[تحریر: آدم پال]
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت ہندوستان میں لوک سبھا کے انتخابات مئی میں ہونے جا رہے ہیں جس کے لیے کارزارِ سیاست روز بروز گرم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے حالیہ سروے کے مطابق ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں جس کے بعد نریندرا مودی ہندوستان کا وزیراعظم بن سکے گا۔ کانگریس جو گزشتہ دس سال سے بر سر اقتدار ہے اس کے خلاف عوامی نفرت اور غم و غصے کی وجہ سے اس کو تاریخ کی بد ترین شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جس میں بعض مبصرین کی رائے کے مطابق وہ کل 543 نشستوں میں سے شاید 100 نشستیں بھی نہ جیت پائے۔ کانگریس کے وزیر اعظم کے لیے امیدوار نہرو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی کی نوجوانوں کو راغب کرنے کی بھرپور کوششیں بھی رائیگاں جاتی نظرآتی ہیں۔ نریندرا مودی کے دامن پر2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر دیگر بہت سے بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کا وزیراعظم کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرنا اس کی کامیابی سے زیادہ کانگریس اور بائیں بازو کی قیادت کی ناکامی ہے۔
من موہن سنگھ کی عالمی مالیاتی اداروں کی مکمل کاسہ لیسی اور ہندوستان کی معاشی ترقی کا عالمی ذرائع ابلاغ میں ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود ہندوستان کے محنت کش عوام کی حالت زار پہلے سے بدتر ہے۔ کانگریس نے گزشتہ دس سالوں میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کے ریکارڈ توڑ دیے اور 2006-07ء میں 9.6 فیصد تک کا شرح نمو حاصل کیا۔ اسی باعث عالمی مالیاتی ادارے اور سرمایہ دار اسے روس، چین ، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کر رہے تھے۔ خاص طور پر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے باعث جب امریکہ اور یورپ کی معیشتیں گہرے زوال کا شکار ہو گئیں تو معیشت دانوں کی نظریں ان ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مرکوز ہو گئیں اوروہ ان کے ذریعے عالمی سرمایہ داری کی نجات کے سپنے دیکھنے لگے۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے امریکہ کے صارفین کی قوت خرید کے باعث عالمی سطحپر پیداواری صنعت کو چلایا جا رہا تھا۔ لیکن بحران کے بعد یہ توقع کی جانے لگی کے بھارت، چین اور دیگر ایسے ممالک کے صارفین کی قوت خرید اس پیداواری صنعت کو چلائے گی اور سرمایہ داری کا پہیہ چلتا رہے گا۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق ان ممالک میں ایک ایسا درمیانہ طبقہ وجود پاچکا تھا جو پیداواری صنعت کو سہارا دے سکتا۔
لیکن یہ خواب جلد ہی چکنا چور ہو گئے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی شرح نموجہاں امیر افراد کی دولت میں مزید اضافہ کرتی ہے اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے وہاں محنت کشوں کے استحصال میں بھی شدت آتی ہے اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ عرصے میں ہونے والی سرمایہ کاری روزگار میں اضافے کے بجائے اس میں کمی پیدا کرتی رہی ہے اور کم سے کم افراد سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر نہ صرف محنت کشوں کا استحصال شدید ہوا بلکہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کی ایک واضح مثال نجکاری ہے جہاں سرکاری اداروں کی نیلامی کے بعد بڑے پیمانے پر ملازمین کی برطرفی ہے۔ ایسے میںآبادی کے بڑے حصے کی قوت خرید میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ ایک بڑا سوال اس شرح نمو کو لمبے عرصے تک برقرار رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے سرمایہ داروں کے منافعوں کی شرح میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی معاشی بحران کے بعد ہندوستان کی معیشت کا اس کے اثرات سے بچے رہنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ بھی عالمی سرمایہ داری کی زنجیر کی ہی ایک کڑی ہے۔ اس کا ایک واضح اظہار گزشتہ سال جولائی سے ستمبر کے دوران دیکھنے میں آیا جب ہندوستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں تیز گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ اگست 2013ء میں روپیہ 69 ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا جبکہ جنوری 2013ء میں یہ 52 روپے کی سطح پر تھا۔ صرف 28 اگست 2013ء کو روپے کی قدر میں 20 فیصد گراوٹ دیکھنے میں آئی جو گزشتہ 18 سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔ اس تیز گراوٹ سے اسٹاک مارکیٹوں اور سرمایہ کاروں میں کھلبلی مچ گئی اور بڑے پیمانے پرغیر ملکی زر مبادلہ ہندوستان سے باہر جانے لگ گیا۔ اس تیز ترین گراوٹ کی بڑی وجہ امریکی فیڈرل ریزرو بینک کا اعلان تھا جس میں انہوں نے مقداری آسانی( ڈالر چھاپنے کا عمل)میں کمی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں کتنی نحیف ہیں اور عالمی معیشت کا چھوٹا سے جھٹکا ان کے لیے بربادی کا طوفان بن جاتا ہے۔
مذکورہ نتائج دیکھتے ہوئے امریکی فیڈرل ریزرو نے اس فیصلے کو مؤخر کر دیا جس کے باعث ہندوستان کو ستمبر میں اس بحران سے کسی حد تک نپٹنے کا موقع ملا جب روپے کی قدر واپس بحال ہونا شروع ہوئی ، اسٹاک ایکسچینجوں کی گراوٹ رکی اور بیرونی سرمایہ کاری کی واپسی تھمنا شروع ہوئی۔ اس وقت کرنسی دوبارہ 62 روپے کی سطح پر بحال ہوئیہے جبکہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 292 ارب ڈالر ہیں جو ستمبر میں 274 ارب ڈالر تک گر گئے تھے۔ مالیاتی خسارے میں بھی اضافہ ہوا ہے جو پانچ فیصد کی شرح کو چھو رہا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 2010-11ء میں 9.3 فیصد سے کم ہو کر 2013ء میں 4.7 فیصد تک گر گئی جبکہ اگلے مالی سال میں بھی زیادہ سے زیادہ 5.7 فیصد تک جانے کے ا ندازے لگائے جا رہے ہیں۔ تیز ترین شرح نمو کے دور میں بھی غربت، بیروزگاری ، لا علاجی اور دیگر سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا اور اب جبکہ معیشت کے یہ تمام اعشاریے نیچے کی جانب گامزن ہیں تو سماج کی ہولناک صورتحال کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ افراط زر 11 فیصد سے زائد ہے اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور دنیا کے ایک تہائی غریب ہندوستان میں بستے ہیں۔ 2010ء کے عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں 84 کروڑ افراد دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک ارب 17کروڑ افراد پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں جو آبادی کا تقریباً 97 فیصد بنتا ہے۔ یہ سب واضح کرتا ہے کہ تمام تر ترقی کا ثمر کون حاصل کرتا ہے اور اس نظام کی بھینٹ کس کو چڑھایا جاتا ہے۔
کانگریس کے دس سالہ اقتدار کے بعد جہاں محنت کش عوام میں تمام تر پالیسیوں کے خلاف نفرت موجود ہے وہاں گرتی ہوئی شرح نمو اور سرمایہ کاری کے باعث سرمایہ دار بھی متبادل کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت ممبئی اسٹاک ایکسچینج کے اہم کھلاڑیوں سمیت تمام بڑے سرمایہ دار مودی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال ہندوستان کے سو بڑے سرمایہ داروں میں سے 74 نے مودی کے حق میں رائے دی تھی۔ اسی طرح انیل امبانی اور مکیش امبانی دونوں نہ صرف مودی کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس کے جلسوں میں شریک ہو کر اسے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ قرار دے رہے ہیں۔ مکیش امبانی کی کل دولت کا تخمینہ 22ارب ڈالر لگایا جاتا ہے جبکہ انیل امبانی 6.2ارب ڈالر کا مالک ہے۔
2009ء میں کانگریس کی موجودہ حکومت کے آغاز پر مکیش امبانی کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جب وہ ایک بھارتی صحافی کے ساتھ وفاقی وزارتوں کے فیصلے کر رہا تھا۔ اسی دوران اس نے کہا تھا کہ’ کانگریس تو اپنی دکان ہے‘۔ اب یقیناًاس نے اپنی بازی مودی پر لگا دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے سرمایہ دار بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔ دنیا کی اہم سرمایہ کار کمپنیوں میں شامل گولڈ مین ساچز اور عالمی سرمایہ داری کے نمائندہ جریدے اکانومسٹ نے بھی مودی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان سب کا خیال ہے کہ مودی کے آنے سے ہندوستان کی سرمایہ داری اپنی کھوئی ہوئی شرح نمو دوبارہ حاصل کر سکے گی۔ لیکن اس کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جائے گا وہ محنت کش عوام کو پہلے سے زیادہ کچلنے کا باعث بنے گا۔
