امریکہ: ڈوبتے نظام میں ابھرتی بغاوت کے آثار

| تحریر: PTUDC امریکہ |

شمالی امریکہ میں یورپی آبادکاروں کے بعد کی تاریخ بنیادی طور پر سرمایہ داری کے ظہور، اس کی بربریت، عروج اور زوال کی داستان ہے۔ اگرچہ امریکہ میں صنعت کاری کا عمل دیگر یورپی ریاستوں کے بعد شروع ہوا لیکن عالمی سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں امریکہ کی معدنیات اور (غلامی پر مبنی) زراعت کا بنیادی کردار ہے۔ امریکہ میں سرمایہ داری کی بے پناہ مادی ترقی سرمایہ داری کے عروج کے دور کی غمازی کرتی ہے۔ مقامی آبادی سے چھینے گئے تقریباً لا محدود قدرتی وسائل، مہاجر اور مقامی محنت کشوں کی سستی محنت کے شدید ترین استحصال، نسبتاً محفوظ جغرافیے اور بین الاقوامی حالات کے امتزاج سے امریکہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست بننے میں کامیاب ہوا۔ لیکن سرمایہ داری کی بنیاد میں موجود تمام تر تضادات بھی اس ترقی کے ساتھ ساتھ اپنا اظہار کرتے رہے جن میں کئی معاشی عروج و بحرانات اور محنت کشوں اور غلاموں کی کئی بغاوتیں شامل ہیں۔ امریکہ میں معیشت اور سماج دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظا م کے ساتھ کہیں زیادہ جڑا ہوا ہے۔

معیشت
2008ء کا بحران 1929ء کے بعد شدید ترین معاشی زوال ہے۔ اس کے سماجی اثرات گہرے ہیں۔ اگرچہ 2009-2010ء سے سرکاری طور پر معیشت مندی سے نکل آئی ہے لیکن شرح نمو بحران سے پہلے کی سطح پر نہیں جا سکی۔ محنت کشوں اور عوام کو اس کی کڑی قیمت چکانا پڑی اور پڑ رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے بڑے بینکوں اور کارپوریٹ کمپنیوں کو 700 ارب ڈالر بیل آؤٹ کی شکل میں براہ راست دئیے گئے جو کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ تھا۔ لیکنبالواسطہ طور دی جانے والی رعایات جن میں ٹیکس بریک (ٹیکس میں چھوٹ) اور دیگر شامل ہیں، ان کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر قرضوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ امریکی حکومت کے قرضے اور جی ڈی پی کا تناسب 2006ء میں 64.8 فیصد تھا جو 2015ء میں 104 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اس کے بعد Quantitative Easing یا مقداری آسانی کے طریقے سے نوٹ چھاپ کر مارکیٹ میں پھینکے گئے تا کہ پیسے کی سپلائی سے منڈی متحرک رہے۔ لیکن یہ نام نہاد بحالی بھی مسائل سے دوچار ہے اور 2016ء کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو حدف 0.7 فیصد کی بجائے 0.5 فیصد رہی۔ محنت کش طبقے کے لیے اس بحالی کے ثمرات صرف اعداد و شمار تک ہی محدود ہیں اور ان کی حقیقی قوت خرید اور میعار زندگی میں بہتری کی بجائے گراوٹ آتی جا رہی ہے۔ امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ برس فی گھنٹہ اجرتوں میں صرف 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق کم آمدنی والی امریکیوں کو معاشی بحالی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے اجرتوں میں سالانہ3سے 4فیصد کا اضافہ درکار ہے۔ در حقیقت حقیقی اجرت میں 1968ء سے مسلسل کمی آ رہی ہے۔ موجود ہ کم سے کم اجرت 7.25 ڈالر فی گھنٹہ ہے جو 1968ء میں ڈالر کی 2015ء کی قدر کے مطابق 10.86 ڈالر تھی، یعنی اجرت کم ہوئی ہے۔ 1973ء سے2014ء تک امریکی محنت کشوں کی پیداواریت (Productivity) میں 72.2 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے میں ایک عام محنت کش کی اجرت محض 9.2 فیصد بڑ ھی۔
دنیا کا سب سے دولت مند ملک ہونے کے ساتھ امریکہ میں دولت کی عدم مساوات بھی سب سے زیادہ ہے۔ امرین ترین 0.1 فیصد کے پاس 90 فیصد آبادی سے زیادہ دولت مجتمع ہے۔ بورژوازی کی اپنی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورسز نے 2014ء میں اس دولت اور غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج کو طویل مدت میں معاشی ترقی کے لیے ایک خطرہ قرار دیا تھا۔ چار کروڑ ساٹھ لاکھ افراد حکومت کے مقرر کردہ غربت کے میعار سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ شرح نسلی اقلیتوں اور بچوں میں سب سے زیادہ ہے اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ غربت کا شکار ہے۔ امریکہ میں بچوں میں غربت کی 20.5 فیصد شرح اضافہ صنعتی ممالک میں تقریباً سب سے زیادہ ہے، مثلاً معاشی بحران سے تباہ حال یونان میں یہی شرح 20.4 فیصد ہے۔ ان بچوں کے غریب ہی رہ جانے کے امکانات اس چکر سے باہر نکلنے کے مقابلے میں 32 گنا زیادہ ہیں۔ بحران سے قبل 2007ء میں 12.2 فیصد امریکی غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے، یہ شرح اب 15 فیصد ہے۔
