معاشی دہشت گردی

[تحریر: لال خان]
پہلے کیا ذلت اور محرومیوں میں کچھ کمی رہ گئی تھی کہ پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے اس المناک ملک کے نادار عوام پر مہنگائی کا نیا عذاب مسلط کر دیا گیا ہے؟ اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 200 بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں پر مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ 31 قومی اداروں کی نجکاری کا بھی آغاز کیا جارہا ہے۔ نجکاری کے اس عمل سے لاکھوں محنت کش بیروزگار ہوں گے اور بجلی، گیس، سفر سمیت دوسری خدمات اور ضروریات زندگی کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ یہ وحشیانہ معاشی حملے ہیں جنہوں نے موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حکمران طبقات کی بے حسی اور جابرانہ کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے لے کر بلوچستان میں خوفناک زلزلے سے پھیلنے والی بربادی اور ملک کے طول و عرض میں خون ریزی کرتی بنیاد پرستوں کی دہشتگردی تک۔ ۔ ۔ ہر عذاب، ہر قہر، ہر تباہی صرف غریبوں کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ قانون کی گرفت میں بھی انصاف خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے ہی آتے ہیں۔ انصاف اور ریاستی اہلکاروں کی منہ بولی قیمت ادا کرنے کی اہلیت رکھنے والے دولت مند، بڑے سے بڑا جرم کر کے بھی باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
مسلسل کرب اور مصائب کا یہ سلسلہ رکنے کی بجائے اور بھی تلخ تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہر نئی حکومت پہلے سے معاشی و سماجی طور پر بدحال عوام پر زیادہ شدت سے معاشی حملے کررہی ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر دراصل اس ملک میں دہائیوں سے جاری اس معاشی دہشتگردی کا ہی تسلسل ہے جو تب بھی عوام کا معاشی قتل عام کر رہی تھی جب بنیاد پستوں اور مافیا گروہوں کی بربریت نے شدت نہیں پکڑی تھی۔ نام نہاد آزادی کے چھیاسٹھ سالوں میں پاکستانی عوام کی بدحالی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، تاہم پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران بہتر مستقبل کی مبہم سی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔
پاکستانی عوام کی سماجی اور معاشی حالت خوفناک حد تک تباہ کن ہے۔ ہر اعشاریہ دل دہلا کے رکھ دیتا ہے۔ 82 فیصد پاکستانی غیر سائنسی علاج (نیم حکیم، تعویز گنڈے وغیرہ) کروانے پر مجبور ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے44 فیصد بچوں کی نشونما نا مکمل ہے، یعنی پاکستان کے تقریباً نصف بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کبھی مکمل انسان نہیں بن پائیں گے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر 30منٹ میں ایک ماں نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے، سالانہ پانچ لاکھ مائیں زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔ صحت پر حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 0.6 فیصد سے بھی کم ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں 147 ویں نمبر پر ہے۔ تعلیم سے محروم بچوں کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں ڈھائی کروڑ بچوں کو سکول میسر نہیں۔ 2 اکتوبر کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بزرگوں اور معمر افراد کے لئے بدترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک چوتھائی آبادی کو بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ہے، 70 فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں۔ پاکستان اکانومک واچ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 50 فیصد ہے اور ہر سال دس لاکھ مزید نوجوان بیروزگاروں کی اس فوج میں جبری طور پر بھرتی ہورہے ہیں۔ دوسری طرف محکوم قومیتوں پر ریاستی جبر اور خواتین کے سماجی سطح پر ایذادہی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں کسان اور مزدور تمام تر قوانین کے باوجود ملک کے طول و عرض میں آج بھی جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کے نظام کی چھاسٹھ سالہ کارکردگی کی یہ صرف معمولی سی جھلک ہے۔ چند سطور یہاں کے محنت کش عوام کی محرومیوں اور حکمرانوں کی درندگی کو سمیٹنے سے قاصر ہیں۔