ستمبر 2013ء میں ریزرو بینک آف انڈیا کے نئے سربراہ کے تقرر سے آنے والے حالات کا عندیہ ملتا ہے۔ رگھو رام راجن اس عہدے پر آنے سے پہلے آئی ایم ایف کا چیف اکانومسٹ رہ چکا ہے۔ راجن معاشیات پر کتابوں کا بھی مصنف ہے اور نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کرگمین سے اس کی بہت سی سخت بحثیں بھی ہو چکی ہیں۔ جہاں کرگمین کینز کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ریاستی اخراجات کر کے سرمایہ داری کو چلانا چاہتا ہے وہاں راجن زیادہ کٹوتیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ راجن نے عہدہ سنبھالتے ہی ہندوستان کے مالیاتی شعبے میں نجکاری اور لبرلائزیشن کا پیغام دے دیا ہے۔ 2014ء میں نہ صرف بہت سے نئے بینکوں کو لائسنس دیے جائیں گے، جس میں امبانی کا ریلائنس گروپ بھی شامل ہے، بلکہ سرکاری بینکوں کی نجکاری بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ 1969ء میں اندرا گاندھی نے تمام بینکوں کو نیشنلائز کر لیا تھا جس کے بعد سے اب تک یہاں کا مالیاتی شعبہ سرکاری کنٹرول میں ہے۔ مالیاتی شعبے کی نجکاری سے جہاں بیروزگاری پھیلے گی وہاں ہندوستان میں وہی پالیسیاں اختیار کی جائیں گی جن کے باعث امریکہ اور یورپ میں بحران آیا۔ قرضوں پر لاگو سرکاری ضابطوں کے خاتمے سے سٹہ بازی میں اضافہ ہو گا۔ ان پالیسیوں سے ایسے بلبلے بنیں گے جو امیر افراد کی دولت میں تو اضافہ کریں گے لیکن عوام کی رہی سہی جمع پونجی بھی غرق ہو جائے گی۔ اسی طرح معیشت کا کردار بھی پیداواری صنعت کی ترقی کی بجائے مصنوعی سرمائے کی جانب مزید تیزی سے مائل ہو گا۔ ان پالیسیوں کے باعث ہندوستان بھی آئی ایم ایف کے آہنی شکنجے میں دوبارہ آ سکتا ہے جس سے یہ ابھی تک بچا ہوا ہے۔ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی کو اپنے سودی قرضوں کے پنجوں میں جکڑنا ہر سود خور کا خواب ہے اور یقیناًعالمی مالیاتی ادارے اس جانب تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ کوئی بھی پارٹی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا پروگرام نہیں دے رہی۔ اسی لیے تمام تر سیاست ذات پات، قومیت، مذہب، پاکستان دشمنی اور دیگر ایسے مسائل کے گرد ہو رہی ہے جن سے عوام کا کوئی بھی ایک بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ابھرنے والی ’عام آدمی پارٹی‘ کا پروگرام بھی کچھ مختلف نہیں۔ دائیں بازو کی اس نئی پارٹی کی تیز ترین مقبولیت کی بڑی وجہ دوسری تمام پارٹیوں کی ناکامی ہے۔ جہاں کانگریس اور بی جے پی عوام کو کوئی متبادل نہیں دے رہے وہاںیو پی میں بر سر اقتدار سماج وادی پارٹی اور اپوزیشن کی بھوجن سماج پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کی قیادتوں کے ہاتھ کرپشن اور جرائم سے رنگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک ایسی پارٹی جس نے اس نظام میں رہتے ہوئے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا اور اسے کارپوریٹ میڈیا نے اچھالا اس کو درمیانے طبقے نے کوئی دوسرا متبادل نہ ہونے کے باعث وو ٹ دیے۔ درمیانے طبقے کی کچھ پرتیں ایسی بھی ہیں جنہیں نام نہاد معاشی ترقی میں تھوڑ ا ساحصہ ملا ہے اور وہ اب اسی نظام میں بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں۔ بر سر اقتدار آتے ہی عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کیجری وال نے کچھ اصلاحات کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس میں دہلی میں بجلی کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک کمی اور گھریلو صارفین کو سرکاری پانی کی فراہمی میں اضافہ شامل ہے۔ اسی طرح کیجری وال اور اس کی کابینہ کے افراد نے سرکاری گاڑیاں اور گھر لینے سے بھی انکار کیا ہے جبکہ کچھ وزرا تو رکشے اور بس میں بیٹھ کر دفتر آتے ہیں۔