بے روزگاری کی شرح بھی 2008ء کے کریش سے پہلے کی سطح پر نہیں لوٹ سکی۔ فروری میں صدر اوباما نے بڑے فخر سے تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بے روزگاری 4.9 فیصد تک آ گئی ہے، لیکن حقیقت اس سے کہیں تلخ ہے۔ حکومت کے بیورو آ ف لیبر سٹیٹسٹکس کے مطابق بے روزگار لیبر فورس کا وہ حصہ ہے جو کام کی تلاش میں ہے۔ اس میں پارٹ ٹائم یا جز وقتی محنت کش اورایسے افراد شمار نہیں کیے جاتے جو لمبے عرصے سے بے روزگار ہونے کی وجہ سے کام کی تلاش ہی ترک کر چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کو شامل کیا جائے تو بے روزگاری کی حقیقی شرح 10.5 فیصد بنتی ہے۔ گیلپ کے مطابق امریکہ میں صرف 44 فیصد روزگار اچھی نوکری (گیلپ کے مطابق ہفتہ وار 30 گھنٹے سے زیادہ اور باقاعدہ اجرت) میں شمار کیے جا سکتے ہیں اور درمیانے طبقے کو بحال کرنے کے لیے ایسی مزید ایک کروڑ نوکریاں درکار ہیں۔ مئی کے مہینے میں صرف 38,000 نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں جبکہ وال سٹریٹ 162,000 کی تو قع کر رہی تھی۔ مارچ اور اپریل کے روزگار کے اعداد و شماربھی پہلے رپورٹ کی گئی تعداد سے کم نکلے ہیں۔ یہ پانچ سالوں میں سب سے کم اضافہ ہے۔ جون میں فیڈ رل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کا منصوبہ بھی اب مشکوک ہو شکا ہے۔ اس خبر سے سٹاک، ڈالر کی قدر اور حکومتی بانڈز پر شرح منافع میں فوری گراوٹ آئی ہے۔
امریکہ کی معیشت عالمی معیشت کا ایک جز ہے۔ امریکہ کے کل قرضے کا 46 فیصد یعنی 4.5 ٹریلن غیر ملکی حکومتوں سے لیا گیا ہے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ چین کا ہے جس کے پاس 1.2 ٹریلین ڈالر کے بانڈز اور نوٹس ہیں۔ چین امریکہ کا کینیڈا کے بعد دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ملک ہے۔ رواں سال جنوری میں چینی سٹاک مارکیٹ کے کریش کے نتیجے میں امریکی سٹاک کا ڈاؤ جونز انڈسٹریل انڈیکس ایک ہزار پوائنٹس گر گیا یعنی اس کی قدر چھ فیصد کم ہو گئی۔ چینی معیشت کی مزید متوقع سست روی امریکی سرمایہ کارو ں کے لیے باعث تشویش ہے اور ایک کمزور معاشی بحالی ایک بڑے دھچکے کو برداشت نہیں کر سکتی۔ چین اور امریکہ کی باہمی انحصاری کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے سرمایہ دار اپنی منڈیوں کو بچانے کے لیے تجارتی اور محصولاتی تنازعات میں بھی سرگرم ہیں۔ اس تجارتی جنگ میں شدت عالمی تجارت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے جس سے دونوں ممالک سمیت عالمی معیشت ایک گہری کساد بازاری میں جا سکتی ہے۔ بورژوازی کے سنجیدہ حصے اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن اپنے اپنے تنگ نظر مفادات کے ہاتھوں مجبور بھی ہیں۔

صنعت
امریکی صنعت کئی دہائیوں سے مسلسل زوال کا شکار ہے۔ 1965ء میں امریکی معیشت میں مینو فیکچر نگ (یعنی حقیقی پیداواری صنعت) کا حصہ 53 فیصد تھا جو1970ء کی دہائی میں 25 فیصد اور 2008ء کے بحران کے بعد سے12فیصد کے قریب چل رہا ہے۔ صنعت مسلسل سکڑتی جا رہی ہے اور یہ بحران کے بعد سے صنعتی شعبے کی طویل ترین مندی ہے۔ پیداواری صنعت میں روزگار جس کی اجرت اور مراعات دیگر شعبوں کے مقابلے میں عمومی طور پر بہتر تصور کی جاتی ہیں اس میں بھی مسلسل کمی ہے۔ اس وقت تقریباً 9 فیصد محنت کش صنعتی شعبے سے وابستہ ہیں، 1960ء میں یہ تعداد31فیصد تھی۔ Industrial Capacity Utilization یعنی صنعتی پیداواری صلاحیت کا صرف 75 فیصد استعمال ہو رہا ہے، یعنی ایک چوتھائی صنعت سرمایہ داری کے زائد پیداوار کے بحران کی وجہ سے بیکار پڑی ہے۔ یورپی یونین میں پیداواری صلاحیت کا استعمال 81 فیصد کے قریب ہے۔ بحران زدہ یورپ سے یہ موازنہ امریکی صنعت کی حقیقی صحت کو واضح کرتا ہے۔ 2015ء میں جی ڈی پی میں2.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ صنعتی پیداوار میں اضافہ صرف 0.3 فیصد تھا۔ انڈسٹریل پروڈکشن انڈیکس 2016ء کی پہلی سہ ماہی میں 104.1 تھا جو بحران سے پہلے 2007ء کی آخری سہ ماہی کے 105.5 سے کم ہے۔ امریکہ میں پیداواری صنعت کے تاریخی زوال میں چین اور دوسرے ممالک میں سستی لیبر کے ہاتھوں زیادہ شرح منافع سے مصنوعات کی تیاری کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں امریکی صنعت کا بڑا حصہ چین منتقل ہوا ہے۔ اب کئی صنعتیں اپنے کارخانے تاریخی طور پر شمال اور شمال مشرقی صنعتی ریاستوں سے جنوب کی ریاستوں میں منتقل کر رہی ہیں جو روایتی طور پر زراعت پر منحصر تھیں جس کا مقصد وہاں کے محنت کشوں کی سستی محنت سے مزید منافع کمانا ہے۔ اس کیفیت میں صنعتی شعبے میں نئی سرمایہ کاری کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔ تیل کی قیمت میں گراوٹ کے باعث امریکہ میں تیل نکالنے کی صنعت کا بوم بھی ختم ہو چکا ہے اور خام تیل کی پیداوار تقریباً ایک سال سے گرتی چلی آرہی ہے۔ 2015ء میں تیل نکالنے والی کی 67 کمپنیاں دیوالیہ ہو ئی ہیں جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 379 فیصد زیادہ تعداد ہے۔ تیل نکالنے والی رِگزکی تعداد 1999ء کے بعد کم ترین یعنی 489 رہ گئی ہے۔ تیل کی قیمت کے عروج پر 1600 کے قریب رِگز کام کر رہی تھی۔ نتیجتاً اس صنعت کے محنت کشوں کی بڑی تعداد کو فارغ کر دیاگیا اور مزید کو نکالا جائے گا۔ باقی رہ جانے والوں کی اجرتوں اور مراعات میں کمی ہونا نا گزیر ہے۔ گزشتہ جو لائی میں فیڈ رل ریزرو کی سربراہ نے صارفین کے لیے پیٹرول کی سستی قیمت کی وجہ سے معیشت میں تیزی سے بہتری کی امید کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا جو کہ معیشت کو درپیش مسائل کو ظاہر کر رہا ہے۔ برآمدات میں بھی 2011ء کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا اور 2014ء سے اس میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے اور اب یہ بحران کے فوراً بعد 2009ء کی سطح تک گر چکی ہیں۔ ڈالر کی مظبوط قدر کے علاوہ اس کی بڑی وجہ عالمی معیشت کی سست روی ہے جو چین اورتیل پیدا کرنے والے کئی ممالک میں آتے ہوئے معاشی مسائل سے مزید سست روی کا شکار ہو گی۔

قرضہ
جہاں امریکہ کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کا 105 فیصد ہے اور امریکہ دنیاکی مقروض ترین ریاستوں میں سے ایک ہے وہیں انفرادی قرضوں کا بوجھ بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ امریکہ میں 12.25 ٹریلین تھا جو اسی رفتار سے بڑھتے ہوئے سال کے آخر تک 12.68 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گا، جو کہ2008ء میں بحران سے پہلے کی سطح ہے۔ اس میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے قرضے (آٹو لون) 1.06 ٹریلین ڈالر ہیں۔ آٹو لون کی قسط میں تاخیر بیس سال میں بلند ترین سطح پر ہے اور 6.4 فیصد صارف وقت پر قسط ادا نہیں کر پائے۔ یہ نہ صرف مالیاتی منڈی کے لیے تشویش ناک ہے بلکہ گاڑیوں کی صنعت کے لیے بھی بری خبر ہے۔ اس میں بڑا حصہ تیل کے کریش سے متاثر ریاستوں کا ہے۔ اسی طرح کریڈٹ کارڈ کا قرضہ بھی رواں برس ایک ٹریلین تک جا پہنچے گا۔ 2008ء میں کریش کے وقت یہ 1.02 ٹریلین تھا۔ 2015ء میں 10.6 ملین نئے کریڈٹ کارڈز میں سے 25 فیصد سب پرائم یعنی ایسے صارفین کو جاری کئے گئے جن سے قرضوں کی واپسی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ معیشت میں سست روی کے باعث کاروبار ی قرضے کم ہیں اور بینک کریڈٹ کارڈز سے ہی منافع کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 2008ء کا بحران سب پرائم قرضوں کے بحران کے طور پر ہی شروع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ سٹوڈنٹ لون یعنی تعلیمی قرضوں کا ہجم کریڈٹ کارڈ کے قرضوں سے تجاوز کر کے 1.23 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ 2015ء میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ پر اوسطاً 35 ہزار ڈالر فی کس قرضہ ہے، یہ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ مقروض کلاس ہے۔ بلند شرح بے روزگاری اور خصوصاً اچھی آمدن والی نوکریوں کی قلت کی وجہ سے ان قرضوں کی واپسی مشکل ہوگی اور کئی ریٹائر ہونے کی عمر تک یہ قرضہ چکاتے رہیں گے۔ قرضوں کی مسلسل بلند شرح اور اس میں متواتر اضافے کی بڑی وجہ آمدنی سے زیادہ اخراجات زندگی میں اضافہ ہے۔ 2003ء سے اوسط (Median) گھریلو آمدن میں26 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ میڈیکل کے اخراجات میں 51 فیصد اور اشیا خورد و نوش کی قیمتیں 37 فیصد بڑھی ہیں۔

ایک اور بحران
