[تحریر: لال خان]
کرپشن کا مسئلہ حکمران اشرافیہ کی سیاسی بحثوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اسے نظام کو لاحق شدید ترین خطرہ اور اس برائی کے خاتمے کو اس ملک کی سماجی و معاشی نجات کا راستہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے پر سب سے زیادہ شور مچانے والے لیڈر خود وفوجی، سِول اور بیورو کریٹک اشرافیہ کا اٹوٹ انگ ہیں اور اپنے کرپٹ کرتوتوں اور بدعنوانیوں کے لیے بدنامہِ زمانہ ہیں۔ لیکن اس کی سماجی اورسیاسی بنیادوں اور وجوہات کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا۔ سب سے زیادہ جاہلانہ اور بیوقوفانہ نکتہ نظر اس مسئلے کو شخصیات کے ساتھ جوڑ کر اسے انفرادی اعمال اور کردار تک محدود کردینا ہے۔ اول تو موجودہ سماجی و معاشی نظام کے بحران کی وجہ کرپشن نہیں بلکہ یہ بیمار سرمایہ دارانہ نظام کی علامت اور ضرورت ہے اور یہ نظام اس لعنت کو پال رہا ہے۔ یہ سماج کو اذیت سے دوچار کرنے والی بربادی، قلت اور محرومی کی ناگزیر پیداوار ہے۔ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے، وہاں کرپشن، جسم فروشی اور جرائم اس کے لازمی اجزاء ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر میں ڈینگ زیاؤ پنگ کی زیرِ قیادت چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے عمل کے بعد سے وہاں کرپشن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے سرمایہ داروں نے سو ئس اور دیگر غیر ملکی بینکوں میں 1.4 کھرب ڈالر چھپا رکھے ہیں۔ یہ خطیر رقم ہندوستان کی قومی بورژوازی نے ٹیکس چوری اور دیگر کرپٹ طریقوں سے جمع کی ہے۔ اکا نومسٹ حالیہ شمارے میں لکھتا ہے کہ ’’اس وقت دنیا میں ٹیکس سے بچنے کے لیے 50 سے 60 مقامات ہیں، جہاں 21 کھرب ڈالر سے زیادہ رقم کی سرمایہ کاری بغیر کسی ٹیکس کے کی گئی ہے اور دنیا میں 30 فیصد براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (Foreign Direct Investment) ان ہی مقامات کے ذریعے ہوتی ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری بھی غیر ممالک کے راستے کی جاتی ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مختص ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ چند ذرائع کے اندازے کے مطابق ہندوستان اور چین میں ہونے والی ’بیرونی‘ سرمایہ کاری کا قابلِ ذکر حصہ اس طریقے سے آ رہا ہے۔ امریکہ میں بھی ایساہی معاملہ ہے، جہاں کی کمپنیوں پر امیر ممالک میں سب سے زیادہ کارپوریٹ ٹیکس لاگو ہیں اور سب سے زور دار ٹیکس چور بھی اسی ملک میں پائے جاتے ہیں‘‘۔
کرہِ ارض پر ایک بھی سرمایہ دارانہ ملک ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اپنے بجٹ میں بڑی رقوم فوجی، سولین اور سیاسی حکام کو کِک بیک (Kick Back) دینے کے لیے مختص کرتی ہیں تا کہ ان سے سودے طے پا سکیں۔ اس میں نو آبادیاتی ریاستوں کے حکمران اور عسکری صنعت اور تیل سے وابستہ نمایاں کمپنیاں سب سے زیادہ ملوث ہیں۔ یہ کارپو ریشنیں پارلیمان کے ممبران، سیاسی جماعتوں، لیڈروں اور ’دفاع‘، انفرا سٹرکچر کے منصوبوں اور دیگر بڑی معاشی کاروائیوں کے پالیسی ساز بیورو کریٹوں کو رشوت دیتی ہیں۔ مالیاتی خونخوار درندے اور کارپوریٹ کاروبار انتخابی مہموں میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اپنے حمایت یافتہ سیاست دانوں کو منتخب کروا کر ان کے ذریعے ریاستی مالی معاونت (Bailouts)، ٹھیکے اور دیگر معاشی مراعات حاصل کی جا سکیں۔ 2012ء کی انتخابی مہم امریکہ کی تاریخ میں مہنگی ترین تھی جس میں مجموعی طور پر6ارب ڈالر کے اخراجات کیے گئے۔ معیشت کی بگڑتی حالت میں کرپشن اور کالے دھن کی معیشت کا کردار شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پیرس سکول آف اکنامکس اینڈ گلوبل فنانشل انٹگریٹی کے ماہرینِ معاشیات نے ایک حالیہ تحقیق میں یہ بیان کیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدن والے 139 ممالک کی اشرافیہ نے بیرون ملک9.3 کھرب ڈالر جمع کر رکھے ہیں جو کسی شمار میں نہیں آتے، اور اس کی وجہ سے ان میں سے کچھ توبڑ ے مقروضوں سے بڑے قرض خواہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق ’’ترقی پذیر ممالک کو مجموعی طور پر قرضوں کے مسائل کا سامنا نہیں، بلکہ بڑا مسئلہ ٹیکس چوری کر کے پیسے کی بیرونِ ملک منتقلی اور منی لانڈرنگ ہے۔‘‘