لیکن ان تمام اصلاحات کی حدود جلد ہی کھل کر سامنے آ گئیں جب کچھ وزرا نے دہلی پولیس پر کچھ ملزمان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جس کے لیے پولیس افسران نے مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کاروائی سے انکار کر دیا۔ اس کے خلاف کیجری وال اور اس کے حامیوں نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت سرد ی میں تین دن تک دھرنا دیا۔ ان تمام کاروائیوں سے عام آدمی پارٹی آنے والے لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے۔ دہلی کے علاوہ گجرات ، بنگال ، ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی اس پارٹی میں لوگ شامل ہو رہے ہیں اور اس کے انتخابی نشان جھاڑو کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران ایک سال پرانی پارٹی میں اختلافات میں بھی شدت آئی ہے اور داخلی سطح پر محاذ آرائی کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال میں نہ تو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے کو زیادہ دیر برقرار رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس نظام میں رہتے ہوئے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بہت جلد اس پارٹی کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت عوام پر عیاں ہو جائے گی اور یہ پارٹی بھی دوسروں کی طرح اس نظام کی رکھوالی کا فریضہ انجام دینے لگے گی۔
کیجری وال کے دھرنوں کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت میں رہ کر ریاست کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لینن نے اپنی شہر ہ آفاق کتاب ’ریاست اور انقلاب‘ میں واضح کر دیا تھا کہ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑے بغیر سرمایہ داری طبقے کی حاکمیت ختم نہیں کی جا سکتی۔ چھوٹے گھروں میں رہنے ، رکشے میں دفتر آنے اور اقتدار میں رہتے ہوئے دھرنا دینے اور احتجاج کرنا سیاسی طور پر لوگوں کو متوجہ کرنے کے ہتھکنڈے ہو سکتے ہیں لیکن اس نظام کی معاشی بنیادوں کو ہلانے کے لیے معاشی اور اقتصادی پروگرام میں اس نظام کے خاتمے کا لائحہ عمل واضح کرنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کا معاشی پروگرام بھی کانگریس اور بی جے پی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کا دعوے دار ہے۔ یہ ذمہ داری ہندوستان کی وسیع عوامی بنیادیں رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیوں کی بنتی تھی کہ وہ اس چناؤ میں سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ اترتی اور محنت کش طبقے تک ایک متبادل معاشی پروگرام لے کر جاتیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کی قیادت بھی اسی نظام سے مصالحت کر چکی ہے۔ جہاں مغربی بنگال میں انہیں ممتا بینر جی کی ترینمول کانگریس کی حکومت کی ناکامی کے باعث پہلے سے زیادہ سیٹیں ملنے کا امکان ہے وہاں وہ دوسری ریاستوں میں قوم پرست اور دیگر علاقائی پارٹیوں سے گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں جن میں نتیش کمار کی دائیں بازو کی جنتا دل (یونائٹڈ) بھی شامل ہے جو چند ماہ پہلے تک بی جے پی کے ساتھ بہار میں مخلوط حکومت میں تھی۔ اس سے بائیں بازو کی قیادت کی نظریاتی زوال پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔
لیکن اس تمام سیاسی کھلواڑ کے باوجود ہندوستان کا محنت کش طبقہ لڑائی کی تیاری کر رہا ہے۔ فروری 2013ء میں ملک بھر کی ہڑتال اس کا اہم ثبوت ہے۔ اسی طرح بینکنگ کے شعبے کے ملازمین کی 22دسمبر کی ہڑتال بھی معنی خیز ہے جو نجکاری کے خلاف ایک اہم آغاز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مطالبات کی نا منظوری پر فروری میں دوبارہ ہڑتال کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ آنے والے عرصے میں ہندوستان میں طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی اور ہندوستان کا محنت کش طبقہ اپنی انقلابی روایات کو زندہ کرتے ہوئے جب تاریخ کے میدان میں قدم رکھے گا تو پورے بر صغیر و جنوبی ایشیا پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کی ضمانت ہو گی جو جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی کنجی ہے۔