مسلم لیگ کو کسی امید کی بجائے پیپلز پارٹی سے مایوسی اور بددلی کا ووٹ ملا تھا۔ یہ امیروں کے لئے امیروں کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی روایتی پارٹی ہے جسے مسلمان اشرافیہ نے اپنے مالی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کیا تھا۔ اپنی وفات سے ایک سال قبل ’’سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال‘‘ نے محمد علی جناح کو لکھے گئے ایک خط میں واضح طور پر بیان کیا تھا کہ ’’مسلم لیگ کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بالادست طبقے کی نمائندہ ہے یا عام مسلمانوں کی، جن کے پاس مسلم لیگ میں دلچسپی لینے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت عوام کے لئے پر کشش نہیں ہوسکتی جسے عام مسلمانوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نئے آئین کے تحت بالائی عہدے امیر طبقے کے بچوں کے تصرف میں ہیں جبکہ اس سے نیچے والوں پر وزرا کے دوست یار اور رشتہ دار قابض ہیں۔ ہماری سیاسی جماعت نے عام مسلمانوں کی حالت زار میں بہتری کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد اقبال کا یہ تجزیہ زیادہ درست ثابت ہوا ہے۔ یہاں کے فوجی حکمران مسلم لیگ کے لاحقے تبدیل کر کے اسے اپنی آمریتوں کو ’’جمہوری‘‘ رنگ دینے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت اور اس کے عہدہ دار اپنی خواہش سے یہ وحشیانہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ اس نظام کی ضرورت ہے جس کے وہ محافظ اور نگہبان ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات روز اول سے ہی ایک جدید صنعتی انفراسٹرکچر اور صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ غیر ہموار اور مشترکہ طرز کی معاشی نمو نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے اور سماجی تضادات کو ابھارا ہے۔ یہاں کے سرمایہ دار مالی طور پر نحیف اور تاریخی طور پر تاخیر زدہ ہیں۔ ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری، قرضہ خوری، کرپشن اور ریاست کو لوٹے بغیر وہ اقتصادی اور سیاسی طور پر اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ پاکستانی سرمایہ داری تاریخی طور پر صحت مند بنیادوں پر معاشی نمو دینے سے قاصر رہی ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران نے صورتحال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ برازیل، بھارت اور چین سمیت نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ کی شرح نمو میں تیز گراوٹ، جاپان اور یورپ میں بڑھتی ہوئی معاشی تنزلی اور کٹوتیاں، امریکی حکومت کا حالیہ شٹ ڈاؤن۔ ۔ ۔ یہ سب سرمایہ داری کے ا س نامیاتی بحران کی علامات ہیں جو شدید ہوتا چلا جارہا ہے اور جس کا کوئی علاج بورژوا ماہرین معیشت کے پاس نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان جیسی مفلوج معیشتوں کا کیا مستقبل ہو سکتاہے؟
بے قابو ہوتی ہوئی افراط زر اور مہنگائی کے حکومتی حملوں سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ خوراک کی قیمتوں میں صرف 10 فیصد اضافے سے 34 لاکھ پاکستانی خط غربت سے نیچے گر جاتے ہیں۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے خوراک سمیت تمام تر ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھیں گی۔ معاشی حملے یہاں رکیں گے نہیں، یہ صرف آغاز ہے۔ حکمرانوں کی معیشت کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور خساروں کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا۔ مسئلہ کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ تمام تر حاوی سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ تمام تر ’’سیاسی رہنما‘‘ آزاد منڈی کی معیشت پر یقین رکھتے ہیں اور سرمایہ داری کو حتمی و آخری نظام مانتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں اور وہ اس کی بربریت کو ہر صورت میں قائم رکھنا چاہیں گے۔ پاکستان کے محنت کش اور نوجوا ن وہ واحد قوت ہیں جو وحشت کے اس سلسلے کو توڑ کر معاشی دہشتگردی کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں سے تراشنے کے لئے جب وہ تاریخ کے میدان میں داخل ہوں گے تو سماج کو یکسر تبدیل کر دینے والی سیاسی قوت خود تخلیق کریں گے!

متعلقہ:
مسلم لیگیں اور پاکستان

قرض خور حکمران، بدحال عوام
باکمال حکمران۔۔۔لاجواب نجکاری!
مہنگائی مار گئی!
نجکاری۔۔۔ایک جرم!