چین کی معاشی تنزلی

[تحریر: لال خان]
پچھلے کئی سالوں سے چین میں سرمایہ داری کے بعد ہونے والی معاشی ترقی کا بہت واویلا کیا جارہا ہے۔ سامراج کے دانشور اور معیشت دان چین کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر معاشی نمو کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد سے بعض مغربی ’’دانشور‘‘ تو یہاں تک فرما رہے ہیں کہ معاشی شرح نمو میں اضافے کے لئے ’’چینی ماڈل‘‘ کے مطابق جمہوری آزادیوں کو صلب بھی کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ سابقہ ’’کیمونسٹ‘‘ اور بائیں بازو کے بھگوڑے بھی اپنی نظریاتی زوال پزیری، مارکسزم سے انحراف اور اپنے اندر کے احساس جرم کو چھپانے کے لئے چین کے ماڈل کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ پراپیگنڈے کی یہ یلغار اتنی شدید ہے کہ زمینی حقائق نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔
2008ء میں شروع ہونے والے عالمی سرمایہ داری کے سب سے بڑے معاشی بحران کا آغاز امریکہ میں 613 ارب ڈالر مالیت کے اثاثے رکھنے والی کمپنی لیمن برادرز کے دیوالیہ پن سے ہوا تھا۔ اس کے بعد تمام ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں گراوٹ کا شکار ہونے لگیں، منڈی سکڑ گئی، سرمایہ کاری غائب ہوگئی، کئی بینک دیوالیہ ہوگئے اور یورپ کی ترقی یافتہ ترین معیشتیں قرضوں کے بوجھ تلے دب کے مالیاتی انہدام کے دہانے پر آکھڑی ہوئیں۔ صورتحال آج بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یورپ کی ریاستیں مفت تعلیم، علاج، رہائش، پینشن جیسی بنیادی سہولیات رفتہ رفتہ ختم کررہی ہیں۔ محنت کشوں اور طلبہ کی ہڑتالیں، مظاہرے اور جلوس معمول بن چکے ہیں۔ سیاست مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے اور عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ معاشی بحالی کا کوئی امکان مستقبل قریب میں موجود نہیں ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو بینک کے سربراہ نے پچھلے مہینے بیان دیا ہے کہ ’’اگر کوئی بحالی ہوئی بھی ہے تو اسے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اس بحران نے عالمی سرمایہ داری کے بڑے معیشت دانوں کو جس طرح حیران و پریشان کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے پروفیسراس نظام کی بنیادی حرکیات کو ہی سمجھنے سے قاصر ہے جس کے وہ ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔ یہ حضرات ہر کچھ عرصے بعد رنگ برنگ کی بے معنی اور کنفیوز ’’تھیوریاں‘‘ پیش کرتے ہیں۔ 2008ء کے بعد تذبذب کے عالم میں ایسی ہی تھیوری کو دوبارہ اچھالا گیا۔ یہ تھیوری 2001ء میں بورژوا معیشت دان جم او نیل نے پیش کی تھی جس کے مطابق گرتی ہوئی عالمی سرمایہ داری کو اب ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ سہارا دیں گی۔ ان معیشتوں کی فہرست میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں اور ممالک کے اس گروہ کو BRICS کہا جاتا ہے۔ اگر پچھلے پانچ سالوں میں ان ممالک کی معیشتوں اور اقتصادی شرح نمو کا جائزہ لیں تو یہ پیش منظر بالکل جھوٹا اور جعلی ثابت ہوجاتا ہے۔ 2010-11ء کے بعد سے یہ تمام معیشتیں تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ برازیل کی معاشی شرح نمو2010ء میں 7.5 فیصد سے کم ہو کر2013ء میں 1.8 فیصد تک آگئی ہے، روس 4.5 سے 1.3 فیصدجبکہ بھارتی معیشت کی شرح نمو 10.3 فیصد سے 4.9 فیصد تک گر گئی ہے۔ ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کی متوقع شکست کی سب سے بڑی وجہ پچھلے تین سال کی معاشی تنزلی ہے۔ ان حالات میں ’’چینی ماڈل‘‘ کے مطابق بھارت کا حکمران طبقہ اور کارپوریٹ میڈیا ایک نیم فاشسٹ انسان نریندرا مودی کووزیراعظم بنانے کے لئے سرگرم ہے۔ انہیں یہ امید ہے جابرانہ پالیسیوں کے ذریعے چین کی طرح ہندوستان کی شرح نمو میں اضافہ کیا جاسکے گا۔ لیکن بھارت کا حکمران طبقہ ، کارپوریٹ میڈیا کے تجزیہ نگار اور سامراج کے پالیسی ساز یا تو واقعی جاہل ہیں یا پھر کبوتر کی طرح انکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ چین میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی کچھ خبر تو انہیں ضرور ہوگی۔
ٹائم میگزین کے تازہ ترین شمارے (21 اپریل) میں مضمون ’’بڑے چین میں چھوٹی سے گڑبڑ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں رعنا فروہر لکھتی ہیں کہ ’’مالیاتی بحران کے بعد ہونے والے معاشی واقعات میں سے ایک انتہائی اہم واقعہ مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ چین اس وقت مالیاتی اور قرضے کے ایسے بحران کا شکار ہے جو ہم نے لیمین برادرز کے انہدام کے بعد نہیں دیکھا۔ چین کا قرضہ اس کی کل داخلی پیداوار (GDP) سے دوگنا ہوچکا ہے۔ اس سال چین کی شرح نمو 5فیصد تک گر جائے گی۔ چین کے حکمرانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے کہ بے روزگاری اتنی خطرناک سطح تک پہنچ جائے گی کہ عوام گلیوں اور شاہراہوں پر نکل آئیں گے۔ اس سلطنت میں اس قسم کی صورتحال میں لوگوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ ۔ ۔ چین کے اس بحران سے نکل کر ترقی کرنے کا امکان بیجنگ کی فضا کی طرح دھندلا ہے۔‘‘
اس صدی کے پہلے دس سالوں کی دوران چینی معیشت کی شرح نمو 12 فیصد تک رہی ہے۔ تاہم یورپ اور امریکہ میں منڈی کا سکڑاؤ اب چینی مصنوعات کی کھپت کو کم کررہا ہے۔ بڑی منڈیوں میں چین کی برآمدات 40 فیصد کم ہوچکی ہیں۔ برآمدات کی یہ گراوٹ فیکٹریوں کی بندش اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے کے لئے چینی ریاست خام مال اور صنعتی مصنوعات کی کھپت کے مصنوعی طریقے تراش رہی ہے۔ اس سلسلے میں بڑی ریلورے لائنوں، ہاؤسنگ سکیموں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بے معنی دیوہیکل پراجیکٹ شروع کئے گئے ہیں جن کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس عمل سے ریاستی قرضے کا حجم تو بڑھ رہا ہے لیکن شرح نمو میں وہ اضافہ ممکن نہیں ہے جو بین الاقوامی تجارت کے ذریعے ہوا تھا۔ پانچ سال پہلے ایک ڈالر کے قرضے سے شرح نمو میں ایک ڈالر کا اضافہ ہوا کرتا تھا، اب ایک ڈالر کے اضافے کے لئے 4 ڈالر کا قرضہ درکار ہے۔ صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔
اس بات کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس 4 ہزار ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں لیکن ان ذخائر میں سے آدھے نقد ڈالروں کی صورت میں نہیں بلکہ امریکی خزانے کے بانڈز پر مبنی ہیں۔ امریکی معیشت کی بدحالی کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کوئی قابل اعتماد ’’ذخیرہ‘‘ نہیں ہے۔ امریکی سامراج نے چین کے لئے اپنی منڈیاں کھولنے کے بدلے اسے اپنے بانڈز خریدنے پر مجبور کیا ہے۔ انہیں بانڈز کے ذریعے
