| تحریر: ظفراللہ |
پاکستان کا حکمران طبقہ آج کل چین کی ممکنہ سرمایہ کاری کے معاشی اور سماجی نتائج کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نظر آتا ہے، جیسے اس سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان ’’ترقی‘‘ کی نئی منزلوں کو چھُو لے گا، ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست کی تشکیل کا سفر آسان ہو جائے گا، سماجی ترقی کے بے پنا مواقع فراہم ہونگے اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اندازہ نہ ہو کہ یہ سرمایہ کاری حقیقت میں کتنی نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔ اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے لوگوں کو فریب دینے اور نعرے اور بلند بانگ دعوے کرنے کی یہ پرانی واردات ہے۔ بھلا آج تک کوئی ایسی حکومت آئی ہے جس نے مسائل کا ذمہ دار پرانی حکومتوں کو قرار دے کر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے خواب لوگوں کو نہ دکھائے ہوں؟
در حقیقت سامراجیت اس کے عہد میں، سر مایہ داری کے تحت پاکستان جیسی ترقی پذیر ریاستیں اور معاشرے، سماجی اور معاشی ترقی کی بجائے مزید ابتری کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ اس حقیقت سے بخوابی واقف ہے کہ وہ جدید ریاست اور معاشرے کی تشکیل کے لیے تاریخی طور پر نااہل ہے۔ صرف لوٹ مار اور حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے لوگوں کو جھوٹی تسلیاں اور پُر فریب منصوبوں کے سراب دکھائے جاتے ہیں۔ حقیقت میں’’سٹیٹس کو‘‘ کو قائم رکھنا ہی حکمران طبقے کا بنیادی مقصد ہوتا ہے جس کو وہ اس طرح کے جعلی ہتھکنڈوں کے ذریعے قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے 46 ارب ڈالر کے ان چینی منصوبوں کی نوعیت کے بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سرمایہ کاری ہے، امداد یاقرض ہے۔ اس سے نہ صرف حکمران طبقے کے آپسی تضادات کا اظہار ہوتا ہے بلکہ جعلی اور کھوکھلے نعروں کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشی گروتھ نہیں ہورہی۔ شرح سود 45 سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود نجی شعبہ سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ توانائی کے بحران اور پیداواری لاگت مہنگی ہونے کی بدولت سرمایہ کار ہیجان کا شکار ہیں۔ جعلی اعدادو شمار کے ذریعے 4.2 فیصد کی شرح نمو بھی معیشت کو آگے بڑھانے اور سماجی ترقی کے لئے ناکافی ہے۔ اس سے موجودہ دائیں بازو کی نواز حکومت پریشانی میں مبتلا ہے۔ آئندہ الیکشن میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے لیکن لوگوں کے معیارِ زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑرہا جس کو کیش کروا کر آئندہ الیکشن جیتا جا سکے جس کی وجہ سے حکمران طبقے کا اضطراب بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ساری امیدیں پاک چین اقتصادی معاہدوں سے وابستہ کی ہوئی ہیں جبکہ ان منصوبوں کا بڑا حصہ توانائی اور مواصلاتی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہونا ہے۔ عجلت میں بنائے گئے میٹرو بس پراجیکٹ جیسے ’’نمائشی منصوبوں‘‘ سے ٹھوس عوامی حمایت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ناامیدی کی اس نفسیات کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ، کمیشن وصولی، اور تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانے والے منصوبوں پر زور شور سے کام جاری ہے جبکہ معیشت کو مستحکم کرنے اور طویل المعیاد ترقی سے مایوسی کی جھلک نظر آتی ہے۔