ایک طویل عرصے سے تقریباً صفر شرح سود کی افادیت بھی اپنی حدود کو پہنچ چکی ہے۔ Quantative Easing یا حکومت کی جانب نوٹ چھاپ کر معیشت کو متحرک رکھنے کی پالیسی کے خاتمے کے بعد معیشت میں نمو کی کوئی پائیدار بنیاد موجود نہیں ہے۔ کم شرح سود کے با وجود 2015ء میں پہلی مرتبہ گھر خریدنے والوں کی شرح تین دہائیوں میں کم ترین سطح پر تھی یعنی نوجوان لوگ مکان خریدنے کے متحمل نہیں ہو پا رہے۔ 2016ء کے آغاز میں سٹاک کا کریش سے ہوا۔ اگرچہ اس کے بعد منڈی میں بحالی آئی ہے لیکن سٹاک مارکیٹ خطر ناک حد تک حقیقی معیشت کی کمزوری سے لا تعلق ہے۔ سٹاک مارکیٹ کی مالیت اور جی ڈی پی کا تناسب 110 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ طویل مدت میں یہ اوسطاً 75 کے قریب ہوتا ہے۔ بینکوں کے اثاثوں کی بڑی تعداد حکومتی بانڈز اور صارفین کے قرضو ں کی شکل میں ہے جن کی واپسی میں مسائل نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حکومت کے قرضے اس کی آمدن سے 600 فیصد زیادہ ہیں۔ حکومتی اور نجی قرضوں کے اس بے پناہ پہاڑ کے بوجھ، مالیاتی محرکات کے خاتمے ، عالمی معیشت کی سست روی اور چین میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کی بنا پر ایک نئے بحران کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس مرتبہ مرکزی بینک نہ تو شرح سود میں کمی کر کے (جو پہلے ہی 0.25 فیصد ہے) اور نہ ہی حکومت مزید قرضے لے کر معیشت کو سہارا دے سکتی ہے، اور یہ بحران 2007ء کے کریش سے کہیں بد تر ہو سکتا ہے۔ پورٹو ریکو جو امریکہ کا ایک سمندر پار علاقہ ہے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اگرچہ اس کی معیشت کا ہجم ملک میں قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتا لیکن یہ دیگر ریاستوں اور وفاقی حکومت کے لیے ایک تنبیہہ ہے۔

انفراسٹرکچر
ملک کا انفرا سٹرکچر مسلسل شکست و ریخت کا شکار ہے۔ امریکن سوسائٹی فار سول انجینئرز کے مطابق آنے والے دس برسوں میں انفرا سٹرکچر میں اخراجات اور ضرورت کے درمیان 1.44 ٹریلین ڈالر کا فرق ہو گا۔ بندر گاہوں، شاہراہوں، سڑکوں، ریل، پلوں، پانی اور بجلی کی فراہمی کے ڈھانچے کے لیے2020ء تک 3.32 ٹریلین ڈالر درکار ہیں جبکہ اسکے لیے محض 1.88 ٹریلین ڈالر مختص ہیں اور یہ فرق 2040ء تک 5.18 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ کمزور اور ناکافی انفرا سٹرکچر کی وجہ سے 2016ء سے 2025ء کے دوران ہر خاندان کو سالانہ 3400 ڈالر کا نقصان ہو گا۔ انفرا سٹرکچر کی وجہ سے ہونے والا نقصان اس کو ٹھیک کرنے کے اخراجات سے زیادہ ہے۔

سامراج
سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کی کمزوری کا اظہار خارجی طور پر بھی نظر آ رہا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بظاہر نا قابل تسخیر امریکی سامراج ایک مسلسل زوال سے دوچار ہے۔ عراق اور افغانستان میں شکست نے عسکری طاقت کی حدود کو ظاہر کیا ہے۔ روس اور چین کے جانب سے کئی جگہوں پر امریکی طاقت کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے مسئلے پر روس کی یک طرفہ کاروائی امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی یوکرینی حکومت کے لیے ہزیمت کا باعث بنی۔ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین امریکہ کو مسلسل اشتعال دلا رہا ہے اور اپنی بحری طاقت میں توسیع کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ اورخصوصاً شام اور عراق میں ایران کی سفارتی اور فوجی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس سے تعلقات بحال کرنے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے۔ کیوبا سے تعلقات کی بحالی بھی کئی دہائیوں سے جاری معاشی ناکہ بندی اور جبر کی پالیسی کی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔ امریکہ نے 500 ملین ڈالر سے شام میں ہزاروں جنگجوؤں کو تربیت دی تھی لیکن گزشتہ برس امریکی جنرل لائیڈ آسٹن کے مطابق ان میں صرف ’’چار سے پانچ‘‘ جنگجو میدان میں موجود تھے۔ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے روایتی اتحادی اب امریکی سامراج کو کسی حد تک آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہونے کے باوجود امریکی سماج اور حکمران طبقے میں نئی جنگوں کے لیے بڑی حمایت نہیں ہے۔ لیکن اسلحہ ساز اور دوسری جنگی صنعت کا مسلسل دباؤ بھی برقرار ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ اس کے بعد کے سات ممالک کے دفاعی بجٹ کے کل جمع سے زیادہ ہے۔ اس کا بڑا حصہ فوجی صنعت کے مختلف حصوں کو منافع بخش ٹھیکوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ جدید ترین لڑا کا تیارے ایف 35 پر 1.5 ٹریلین ڈالر اخراجات آ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود سینٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئر مین جان مکین نے فوجی تاریخ کے سب سے مہنگے پراجیکٹ کو ایک’’سکینڈل‘‘ اور اخراجات میں تجاوز کو’’شرمناک‘‘ قرار دیا ہے۔