ڈالر کو ایک کمزور حالت میں عالمی کرنسی کے طور پر مسلط رکھا گیا ہے۔ یہی وہ باہمی معاشی مفادات ہیں جو چین اور امریکہ کے درمیان شدید ترین سیاسی تضادات کے باوجود براہ راست تصادم کو روکے ہوئے ہیں۔ معاشی طور پر دنیا کی یہ دو بڑی ریاستیں ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی ہیں۔ لیکن تعلقات کی یہ نوعیت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی۔
چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور اس کے بعد ہونے والی ’’ہوش ربا ترقی‘‘ کا پس منظر پھر 1949ء کا انقلاب ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے چین میں سے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا عمل شروع ہوا تھا۔ تعلیم، علاج، رہائش وغیرہ کی سہولیات اور محنت کشوں کی ہنر مندی میں تیز ترین اضافہ ہوا۔ ماؤ زے تنگ کی قیادت میں ہونے والا یہ انقلاب اگرچہ کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر استوار نہیں ہوا تھا اور آغاز سے ہی چینی ریاست کا ڈھانچہ محنت کشوں کی جمہوریت کی بجائے افسر شاہی کی آمریت پر مبنی تھا، لیکن اس کے باوجود بھی منڈی کی معیشت کے خاتمے سے پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ معاشی اور سماجی ترقی ہوئی۔
’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے نظرئیے کے تحت چین میں منصوبہ بند معیشت کا دم گھٹنا ناگزیر تھا۔ اس صورتحال میں ایک درست مارکسی تناظر کی روشنی میں آگے بڑھنے کی بجائے ڈینگ ژاؤ پنگ نے تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے کی کوشش کی اور سرمایہ داری کی بحالی کا عمل شروع ہوا۔ یورپ، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا یا۔ ان کمپنیوں کو چین کے ہنر مند اور تعلیم یافتہ محنت کش انتہائی کم اجرتوں پر دستیاب آئے جن کا بدترین استحصال کرتے ہوئے شرح منافع میں اضافہ کیا گیا۔ اس بہتی گنگا میں خود کو ’’کیمونسٹ‘‘ کہلوانے والی ماؤسٹ چینی افسر شاہی نے بھی ہاتھ دھوئے۔ یہ کیمونسٹ دنوں میں ارب پتی ہوگئے۔ آج چین کی ’’کیمونسٹ پارٹی‘‘ (جو نہ کیمونسٹ ہے نہ پارٹی) دنیا کے امیر ترین افراد اور نودولتیوں کا ایک گروہ بن چکی ہے۔
بلند شرح نمو کے باوجود بھی چین میں سرمایہ داری کے تحت ہونے والی ترقی انتہائی غیر مساوی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد امارت اور غربت کی سب سے بڑی خلیج چین میں ہے۔ آج سرمایہ داری غیر ہموار بنیادوں پر ترقی دینے سے بھی قاصرہوچکی ہے لیکن پچھلے 30 سالوں کی مغربی سرمایہ کاری سے چین میں دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور محنت کش طبقہ پروان چڑھا ہے۔ یہ کروڑوں محنت کش زیادہ عرصے تک جبر و استحصال کو برداشت نہیں کریں گے۔ چین کی ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقہ سخت خوفزدہ ہے۔ وہ اس زلزلے کے پہلے جھٹکے محسوس کررہے ہیں۔ چین میں محنت کشوں کا ابھار دنیا کا منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ نپولین نے کہا تھا کہ ’’جب چین جاگے گا تو پوری دنیا لرز اٹھے گی۔‘‘

متعلقہ:
چین: سرمایہ داری کی طرف لانگ مارچ
ویڈیو: چین کس راستے پر گامزن؟