شرح سود میں کمی کی باوجود افراطِ زر کم ہورہا ہے جو گہری بیماری کی علامت ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ 11 دسمبر 2015ء کو گورنر اسٹیٹ بینک نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نجی شعبہ، پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی بجائے حکومتی بانڈز اور سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان میں نجی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی خطے میں کم ترین سطح پر ہے۔ اجناس کی قیمتوں میں کمی، توانائی بحران اور کم افراطِ زر کی وجہ سے قرضوں کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے بینکوں نے حکومتی بانڈز میں محفوظ سرمایہ کاری کی ہے اور جس کا حجم اس سال جون تک 1400 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 55 کھرب تک پہنچ گیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کم ہوا ہے اور بر آمدات میں کمی کا رحجان رہا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس میں حقیقی معیشت پھنسی ہوئی ہے اور 2015ء کے معاشی اہداف کا حصول ناممکن نظر آرہا ہے۔ پاکستان ایسا ملک بن چکا ہے جو صارفین کی عام ضرورت کی اشیا بھی بیرونِ ملک سے درآمد کرتا ہے۔
دوسری طرف غیر رسمی معیشت یا بلیک اکانومی کا حجم روز بروز بڑھ رہا ہے۔ 2012ء کی FBR کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلیک اکانومی کا حجم حقیقی معیشت کے 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلیک اکانومی کا گروتھ ریٹ 1977ء سے 2000ء تک 9 فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے اور بلیک اکانومی زیادہ تر منشیات، اغوا برائے تاوان، قتل، بھتہ خوری اور غیر رجسٹرڈ کا روباروں پر مشتمل ہے جو ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ غیر سرکاری اداروں کی کچھ دوسری رپورٹوں کے مطابق بلیک اکانومی کا حجم FBR کے تخمینوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ LUMS کی ایک رپورٹ کے مطابق 62 فیصد ٹیکس، ٹیکس چوروں، FBR کے اہلکاروں اور ٹیکس چوری کے طریقے بتانے والے وکیلوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ یہ رقم 2011-12ء میں 3132 ارب روپے تھی۔ 2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق صرف کراچی میں 83 کروڑ روپے یومیہ کاکالا دھن پیدا ہوتا ہے۔ کراچی میں روزانہ اغوا برائے تاوان کی مد میں 5 کروڑ روپے، 10 کروڑ روپے پانی مافیا، 15 کروڑ روپے منشیات اور جوئے، اور23 کروڑ روپے زمینوں کے قبضے کی مد میں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ قبضہ مافیا سالانہ 7 ارب روپے اس مد میں اکٹھے کرتے ہیں اور اس میں روز افزوں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
کالے دھن کا ناسور درحقیقت سفید یا جائز معیشت کے اپنے حجم سے بھی بڑا ہو گیا ہے جس سے معیشت کا دم گھٹ رہاہے اور ریاست کو ریاستی اخراجات کے لیے ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ یہ کالا دھن مختلف سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں تصادم کا موجب ہے جس میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ کراچی میں ’’فوجی آپریشن‘‘ جہاں کچھ پالتو گروہوں کو اوقات میں رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے وہاں اس کی اہم وجہ کالے دھن میں حصہ داری کے لیے فوج کی براہ راست مداخلت بھی ہے۔ اسی طرح پاک چین اقتصادی معاہدوں میں زیادہ سے زیادہ ٹھیکوں کے حصول کے لیے بھی فوج، سرمایہ داروں اور دوسرے ریاستی اداروں کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ ان تمام معاملات میں فوج کو اپنی حصہ داری بڑھانے کے لیے عوامی ساکھ بنانی پڑتی ہے جس کے لئے جرائم کے خلاف آپریشن اور کرپشن کے خلاف کچھ اقدامات بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح قدرتی آفات کے دوران فوج کے ریسکیو اقدامات کی میڈیا پر بے تحاشہ تشہیر کی جاتی ہے اور فوج کا تقدس قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف فوج کے داخلی تضادات اور ناکام اقدامات کو شعوری طور پر چھپایاجا تا ہے۔ کونسا ٹی وی چینل ہے جس نے وزیرستان آپریشن کے زمینی حقائق نکالنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ اس معاملے میں میڈیا کا تمام تر انحصار آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر ہی ہوتا ہے جسے آنکھیں بند کر کے بالکل درست تسلیم کیا اور کروایا جاتا ہے۔