سماج
امریکی معاشرہ صحت کے شعبے میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اخراجات کرتا ہے۔ سالانہ فی کس نو ہزار ڈالر خرچ کرنے کے باوجودسرکاری شعبے میں میڈیکل کا کوئی جامع نظام نہیں ہے۔ امریکہ میں جی ڈی پی کا تقریباً 18 فیصد صحت پر خرچ ہوتا ہے جبکہ برطانیہ جہاں نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) سب کے لیے مفت ہے وہاں جی ڈی پی کا تقریباً 9 فیصد صحت پر خرچ ہوتا ہے۔ اوسط عمر صنعتی ممالک میں سب سے کم ہے۔ نومولود بچوں میں اموات کی شرح ایک ہزار میں سے 6.1 ہے جو صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ مثلاً جاپان اور فن لینڈ میں یہ شرح 2.3 ہے۔ امریکی محنت کش صحت کی سہولیات کے لیے ہیلتھ انشورنس پر انحصار کرتے ہیں۔ اوباما حکومت کی جانب سے کچھ اصلاحات کے باوجود تین کروڑ تیس لاکھ افراد انشورنس سے محروم ہیں۔ ایک تہائی سے زیادہ امریکی میڈیکل بلوں کی وجہ سے مالی مشکلات کو شکار ہیں۔ 2014ء میں 36 فیصد امریکیوں نے اخراجات کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے گریز کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں دیوالیہ ہونے والے افراد میں 62 فیصد میڈیکل بلوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوتے ہیں اوران میں سے 72 فیصد انشورنس ہونے کے با وجود میڈیکل بل ادا نہیں کر سکتے۔
اوسطاً ایک فل ٹائم امریکی محنت کش کو ایک کمرے کے اپارٹمنٹ کا کرایہ بھرنے کے لیے 15.50 ڈالر فی گھنٹہ اور دو کمروں کے لیے 19.35 ڈالرفی گھنٹہ کمانے کی ضرورت ہے جبکہ وفاقی کم از کم اجرت 7.25  ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ نیو یارک اور سان فرانسسکو جیسے شہروں میں بلند کرایوں کی وجہ سے محنت کشوں کا رہنا بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑے شہر نیو یارک میں گزشتہ آٹھ برسوں میں کرایوں میں اوسطاً 12 فیصد اضافہ ہوا جبکہ آمدن محض 2 فیصد بڑھی ہے۔ نیو یارک ، شکاگو اور زیادہ بڑے شہروں میں آدھے سے زیادہ خاندان اپنی آمدن کاتیس فیصد سے زیادہ کرائے میں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
تمام بڑے شہر وں میں رہائش نسلی طورپر منقسم ہے اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے علاقے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ فلا ڈلفیا، بالٹی مور، شکاگو اور دوسرے بڑے شہروں کے اندرونی علاقے بے روزگاری، جرائم، تشدد اور منشیات کا گڑھ بن چکے ہیں۔ ان علاقوں میں تعلیم، صحت کی سہولیات اور دیگر انفرا سٹرکچر غیر معیاری ہیں۔ یہاں بسنے والوں کی اکثریت سیاہ فام یا لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے۔ 2015ء میں آتشیں اسلحے سے قتل ہونے والوں کی تعداد 13,286 تھی۔ اس تشدد میں زخمی اور اپاہج ہو جانے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2015ء ہی میں ماس شوٹنگ (سر عام فائرنگ سے بڑے پیمانے پر قتل) کے 372 واقعات ہوئے جن میں 475 قتل اور 1870 افراد زخمی ہوئے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکی میں گولی سے مرنے کے امکانات پاکستان میں دہشت گردی سے مرنے سے زیادہ ہیں۔ تشدد کے یہ واقعات سماج میں موجود ایک گہری نفرت اور مایوسی کی علامتیں ہیں۔ اس سے کہیں تشویش ناک سالانہ 42,000 کے قریب خود کشیاں ہیں۔ killedbypolice.net کے مطابق 2015ء میں پولیس کے ہاتھوں 1207 افراد قتل ہوئے۔ سماج پر طاری یاس کی تازہ ترین مثال ہیروئن کی وبا ہے۔ 2014ء میں منشیات اور نشہ آور ادویات کے استعمال سے 47,055 ہلاک ہوئے ہیں۔ ہر روز 78 افراد ہیروئن اور اس جیسی نشہ آور ادویات کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد درمیانے طبقے کے متمول افراد پر مشتمل ہے۔
