موروثی سیاست کا تسلط

تحریر: لال خان

محنت کش عوام کی انقلابی تحریکیں تاریخ کے غیر معمولی ادوار کی غمازی کرتی ہیں۔ عام حالات میں عوام ‘حاکمیت کے اداروں، شخصیات اور سیاست کے بالادست اور بلندوبالا میناروں کی نیچے مغلوب رعایا بننے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ جہاں اوپر سے طاقت کے ذریعے سیاست اور ریاست کے ایوان ایک مسلسل حاکمیت مسلط کرتے ہیں وہاں حکمران طبقات کے مفکر ین، دانشور اور تجزیہ کار انکی جعلی عظمت اور بڑائی کو عوام کی نفسیات میں مسلسل سرایت کروانے کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کبھی قوم کی عظمت اور کبھی مذہبوں کا تقدس ان افراد اور اداروں سے جوڑ دیا جاتا ہے تو کبھی انکی فرضی دلیری کی تشہیر اور ان کے مصنوعی ہیروازم کی داستانوں سے عوام کو انکی عزت، مرتبت اور عظمت کا پیروکار بنایا اور بنوایا جاتا ہے۔
برصغیر جنوب ایشیا میں حاکمیت کا ایک انداز یہ بھی رہا ہے کہ حکمران خاندانوں کے جاہ وجلال اور شان وشوکت سے انکی بادشاہتوں کی دھاک بٹھائی جاتی رہی ہے۔ چندرگُپت موریا سے لے کر اشوکا اور مغلیہ خاندان سے لے کر رنجیت سنگھ تک ان کی حاکمیت کی داستانیں، خاندانی رفاقتیں اور تنازعات‘ سماج کی گفتگو کے موضوعات بنائے گئے ہیں۔ شہزادوں اور شہزادیوں کے عشق ومحبت کی داستانیں اور ان میں پڑنے والے شگاف اور ہجر کی کہانیاں معاشرے کی عمومی روایات اور حکایات بنا دی جاتی ہیں۔ انار کلی کی داستان میں شہزادے سلیم (شیخو) اور اکبر اعظم کی تکرار اور تصادم کی داستان گو ئی سے لے کر جدید فلم تک میں انہی حکایات نے غلبہ رکھا اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ اورنگزیب اور داراشکوہ کے تصادم اور خونی رشتوں کے باہمی خونریز انتقام کے فسانے بھی زبان زدِ عام ہوئے۔ رنجیت سنگھ کے دربار، اسکی مہارانیوں اور اولادوں کے تعلقات اور کردار لوک داستانیں بنا دیں گئیں۔ لیکن 1917ء کے انقلابِ روس نے تاریخ کا دھارا یکسر موڑ دیا تھا اور سیاست کو بین الاقوامی طور پر محنت کی عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسکے بعد سے آج تک کی سیاست میں لبرل اور مذہبی سیاستدانوں اور پارٹیوں کے پاس ’’عوام‘‘ کی بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ لیکن آج کی جدید سیاست میں بھی شاہی خاندانوں کے ان ڈراموں کو عوام کو ذہنی طور پر پست کرنے اور ان میں الجھا کر طبقاتی جدوجہد سے منحرف کروانے کی سوچیں مسلط کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان بننے کے بعد محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ابھارنے اور الیکشن لڑوانے میں بھی انکے خاندانی رشتے کو بنیاد بنایا گیا۔ بھٹو کا ابھار اور عوام میں مقبولیت کا حصول انقلابی سوشلزم کے پروگرام سے ہوا تھا لیکن ایک بتدریج انداز میں اس نظریاتی سیاست کو موروثی سیاست میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر جب بھٹو خاندان کا زوال ہوا تو اسی خاندانی وراثت کی روایت کو زرداری خاندان میں منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر کے درمیان تنازعات اور مرتضیٰ کے قتل تک میں اس وراثتی لڑائی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ پھر نصرت بھٹو اور بے نظیر کے درمیان اختلافات بھی طویل عرصے تک عام گفتگو کے محور رہے۔ اب پیپلز پارٹی کے کاسہ لیس لیڈر زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان مصنوعی اختلافات گھڑ کر پارٹی کارکنان اور عوام میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی دائیں جانب رغبت اور سفر سے جنم لینے والی بدگمانی اور حقارت کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح پھر نواز شریف خاندان بھی موروثی سیاست میں تیزی سے ابھر کر سامنے آئی۔ نواز شریف کی برطرفی کے بعد اس خاندان کے افراد کوماضی بعید کے خاندانوں کی طرح کے ہیرو، ہیروئین اور ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کچھ حصے مزاحمت کرنی والی مریم کو ایک ہیروئن گردانتے ہیں اور اداروں سے مصالحت کے درس دینے والے شہباز اور حمزہ شریف کو ولن کی نظروں سے دیکھنے والوں کی اکثریت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقتدار، ریاستی طاقت اور دولت کی ہوس ایسے ہولناک کام کرواتے ہیں کہ انسان ہر رشتے اور ہر ناطے کو قربان کردینے میں لمحوں کی تاخیر بھی نہیں کرتا۔ اقتدار کے نشے نے بڑے بڑوں کو غرق کر دیا ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ کی مریم کو یہ ہدایات اور مشورے کہ وہ ’’ہتھ ہولا رکھے‘‘ اور ’اداروں‘ سے ٹکراؤ کی سیاست نہ کرے، ان کی ہوسِ اقتدار کی عکاسی کرتے ہیں۔ چونکہ اس ملک میں کوئی واردات کیے بغیر کوئی آدمی امیر نہیں ہوسکتا اور دولت کے بغیر اس سیاست میں اقتدار مل نہیں سکتا تو پھر ان اداروں کے احترام کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کھلواڑ کا تحفظ کرتے ہیں۔ میاں شہباز صاحب کی اہلیہ تہمینہ بیگم تو بہت عرصے سے نواز شریف کے خلاف ’’ٹویٹس‘‘ کر رہی تھیں۔
حکمران طبقات کے جو رشتے نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں ہیں۔ دولت اور طاقت کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی اور انکے حصول کے لئے یہ حکمران طبقات خونی رشتوں کو بھی پامال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ لیکن اگر مریم اور نواز شریف پر برا وقت آگیا ہے تو حمزہ اور شہباز پر بھی مقدمات ہیں۔ شاید حمزہ کے مختلف سیکنڈلوں کی وجہ سے ان کو ’’اداروں‘‘ کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ لیکن کون جانے کب با پ بیٹوں کی باری بھی آجائے! ایک قدیم یونانی روایت ہے کہ جب دیوتا کسی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کو دیوانہ کردیتے ہیں۔ نواز شریف کو نکالنے والوں نے اس کو ایسے وقت میں برطرف کیا جس وقت اسکی ’’معاشی ترقی‘‘ کا بھانڈہ پھوٹنے ہی والا تھا۔ اس نظام میں بجٹ اور تجارت کے ہولناک خساروں کو پُر کرنے کے لئے عوام پروار کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ پچھلے دوماہ میں جس طرح سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور عام لوگوں کی پہلے سے اذیت ناک زندگی کو مزید گھائل کیا جا رہا ہے اس میں اگر نواز شریف حکومت میں رہتا تب بھی یہی ہونا تھا۔ موجودہ نظام میں اگر عمران بھی آئے گا تو بھی مہنگائی کی ذلت، غربت او رمحرومی مزید بڑھے گی۔ ایسے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مریم مقتدر قوتوں سے برسرپیکار ہونے کے لئے سرگرم ہو رہی ہے لیکن اس کو خاندان اور ’’پارٹی‘‘ کے اندر سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے سیاست کو خاندانی حسد اور رقابت کے ان ناٹکوں تک محدود کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم اس لڑائی میں اترتے ہیں تو ان کو اسی ریاستی حاکمیت اور خاندان سے برسرپیکار ہونا پڑے گا جس کے ذریعے وہ اس سیاست میں ابھرے تھے۔ لیکن نواز شریف کی داتا دربار کی تقریر میں انقلاب کی لفاظی اور مریم کی جارحانہ مزاحمتی تقاریر سے عوام باہر نہیں آ جائیں گے۔ جب تک عوام اس موروثی سیاست کے چنگل میں جکڑے رہیں گے ان کی سیاسی حمایت محض ووٹ ڈالنے یا جلسوں یا جلوسوں میں جزوی شرکت تک ہی محدود رہے گی۔
پاکستان کے نوجوان اور محنت کش صرف ایک مرتبہ ہی 1968-69ء میں اس سیاست اور معاشرت کی اقدار اور روایات کی زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کے میدان میں اترے تھے۔ یہ تحریک صرف اس لئے ایک انقلابی کردار کی حامل تھی چونکہ ان نادر لمحات میں عوام کا شعور واقعات کے تسلسل کے ساتھ آن ملا تھا۔ انہوں نے طبقاتی جدوجہد کی اپنی طاقت اور وسعت کا ادراک حاصل کرلیا تھا۔ عام حالات میں ان خاندانوں کی باہمی کشمکش کی تحریکوں میں عوام ان کی حاکمیت کے لئے لڑتے ہیں۔ لیکن اس استحصالی نظام کے خلاف اور اپنی نجات کے حصول کے لئے تحریکوں میں داخل ہو کر فتح مند اسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب وہ کسی حاکم یا لیڈر کے لئے نہیں بلکہ اپنا مقدر بدلنے کے لئے اس طبقاتی جنگ میں برسرپیکار ہوں۔