اداریہ جدوجہد: سرحدوں کا تناؤ

جہاں پاکستان او ر ہندوستان شدید داخلی بحرانوں اور خلفشار کا شکار ہیں وہاں کئی سالوں بعد کشمیر کی کنٹرول لائین پر جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں کئی پاکستانی اور ہندوستانی فوجی ہلاک وزخمی ہوئے ہیں۔ اس فائرنگ کا ایک ایسے وقت میں کیے جانا جب بھارت میں ایک 23 سالہ طالبہ کے گینگ ریپ کے خلاف اس سلگتے ہوئے سماج کے تضادات پھٹ کر ایک تحریک کی شکل میں ابھرنے لگے تھے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی مولوی قادری کے مصنوعی لانگ مارچ کو بلوچستان میں جبر کے خلاف بغاوت اور کراچی کی خونریزی میں شدت کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ جھڑپیں اتنی بھی بے وجہ اور بے وقت نہیں تھیں۔ 19 ویں صدی کے شہرہ آفاق جرمن جرنیل اور جنگی ماہر کلازویٹز نے لکھا تھا کہ ’’جنگ داخلی پالیسیوں کا پرتشدد بیرونی تسلسل ہوتی ہے‘‘۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ کارگل میں بھی ایک ادھوری جنگ ہوئی تھی۔ لیکن پچھلے 42سال میں اگر ایک مکمل جنگی تصادم نہیں ہوا تو اسکی وجہ حکمرانوں میں جنگ کرنے کی معاشی گنجائش کا نہ ہونا ہے۔ لیکن اس عرصے میں سرحدی تناؤ اور جنگ کے بغیر حالتِ جنگ کی سیاسی وسماجی کیفیات کئی مرتبہ آچکی ہیں جن کے بعد امن کے مذاکرات کے وقفے درمیان میں آتے ہیں جو پھر کسی بڑے واقعے کے بعد دشمنی کے تناؤ کے حالات میں بدل جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات نہ تو جنگ کی تباہ کاریوں کے متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جامع اور ٹھوس امن قائم کرسکتے ہیں۔ اس کیفیت کو جنم دینے میں سامراجی آقاؤں کا بھی بڑ ا عمل دخل ہے۔ ایک طرف تو برصغیر میں سامراجی اجارہ داریوں کی سرمایہ کاری اور کمپنیوں کو جنگ سے تباہی کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ اور دوسرے سامراجی ممالک کی تباہ کن ہتھیار بنانے والی اسلحہ سازکمپنیوں کو بھی پاکستان اور ہندوستان کی ریاستی منڈی شدت سے درکار ہے۔ اس لیے سامراجی ناخدا اس خطے میں اپنے معاشی اور منافع خوری کے مفادات کے لیے اس نیم حالت جنگ اور امن ’’مذکرات برائے مذاکرات‘‘ کے سلسلے کو بھی جاری رکھوانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس عمل میں برصغیر کے ان ممالک کی سویلین اشرافیہ کے مفادات بھی ان اسلحے کے سودوں کے کمیشنوں اور مقامی ریاستوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ حالیہ جھڑپیں اور تناؤ آخری نہیں ہے۔ جب تک یہ نظام اس کا بحران اور اس کے خلاف ابھرنے والی بغاوتیں طبقاتی کشمکش کی صورت میں ابھرتی رہیں گی یہ جنگی حالات اور سماجی نفسیات بار بار ابھاری جائے گی اور اس کو حکمران میڈیا کے ذریعے محنت کش عوام کی نفسیات پر مسلط کیا جاتا رہے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ داری نظام ظلم اور جبر کے بغیر چل نہیں سکتا اور جب تک ظلم اور محرومی رہے گی امن بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر ہم تاریخی حقائق سے پہلو تہی نہ کریں تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سرحدیں قائم ہی اس تناؤ اور برصغیر جنوب ایشیا میں مسلسل عدم استحکام کو جاری رکھنے کے لیے کی گئی تھیں۔ 1947ء کے بٹوارے کے وقت چین سے لے کر ویت نام تک پورے ایشیا میں ایک سرخ آندھی چل رہی تھی‘ اگر انگریز سامراج اس بٹوارے کے بغیر ہی برصغیر چھوڑ جاتاتو پھر قومی آزادی کی تحریک اس مرحلے تک رکنے والی نہیں تھی۔ وہ سماجی اور معاشی آزادی کی جانب بڑھ جاتی اور سامراجی استحصال اور سرمایہ دارانہ جبر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پاش پاش ہوجانا تھا۔ 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت اور پورے برصغیر میں تیزی سے پھیل جانے والا انقلاب اس امر کی تاریخی گواہی ہیں۔ جہاں 1893ء میں مغرب میں پشتونوں کو تقسیم کرنے والی ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی تھی‘ اسی طرح 1947ء میں مشرق میں سامراج کی ریڈکلف لائن کے ذریعے خونریز بٹوارہ کروایا تھا۔ 65سال بعد بھی وہ زخم نہیں بھرے۔ اس خطے میں آج دنیا کی 22 فیصد آبادی ہے جبکہ اس کرہ ارض کی40 فیصد غربت یہاں پلتی ہے۔ برصغیر کے ڈیڑھ ارب عام انسانوں کے غربت‘ محرومی‘ بھوک اور افلاس کے دکھ ایک ہیں‘ اس لیے ان کے مفادات اور مقاصد جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی منزل ایک ہے۔ اس نظام سے نجات کی۔ ۔ ۔ !جنگ اور امن کے کھیل حکمرانوں کے ہتھکنڈے ہیں جن سے وہ یہاں طبقاتی استحصال اور قومی جبر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں امن صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے اور انقلابات سرحدوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایک طبقاتی جنگ کی سوشلسٹ فتح ہی یہاں قومی جنگوں او ر دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ صرف اسی انقلاب سے ہی یہاں غربت ‘ ذلت او ر محرومی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور امن‘ خوشحالی اور آزادی کا آغاز ممکن ہے۔

متعلقہ:
65 واں جشنِ آزادی : حکمران آزادی کا جبر۔۔۔ کب تلک؟

پاک بھار ت تعلقات؛ مصنوعی دشمنی جعلی دوستی

پاک بھارت ویزے کا گھن چکر