بوسیدہ پاکستانی سرمایہ داری کی کمزور اور شکستہ بنیادوں کے ساتھ یہ متوازی یا کالی معیشت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ستر کی دہائی کے وسط میں پانچ فیصد سے بڑھ کر یہ اب کل معیشت کاتقریباً ستر فیصد ہو چکی ہے۔ اس وقت قانونی یا سرکاری معیشت کی شرح نمو تین فیصد سے بھی کم ہے جبکہ کالے دھن کی معیشت کی شرح نمو کا اندازہ نو فیصد کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ یہ ایک سرطان کی طرح ہے جس کا وجود جسم سے بھی بڑھ چکاہے۔ کالے دھن کی یہ معیشت کئی شعبوں پر مشتمل ہے جن میں منشیات کی تجارت، انسانی سمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، جعلسازی، سمگلنگ، جنگلات کی غیر قانونی کٹائی، سافٹ وےئر اور موسیقی کی پائیریسی اور دیگر کئی مجرمانہ کاروائیاں شامل ہیں۔ لیکن اس کالے دھن کا بڑا حصہ ریاست اور سماج میں کرپشن کے ذریعے آتا ہے۔ دہشت گردی، جرائم اور بربادی کا شکار سماج اور سیاست وریاست پر اس کالی معیشت کے کئی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ریاستی ڈھانچوں کے اندر در پردہ تنازعات کی وجہ بھی اس متوازی معیشت کے متحارب حصوں کے نمائندوں کے مابین ٹکراؤ ہے۔
لیکن دوسری جانب یہ کرپشن اور کالی معیشت اس ملک کو چلانے والے معاشی سائیکل کے لیے ایک سہارا اور بفر بھی ہیں۔ سرکاری معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے پاکستان اس کرپشن پر مزید انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ ہمیشہ بڑھتے ہوئے فوجی اخراجات اور قرضوں اور ان پر سودکی ادائیگی کی وجہ سے، سماجی اور انفرا سٹرکچر کے شعبوں پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ کٹوتیوں، مہنگائی اور ننگے استحصال نے پہلے سے بدحال عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ سماج کے معیارِ زندگی میں گراوٹ کے ساتھ قوتِ خرید میں کمی کے باعث منڈی بہت زیادہ سکڑ چکی ہے۔ بلیک مارکیٹ کی کھپت کے بل بوتے پر ہی معیشت کا چکر چل رہا ہے۔ سرکاری معیشت کاسہارا ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں 73.8 فیصد روزگار اسی شعبے سے منسلک ہیں۔ قلیل مدتی شعبوں میں سرمایہ کاری اس کالی معیشت کی خاصیت ہے جن میں جائیداد، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات کا شعبہ (Services Sector) شامل ہیں۔ اسے مذہبی بنیاد پرست گروپوں، کئی سیاسی جماعتوں، فرقہ وارانہ اور قومی شاؤنسٹ تنظیموں، کالے دھن کے آقاؤں کے زر خرید ریاستی حلقوں اور جرائم پیشہ مافیاؤں کا تحفظ حاصل ہے۔
کرپشن کے خاتمے کا رٹا رٹایا سبق دہرانے والے سیاست دان یا تو بہت سادہ لوح ہیں یا پھر بہت بے غیرتی کے ساتھ عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اگر بلیک مارکیٹ کے بڑے ماخذ کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے تو پاکستان کا سارا معاشی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا کیونکہ یہ کالی معیشت بہت بڑی ہو چکی ہے اور در حقیقت سرکاری معیشت کالی معیشت میں جکڑی جا چکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ داری کو جان لیوا اور ناقابلِ علاج مرض لاحق ہو چکا ہے۔ جیسے کوئی نشئی نشے کا محتاج ہوتا ہے، یہ گلتا سڑتا نظام مکمل طور پر اس غیر سرکاری معیشت کا محتاج بن چکا ہے۔ اس ملک میں صحت مند سرمایہ دارانہ معیشت کی بحالی یا تشکیلِ نو نا ممکن ہو چکی ہے۔ مستقبل قریب میں عالمی سرمایہ داری کی بحالی کے امکانات بہت کم یا پھر نہ ہونے کی کیفیت میں پاکستان کی برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری، اور صنعتی نمو کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بر سرِ اقتدار جمہوری مخلوط حکومت نے جو اندرونی اور بیرونی قرضے لیے وہ اس سے پہلے کے ساٹھ برسوں سے زیادہ ہیں۔ اس نظام میں بر سرِ اقتدار کوئی بھی جماعت اس کے علاوہ نہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ ہی کرتی۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کے ساتھ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف 2 فیصد آبادی کے ٹیکس ادا کرنے، گرتی ہوئی برآمدات اور ریکارڈ خسارے کی کیفیت میں معیشت صرف بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر (Remittances) کے ذریعے نہیں چل سکتی۔ پاکستان کا معاشی مستقبل بہت تاریک ہے۔ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی معجزہ بھی اسے اس کھائی سے نہیں نکال سکتا جس میں یہ گرتا چلا جا رہا ہے۔ مسئلہ اس نظام کا تجزیہ یا پیشن گوئی کرنے کا نہیں، بلکہ حقیقی فریضہ اسے بدلنے کا ہے۔
متعلقہ:
پاکستان میں سرمایہ داری کی بربریت؛ ایک سوشلسٹ متبادل کیا ہے؟
ریاستِ پاکستان کا زوال