اداریہ جدوجہد: 18 اکتوبر کی شکست

2007ء میں آمریت اور جمہوریت کا ایک بے ہودہ ملغوبہ بکھرنے لگا تھا۔ معاشی شرح نمو کا تیز ابھار آٹھ سالوں میں سماج میں تضادات کو مٹانے کی بجائے ان کو بھڑکا گیا تھا۔ہر روز 10 ہزار انسان غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے تھے۔زندگی مزید اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ سماج میں اضطراب اور اور ہلچل تیز ہو رہی تھی۔ دہشت گردی کی سامراجی جنگ پورے معاشرے میں خلفشار کو بڑھا رہی تھی۔اس معاشی سماجی اور اقتصادی بحران میں شدت سے حکمرانوں کے ایوان لرزنا شروع ہو گئے تھے۔اس سرمائے کی استحصالی جمہوریت کی متوالی سول سوسائٹی حرکت میں آگئی تھی۔ جابر انہ ریاست کے ایک ہی مقصد اور کردار کے حامل اداروں کے باہمی تضادات جو سماج میں ابھرتے ہوئے لاوے سے پھٹ رہے تھے وہاں عدلیہ کی آزادی کے نام پر اسی نظام کو آسرا دینے کیلئے ہر نظریاتی تفریق اور طبقاتی کشمکش کو ہذف کرتے ہوئے درمیانے طبقے کے افراد و وکلاء کی تحریک کے نام پر ایک غیر سیاسی تحریک کو چلانے کی کوشش کر رہے تھے حکمرانوں کے چند سنجیدہ ماہرین نیچے سے ابھرنے والی غیر سول (Uncivil) سوسائٹی یعنی محنت کشوں اور محروم عوام کی تحریک کے خوف سے اس سول سوسائٹی کی تحریک کو طبقاتی کشمکش کو زائل کرنے کی کوشش میں سرگرم تھے۔لیکن سول سوسائٹی کی تحریک ایک محدود پیمانے پر چلتی رہی محنت کش عوام اس کو دیکھتے رہے۔ محظوظ ہوتے رہے۔لیکن اس تحریک کے مقاصداور مطالبات میں نہ تو ان کے مسائل کا حل تھا نہ ہی انکے دل کو لگتی تھی۔ ان کے اندر جلنے والے آگ ٹھنڈی نہیں ہورہی تھی۔ ان کے اندر کسی اور راستے اور مقصد و منزل کی جستجو بھڑک رہی تھی۔
اور پھر 18 اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو عدلیہ کی تحریک کے ہزاروں کی جگہ یہاں لاکھوں اپنے دلوں میں اس ذلت کی نجات کی آرزو لئے کراچی میں ایک جم غفیر کی صورت میں تاریخ کے میدان میں داخل ہوئے۔اتنے بڑے اجتماع میں جہاں ہر کوئی اپنے انفرادی مسائل کے حل کے لئے آیا تھا وہاں پہنچ کر یہ ایک اجتماعی مقصد اور مطالبہ کی صورت اختیا ر کر گیا تھا۔اس کی خاموش سرسراہٹ نے جہاں مشرف اور بے نظیر کے درمیان دبئی میں ہونے والی ڈیل کے پرخچے اڑا دئیے تھے وہاں اس نے روائتی قیادت کواس کے اپنے ہی استقبال سے ششدر اور حیران کر کے رکھ دیا۔ ریاست گھبراہٹ کا شکار ہوگئی۔ اس بوکھلاہٹ میں دہشت گردی نے دو سو معصوم جانوں کو ان امیدوں سے بھرے محنت کشوں سے چھین لیا۔ لیکن تحریک اس خونی ضرب سے رکنے کی بجائے اور شدت اختیار کر گئی۔جوں جوں یہ شمال کی طرف بڑھنے لگی اس کی وسعت اور طاقت میں تیزی آتی گئی۔ ایک مرتبہ پھر یہاں کے عوام ایک نئی جدوجہد میں اجاگر ہورہے تھے۔ریاست کے قدامت پرست دھڑے اس کو ایک خطرے کا الارم سمجھ کر اس کو کچلنے کے لئے بے قرار ہو رہے تھے۔ اصلاح پسند دھڑے اس امید میں تھے کہ شاید یہ نعرہ بازی اور وعدوں میں کنٹرول اور زائل ہو جائے گی۔ لیکن راولپنڈی میں ہونے والے جلسے میں فوج کی تمام تر تعریفیں بھی ریاست کے رجعتی عناصر کو وار کرنے سے نہ روک سکیں۔امریکی سامراج اور مصالحت کروانے والے دھڑے دیکھتے ہی رہ گئے۔شاید وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس تحریک کے روایتی محور کو ختم کیے بغیر یہ تحریک پورے نظام کے لئے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کا وحشیانہ قتل کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک حشر بپا تھا۔
لیکن ایک مارکسی لیننسٹ پارٹی کے فقدان میں عوام کا یہ لاوا بے سود بہہ کر بکھر گیاتھا۔پیپلز پارٹی کی نئی وراثتی قیادت نے ریاست اور سامراج سے مل کر اس خون کا انقلابی انتقام لینے کی بجائے اسی رائج سرمایہ دارانہ نظام کو ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر تحفظ دینے کی پالیسی اختیا ر کی۔عوام کے غم کو ان کی مایوسی اور بدگمانی میں منتقل کرنے کا لائحہ عمل اختیار کیا۔ نئی جمہوری حکومت میں سرمایہ داری نے محنت کش عوام پر اقتصادی درندگی کی انتہا کر دی۔ مہنگائی ،بیروزگاری ،غربت اور ذلت کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں تک پہنچ گئیں۔ دکھی عوام پر مزید زخموں کی بوچھاڑ کر دی۔ 18 اکتوبر کی تحریک شکست اور پسپائی کا شکار ہو گئی۔ جو سرمایہ داری نے تابڑتوڑ حملے عوام کی زندگیوں پر کئے ان سے مایوسی مزید گہری ہوئی۔سماج کے اس جمود اور تحریک کی پسپائی میں لوٹ مار ،بدعنوانی اور استحصال کی انتہا کر دی گئی۔آج عوام اس بربادیوں کے معاشرے میں سلگ رہے ہیں۔لیکن وقت آہستہ آہستہ ان کے زخم مندمل کر رہا ہے۔ذلت میں پھر وہ ابھرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔بہت سے اسباق حاصل ہوئے ہیں۔رائج سیاست اور حاوی پارٹیوں سے وہ اچاٹ دلبرداشتہ اور مایوس ہیں۔کریں بھی کیا؟فرق بھی کیا ہے؟ لیکن عوام کی سیاسی بے حسی کے نیچے پھر سے ایک لاوا پک رہا ہے۔ وہ آتش فشاں پھر پھٹنے والا ہے۔لیکن کسی جمہوریت یا آمریت کی لڑائی کے لئے نہیں، سیکولرازم اور قدامت پرستی کی معرکہ آرائی کے لئے نہیں بلکہ صدیوں سے نسل در نسل استحصال اور ظلم کے خلاف اس اذیت ناک زندگی سے نجات کے لئے ایک نئے سماج کے لئے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے لئے۔ اس سماجی بغاوت میں شاید کچھ دیر ہے لیکن یہ اندھیرنہیں چل سکتا۔ اس انقلابی تحریک کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے بھر پور تیاری اور تربیت کی ضرورت ہے۔وقت شاید کم ہے اورفریضہ بہت بڑا۔ لیکن اس کے علاوہ نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں!

متعلقہ:

اداریہ جدوجہد: بھٹو کی میراث کا نیلام؟

پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس… سوشلسٹ انقلاب کا کیا ہوا؟