سماج میں عدم مساوات جہاں طبقاتی ہے وہاں یہ سماج نسلی بنیادوں پر بھی تقسیم ہے۔ حکمران طبقہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا کلاسیکی داؤ استعمال کر کے اپنی بالا دستی قائم رکھے ہوئے ہے۔ نسلی اقلیتوں میں غربت، بے روزگاری، جرائم اور تشدد کہیں زیادہ ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق ایک عام سیاہ فام خاندان کے پاس ایک اوسط سفید فام خاندان کے مقابلے میں 6 فیصد دولت ہے جبکہ لاطینی خاندان کے پاس 8 فیصد۔ ایک سفید فام مرد کی ایک ڈالر اجرت کے مقابلے میں اسی کام کے ایک سفید فام عورت کو 79 سینٹ، ایک لاطینی عورت کو 55 سینٹ اور ایک سیاہ فام عورت کو 60 سینٹ ملتے ہیں۔ امریکہ کی جیلوں میں 23 لاکھ افراد قید ہیں۔ یہ تعداد چین اور ہندوستان میں قیدیوں کی تعداد کو ملا کر بھی زیادہ ہے۔ ان میں 37 فیصد سیاہ فام اور 33 فیصد لاطینی ہیں جبکہ آبادی میں ان کا تناسب 13 اور 17 فیصد ہے۔ اس وقت جتنے سیاہ فام مرد کالج میں ہیں اس سے زیادہ تعداد جیلوں میں قید ہے۔ امریکہ دنیا کے صرف تین ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا قانون نہیں ہے۔ دوسرے دو ممالک میں انتہائی غریب اور پسماندہ پاپوا نیو گنی اور لیسوتھو شامل ہیں۔ اسی طرح ملازمین کو ملنے والی چھٹیوں میں بھی امریکہ صنعتی ممالک میں سب سے نیچے ہے۔

سیاست
جہاں سماج میں یاس اور بیزاری کی علامات بڑھ رہی ہیں وہیں سماجی خلفشار کا اظہار وقتاً فوقتاً تحریکوں کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔ 2006ء میں تارکین وطن کی تحریک میں کروڑوں محنت شریک تھے۔ معاشی کریش کے بعد 2011ء کی آکو پائے وال سٹریٹ اور میڈیسن کی تحاریک نوجوانوں اور محنت کشوں کے غصے کی ایک جھلک تھیں۔ سیاہ فام افراد کے پولیس ہاتھوں قتل اور تشدد کے خلاف ’بلیک لائیوز میٹر‘ (Black Lives Matter) اور کم از کم اجرت 15 ڈالر کرنے کے لیے ’فائٹ فار 15‘کی تحریکیں اگرچہ خود رو ہیں اور ان میں مرکزیت نہیں لیکن یہ سماج میں سلگتے ہوئے عدم اطمینان کی علامات ضرور ہیں۔
سماج میں جاری عدم اطمینان کا اظہار سیاسی میدان واضح ہے۔ امریکی سیاست تقریباً ایک صدی سے، اور بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد دو پارٹی سسٹم کے گرد گھوم رہی ہے۔ ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹیاں سیاسی جماعتوں سے زیادہ الیکشن مشینری ہیں اور ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ دائیں بازو کی دونوں پارٹیوں میں شاید اتنا ہی فرق ہے جتنا پیپسی اور کوکاکولا کے مشروبات میں۔ سیاست اور سرمائے کا تال میل ایسا ہے کہ انتخابات میں اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ فیڈرل الیکشن کمیشن کے مطابق ایوان زیریں کی سیٹ جیتنے کے لیے اوسطاً 1.7 ملین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور سینٹ کی سیٹ 10.5 ملین ڈالر خرچ کر نے پر جیتی جاتی ہے۔ اس دو پارٹی نظام نے سرمایہ دارانہ نظام کو بہت عرصے تک سہارا دیا لیکن کوئی اور متبادل نہ ہونے کی وجہ سے اب یہی پارٹیاں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
2008ء کے کریش کے بعد سماجی خلفشار کو پھٹنے سے روکنے کے لیے حکمران طبقے نے اوباما اور اس کے مبہم ’تبدیلی‘ کے نعرے کو پروان چڑھایا۔ پہلے سیاہ فام صدر اور درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے کی وجہ سے سماج کے کچھ حصوں نے اسے ایک تبدیلی کے طور پر دیکھا۔ لیکن یہ سراب جلد ہی ٹوٹ گیا جس کے بعد کسی حد تک ایک سیاسی جمود دیکھنے میں آیا۔ لیکن 2016ء کے صدارتی انتخابات سماجی شعور میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں برنی سینڈرز کا منظر عام پر آنا اور اسے ملنے والی پذیرائی ایک نئی پیش رفت ہیں۔
سینڈرز کی زیادہ تر سیاست ایک آزاد امید وار کے طور پررہی ہے لیکن مختلف ایشوز پر وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ ووٹ دیتا رہا ہے۔ صرف آٹھ برس قبل اوباما کے مخالفین اسے سوشلسٹ کہہ کر گالی دیتے تھے اور اب برنی سینڈرز کی ساری مہم ’جمہوری سوشلزم‘ کے گرد ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ کچھ عرصے سے جاری رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نوجوان سرمایہ داری سے زیادہ سوشلزم کے حق میں ہیں۔ برنی سینڈرز کی مجوزہ پالیسیوں میں مفت صحت کا نظام، کالج کے دو سال تعلیم مفت اور کم از کم اجرت 15 ڈالر شامل ہیں۔ اگرچہ یہ سرمایہ دارانہ اصلاح پسندی سے زیادہ کچھ نہیں لیکن امریکی سماج اور سیاست کے تناظر میں بہت ریڈیکل تصور کیے جا رہے ہیں۔ وال سڑیٹ کو لگام ڈالنے اور ’ارب پتی طبقے‘ کے خلاف ’سیاسی انقلاب‘ کے نعرے نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں اس نے ہزاروں کے جلسے کیے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی منافقت اور اس کی وال سٹریٹ اور اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے مقابلے میں برنی سینڈرز ایک مخلص اور بے باک سیاست دان کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کا پروگرام سرمایہ داری میں اصلاح پسندی کا پروگرام ہے اور سکینڈینویا (سویڈن، ڈنمارک وغیرہ) کے ماڈل سے متاثر ہے۔ لیکن سکینڈینویا اور دوسرے یورپی ممالک میں بورژوا فلاحی ریاست دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کے عروج کے دور میں قائم ہوئی تھی جو اب بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ سرمایہ داری کے زوال اور بحران کے دور میں نظام اور ریاست کے پاس اس طرح کے اقدامات کرنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ڈیلی گیٹس کے جوڑ توڑ کی بنا پر اسے صدارتی امیدوار کے طور پر پارٹی کی نامزدگی ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اس کی انتخابی مہم کا دباؤ اور رفتار ہی اس کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ اسکے شکست قبول کرنے پر ایک وقتی مایوسی جنم لے گی لیکن تضادات حل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کشمکش کسی اور صورت میں پھر سے ابھرے گی۔ ایک امکان اس کے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا بھی ہے۔ اس صورت میں ڈیمو کریٹک پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہو گی اور ایک نیا سیاسی ڈھانچہ بھی ابھر سکتا ہے۔ مستقبل کی کسی بھی سیاسی تشکیل میں یونینز کا کردار بہت اہم ہو گا جن میں سے اکثریت کی قیادت ابھی تک ڈیمو کریٹک پارٹی اور ہیلری کلنٹن کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن انہیں نیچے سے دباؤ کا سامنا ہے اور چند یونینز نے سینڈرز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اگر تحریک کے شدید دباؤ کے نتیجے میں وہ اقتدار میں آ بھی جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری سرمایہ داری کے بحران کو سنبھالنے کی ہو گی۔ اصلاح پسندی کی مادی بنیادیں نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ناکامی ناگزیر ہے۔ اصلاح پسندی کے اس سکول سے گزر کر ہی محنت کش اور نوجوان انقلابی شعور حاصل کریں گے۔
سماج میں ہونے والے پولرآئزیشن بائیں اور دائیں دونوں جانب اپنا اظہار کرتی ہے۔ دائیں بازو کے پاپولسٹ ڈونلڈ ٹرمپ کا ابھار بورژوا سیاست اور ری پبلکن پارٹی کے بحران کا عکاس ہے۔ یہ ارب پتی پراپرٹی ڈیلر بورژوازی کا سنجیدہ نمائندہ نہیں ہے۔ اس نے خود کو اسٹیبلشمنٹ مخالف امید وار کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت موجودہ حکمران اسٹیبلشمنٹ سے بیزارہیں۔ اس کے حامیوں کی اکثریت قصباتی علاقوں میں سماج کی پسماندہ پرتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ درمیانے طبقے کی نچلی پرتیں ہیں جو معاشی بحران سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بحران سے پہلے بھی ایک طویل عرصے سے سرمائے کے شہری علاقوں میں ارتکاز کا عمل جاری تھا جس سے یہ پرتیں غربت اور بے روزگاری میں گرتی جا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ محنت کش طبقے کے کچھ حصے بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق ان صنعتوں سے ہے جو مسلسل زوال پذیر ہیں اور ماضی کی خوشحالی کی جانب لوٹ جانے کا خواب (جس کا نعرہ ٹرمپ لگا رہا ہے) ان کے لیے دلکش ہے۔ یہاں تک کہ اس نے فتح یاب ہونے پر ری پبلکن پارٹی کو محنت کشوں کی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کی زیادہ تر نعرہ بازی نسل پرستی، خواتین، ہم جنس پرستوں، معذوروں اور تارکین وطن کے خلاف نفرت پر مبنی ہے۔ وہ لوگوں کے خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے کھیل کر عظمت رفتہ کی واپسی کا پیغام دے رہا ہے جو سماج کی کچھ پرتوں کے لیے بلا شبہ پر کشش ہے۔ لیکن اس کے خلاف رد عمل بھی شدید ہے۔ متعدد مقامات پر اس کے جلسوں کے خلاف مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شکاگو میں تو اس کے جلسے کو ہونے ہی نہیں دیا گیا۔ ری پبلکن پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ پہلے تو اسے ایک مذاق سمجھ رہی تھی۔ لیکن اس کی مہم کی تیزی کے بعد انہوں نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی جوبے سود ثابت ہوئی۔ اب وہ عملی طور پر پارٹی کا نامزد امید وار ہے اور پارٹی اسٹیبلشمنٹ اس کے آگے جھکتی جا رہی ہے۔ اس کے سب سے بڑے ناقد اور پارٹی میں طاقتور شخصیت، ایوان زیریں کے سپیکر پال رائن نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی پہلے ہی بحران سے دوچار ہے اور گزشتہ برس اپنی ہی پارٹی کے ایوان زیریں کے سپیکر جان بونر کو فارغ کرنا اس بحران کا ایک اظہار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ابھار ری پبلکن پارٹی میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔
بورژوازی کے سنجیدہ حلقے ٹرمپ جیسے ناقابل اعتماد شخص کو اقتدار نہیں دینا چاہتے۔ ان کی پسندیدہ امید وار ہیلری کلنٹن ہے۔ یہ خاندان چالیس برس سے کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں ہے اور حکمران طبقے کے لیے آزمودہ اور قابل اعتماد ہے۔ وہ اسے پہلی خاتون صدر بنا کر اوباما والا فارمولا دہرانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب حالات 2008ء والے نہیں ہیں اور نوجوان عورتوں کی اکثریت برنی سینڈرز کی حمایت کر رہی ہے۔ ہیلری کی زیادہ تر مہم لوگوں کو ٹرمپ سے ڈرا کر ووٹ حاصل کرنے پر مبنی ہے۔ Lesser Evil یا کم تر برائی کا یہ فلسفہ ایک لمبے عرصے سے امریکی سیاست پر حاوی ہے۔ لیکن اب اس کی حدود پوری ہو چکی ہیں اور موجودہ انتخابی مہم ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہے۔ سرمایہ داری پر عدم اعتماد اس کے اداروں ، سیاست اور ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔
ٹریڈ یونینز کی رکنیت تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہے۔ محنت کشوں کا 11.1 فیصد یونینز میں منظم ہے۔ 1950ء کی دہائی میں یہ شرح 35 فیصد کے قریب تھی۔ سرمایہ داری کے عروج کے دنوں میں یونین قیادتیں سرمایہ داروں اور ریاست کے ساتھ مل کر محنت کشوں کو قابو میں رکھنے کا کام انجام دیا کرتی تھیں۔ معیشت اور صنعت کے بحران اور زوال کے اس عہد میں بھی یونین قیادت یہی فریضہ انجام دینے کی کوشش میں ہے، جس سے محنت کشوں کی بڑی تعداد قیادت سے بد ظن ہے۔ یونین قیادت سیاسی طور پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ منسلک ہے۔ ہڑتالوں کی تعدا د تاریخی طور پرکم ترین سطح پر ہے۔ 2015ء میں ایک ہزار سے زیادہ محنت کشوں کی شمولیت والی صرف 12 ہڑتالیں ہوئیں جن میں 47 ہزار محنت کش شریک تھے۔ لیبر تحریک کے عروج کے دنوں میں مثلاً 1974ء میں 424 ایسی ہڑتالیں ہوئی تھیں جن میں سترہ لاکھ محنت کشوں نے حصہ لیا تھا۔ اس وقت محنت کشوں کے غم و غصے کا اظہار صنعتی میدان کی بجائے سیاسی میدا ن میں ہو رہا ہے۔ یہ محض اس عمل کی شروعات ہے اور طبقہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بہت سے اسباق اخذ کرے گا۔ سیاسی میدان میں سیکھے گئے اسباق یونینز اور مزدور تحریک پر اثر انداز ہوں گے۔
ان حالات میں سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔ موجودہ نسل تاریخ کی سب سے تعلیم یافتہ نسل ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے باوجود اس نسل کے حالات پچھلی سے بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی سرکاری شرح اوسط سے دگنی ہے۔ 32 فیصد نوجوان اپنے والدین کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 1960ء میں یہی شرح 20 فیصد تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے انہیں مستقبل سے زیادہ امید نہیں ہے۔ ان کی بڑی تعداد اس نظام سے باہر کسی حل کی تلاش کی جانب سوچنا شروع ہو چکی ہے۔ یہ نسل ما ضی کے تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے ایک حقیقی تبدیلی کی جانب دیکھ رہی ہے۔ سماج میں بائیں باز و کی جانب ایک عمومی رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ ریڈیکلائزیشن کے ساتھ پولرائزیشن بھی بڑھ رہی ہے۔ طبقاتی جنگ کی ابتدائی صف آرائی ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے جو کئی مراحل سے گزرے گا۔ لیکن ایک بات حتمی ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے طویل مدت کا سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکے گا۔ مختلف نئے سیاسی رجحانات کا عروج و زوال ہو گا۔ امریکی خواب (American Dream) یعنی سرمایہ داری میں رہتے ہوئے معیار زندگی میں مسلسل اضافے کی امید ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اب امریکہ کے محنت کش اور نوجوان ایک حقیقی تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ امریکی محنت کشوں کے ہاتھ میں دیو ہیکل طاقت ہے۔ یہ طبقہ ساری دنیا کو بدل کر رکھ سکتا ہے اور عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