کہ اس عذابِ مسلسل میں انہیں ڈالنے والا کون اور کیونکر ہے ۔عام طور پر انکی پرکھ دھندلی اورمتجسس رہتی ہے۔ لیکن پورا معاشرہ یہ ادراک حاصل کرنے کی سلگتی خواہش ضرور رکھتا ہے۔ سماج ان اذیت ناک حالات سے بیزار بھی ہوتا ہے لیکن ان کو بدلنے کی تڑپتی آرزو اور جستجو اس کے لاشعور میں موجود اور متحرک ضرور رہتی ہے۔ اورجب یہ چنگاریاں بڑھتے بڑھتے ایسے مقداری حجم تک جاپہنچتی ہیں کہ ان کا اب اندر سمائے رہنا ممکن نہیں رہتا تو ایک دھماکہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ احساس کسی انفرادی شخص میں نہیں لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکنوں میں سلگ رہا ہوتا ہے۔ جب محنت کرنے والے ان کروڑوں کے لاشعور اور دلوں میں یہ احساس ایک مقدار سے معیار کی شکل اختیار کرجاتا ہے تو رگوں اور شریانوں میں تڑپ ایک اجتماعی بغاوت کی آگ بھڑکا دیتی ہے۔ معروض بھی اس تبدیلی اور بدلتے حالات کی شورش سے بے مہر نہیں رہ سکتا۔ اس کا جھکاؤ بدلنے لگتا ہے۔ ایک نئے دور کے تقاضوں کے آگے اسے سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ پورا معاشرہ، مروجہ نظام اور حاکمیت اس آگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہونے لگتے ہیں۔ یہ آتش فشاں پھٹ کر پرانے عہد کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور ایک نئے خوشحال اور آزاد انسان کے معاشرے کی بنیاد ڈالتا ہے۔ تاریخ کا یہ عمل نا گزیر ہے۔ یہیں سے ایک نئے وقت، نئے عہد اور انسان کے تسخیر کائنات کے سفر کا رک نہ سکنے والا قافلہ رواں دواں ہوگا۔ کون جانے کہیں 2018ء ایسا ہی ایک سال نہ بن جائے!