پاکستان متحدہ عرب امارات میں غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔ کا لے دھن کو دبئی اور عرب امارات کے رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے واپس پاکستان میں سفید دھن کے طور پر لایا جاتا ہے۔ اس میں سیاسی پارٹیاں، بیوروکریٹس، جج اور بڑے فوجی افسران شامل ہیں۔ یہ سر مایہ دارانہ نظام کی ناگزیریت ہے جس میں کرپشن نے ریاستی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری میں جہاں اور وجوہات وہاں سب سے بڑا الزام منی لانڈرنگ کا بھی ہے۔ عاصم یہ کام ایک قومی بینک کےSEVP خالد بن شاہین (گروپ چیف بیرونی ترسیلاتِ زر) کے ساتھ مل کر کر تا تھا۔ خالد بن شاہین پر بھی اس سلسلے میں FIR کاٹی گئی ہے اور اس کو بینک سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ کس طرح ریاستی اداروں کے اہلکار سنجیدہ جرائم میں ریاستی مشینری کو استعمال کر کے دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اازل سے اپنے منافعوں میں بڑھوتری کے لیے بجلی چوری، ٹیکس چوری اور رشوت ستانی جیسے طریقے استعمال کررہا ہے۔ 2 دسمبر کے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 32 ارب، سندھ میں 67 ارب، KPK میں 36 ارب اور بلوچستان میں 25 ارب کو ملا کر کل 160 ارب کی بجلی چوری کی گئی ہے اور اس کا سارا بوجھ پچھلے چار سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں 250 فیصد اضافہ کر کے عام صارفین پر منتقل کیا گیا ہے۔ بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی کوئی سنجیدہ کوشش اگر ریاست کرتی بھی ہے تو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے اور سارا بوجھ عام لوگوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر سہ ماہی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی شرط ہوتی ہے جس کو عاجزانہ طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
IMF کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے لیے عام لوگوں پر 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جس سے پہلے سے گرتی قوت خرید پر مزید ضرب لگے گی۔ یہ نئے ٹیکس زیادہ تر عام ضرورت کی اشیا پر لگائے گئے جبکہ ٹی وی پر وزیرِخزانہ (جنہیں وزیر ٹیکس کہنا زیادہ مناسب ہو گا) اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ یہ ٹیکس امرا کی پرتعیش اشیاپر لگائے گئے ہیں۔ موصوف کی یہ بات مان بھی لی جائے تو بورژوا معیشت کے بنیادی اقتصادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ریونیو بڑھانے کے لیے کبھی بھی پر تعیش اشیا پر ٹیکس نہیں لگا یا جاتا کیونکہ ’لچکدار طلب‘ کی وجہ سے مطلوبہ آمدنی حاصل نہیں ہو پاتی۔ حقیقت میں ان ٹیکسوں کا بڑا حصہ صابن، سگریٹ اور دوسری استعمال کی اشیا پر لگایا گیا ہے۔ یہ ٹیکس آپریشن ضربِ عضب کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں جس کے لیے پہلے ہی PSDP سے 70 ارب روپے نکال کر فوج کو دئیے جا چکے ہیں۔
ہر سرمایہ دار حکومت اور ریاست میں درمیانہ طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اور اسی کو مدنظر رکھ کر معاشی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ درمیانے طبقے میں بڑھوتری کسی حد تک معاشی ترقی کااعشاریہ بھی ہو تی ہے کیونکہ یہ درمیانہ طبقہ ہی منڈی میں زیادہ تر طلب پیدا کرتا ہے جس سے سرمایہ دارانہ معیشت چلتی ہے۔ لیکن پاکستان میں درمیانہ طبقہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مظہر ایک طرف سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے بھی ریاست کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کی علامت ہے لیکن ساتھ ہی ایک گہرے زوال میں گرتی ہوئی عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کا ناگزیر نتیجہ بھی ہے۔ اس نظام کے تحت سماج اور معیشت ایک بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی معاشی صورتحال میں عام لوگوں اور محنت کش طبقے کی زندگی سلگ رہی ہے اور ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔ نواز حکومت کے دوران حکومتی وزیر احسن اقبال کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور بیروزگاری کی شرح پچھلے 13 سالوں میں سب سے بلند سطح پر ہے۔ احسن اقبال کے مطابق اس سال سات لاکھ نئے لوگ بیروزگاری کے سمندر میں غرق ہوئے ہیں اور2016ء میں اس میں مزیدچار لاکھ کا اضافہ ہو گا۔ یہ سرکاری اعدادو شمار ہیں جن کے مطابق اب تک بیروزگاروں کی کل تعداد 53 لاکھ ہوگئی ہے۔ لیکن حقیقت میں تعداد اس سے کہیں زیادہ، بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں 19 سے 25 سال کے نوجوانوں کی تعداد آبادی کا 68 فیصد ہے جن کو اپنا مستقبل اندھیر نظر آ رہا ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد بارود کا وہ ڈھیر ہے جس سے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہیں لیکن اس نظام میں حکمرانوں کے پاس ان کو روزگار دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حکمران طبقے کو بھی معاملے کی نزاکت اور خطرات کا احساس ہے۔ نواز شریف کابینہ کے حالیہ اجلاس میں تمام وزرا سے اس کے حل کے لیے تجاویز مانگ رہاتھا۔ دراصل معیشت کے Capital Intensive کردار کی وجہ سے بے روزگاری کم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کی جکڑ میں ٹیکنالوجی کا کردار مزدور دشمن بن گیا ہے۔ ٹیکنالوجی صرف منصوبہ بندی پر مبنی سوشلسٹ معیشت میں ہی مزدور دوست ہو سکتی ہے جہاں زیادہ ے زیادہ لوگوں کو روزگاردے کر اوقاتِ کار میں کمی کر کے ٹیکنالوجی کو زحمت کی بجائے مفید بنایا جا سکتا ہے۔
تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرنا بھی حکومت نے چھوڑ دیئے ہیں اور بنیادی ضرورت کے ان اداروں نجکاری کی جا رہی ہے۔ پہلے ہی معاشی مشکلات اور تعلیم تک رسائی نہ ہونے کہ وجہ سے 45 فیصد بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ کر اپنا بچپن محنت کی منڈی میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم یافتہ ہنر مند افرادی قوت کا بحران ہے جو ہمیں مختلف اداروں کو جدید ٹیکنالوجی سے مطابقت نہ پیدا کر سکنے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل انفراسٹرکچر بنانے کے لیے فنی اور سائنسی تعلیم میں جتنے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہے وہ اس ریاست کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ پاکستان ایک غیر اعلانیہ لیکن عملی طور پر ایک ناکام ریاست ہے جو سر مایہ داری کے اندر ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر کسی طرح پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اس معاشی اور سماجی کیفیت میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا عوامی سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف سے لیکر زرداری کی پیپلز پارٹی تک سب نان ایشوز کی سیاست کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ سب کا معاشی پروگرام ایک ہے۔
پیپلز پارٹی کا وجود بطور محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی کے، بڑی حد تک مٹ چکا ہے۔ اسکے احیاکے امکانات قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن اس روایت کا باقاعدہ اور اعلانیہ انہدام محنت کش طبقے کے بڑے پیمانے پر سیاسی تحرک اور ایک نئی روایت کی تشکیل کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک پیپلز پارٹی کی کیفیت’’ہے بھی اور نہیں بھی ہے‘‘ والی ہی ہوگی۔ تحریک انصاف کا مصنوعی بلبلہ اب اپنا اشتہاری وجود بھی ختم کر چکا ہے۔ درمیانے طبقے کی محدود پرتوں میں تحریک انصاف بھی اپنی بنیادیں ختم کرنے کی طرف گامزن ہے۔ سیاسی افق کے بائیں جانب خلا گہرا اور وسیع ہوتا جا رہا ہے اور یہ صورتحال زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ سماج کے اندر اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ زندگی روزبروز تلخ ہو رہی ہے۔ سرمایہ داری کے بد صورت چہرے کا خوبصورت نقاب سوشل ڈیموکریسی کی شکل میں یورپ میں ناکام ہو گیا ہے۔ یہاں کے اصلاح پسندوں کی وہ واحد مثال بھی اپنا سماجی وجود ختم کر چکی ہے۔ سماج کی انقلابی تبدیلی کا فریضہ خود محنت کش طبقے کی اپنی تحریک ہی ادا کرے گی۔ محنت کش طبقہ، جب بطور طبقے کے، سیاسی عمل میں داخل ہو گا تو وہ ایک تجربہ کار اور پختہ سیاسی شعور کا حامل ہونے کی وجہ سے حکمران طبقے کے سیاسی ہتھکنڈوں میں نہیں آئے گا۔ انقلابی سوشلزم کے نظریات سے لیس موضوعی قوت کا طبقے کے انقلابی اقدامات سے سنگم، اس نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر کے نسلِ انسان کو صدیوں کی محرومی سے نجات دلائے گا۔