| تحریر: قمرالزماں خاں |
یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن تحریک انصاف، مسلم لیگ سے برسرپیکار تھی۔ اس دن جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کا ’’نظریاتی‘‘ اور سیاسی جھگڑا اتنی ہی شدت سے موجود تھا۔ اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے تنازعات چل رہے تھے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر تمام اپوزیشن پارٹیاں پانامالیکس کے مسئلے پر پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے سربراہ نوازشریف اور دیگران کا ’محاسبہ‘ کرنے کے لئے پورے زور وشور سے ٹرم آف ریفرنس کے گرد شوروغوغا جاری رکھے ہوئے تھیں۔ غرضیکہ پارلیمانی سیاسی جماعتیں اس طرح باہم دست وگریبان تھیں کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا گرینڈ دنگل نظر آتا تھا۔ اسی دن یکایک اراکین اسمبلی اور ان اسمبلیوں کو چلانے والے سپیکرز، چیئرمینوں وغیرہ کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافے کی تحریک پیش کی گئی۔ چڑھی ہوئی تیوریاں اور آستینیں واپس اپنی جگہ پر آگئیں۔ منہ سے بہنے والی کف کو دوبارہ نگل لیا گیا۔ گریبانوں سے ہاتھ واپس ہوگئے۔ گالم گلوچ اور لعن طعن نے خوش گفتاری کا روپ دھار لیا۔ تمام متحارب قوتیں دل وجان سے، پوری یکسوئی سے دو سو فی صد اضافے اور مراعات کی تجویز کو قانون بنانے میں جُت گئیں اور بنوا کر دوسرا سانس لیا۔
موجودہ منڈی کی معیشت اور ملکیت کے سرمایہ دارانہ رشتوں کے بنیادی اتفاق کے باوجود پاکستان کے پارلیمان میں موجود مختلف قسم کی سیاسی جماعتوں میں بہت سے کالے اورسفید دھن پر قبضے، اقتدارپرستی اورلوٹ کھسوٹ کی حصہ داری کے ’’اختلافات‘‘ موجودہیں، مگر جب مسئلہ انکے یکساں مالیاتی مفادات کاہو تو انکے مندرجہ بالا تمام اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور وہ پھر جم کر، پوری یکسوئی سے اپنے ’طبقے کے مفاد‘ کی جدوجہد کرتے ہیں اور سوفی صد کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں موجود ’عوام کے نمائندے‘ طبقہ خاص سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ ان کا ایک طبقہ ہے تو کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی۔ اپنی تنخواہوں اور مراعات کو کئی سوگنا بڑھوانے والے یہ اراکین عام طور پر کروڑ سے ارب پتی کی مالی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تمام تر قانون سازی اور انتخابی اخراجات کے گوشواروں کی ’فلم‘ کے برعکس حقیقی طور پر صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا خرچہ پانچ سے دس کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا خرچہ اس سے دوسے تین گنا اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ حالیہ لاہور اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں خرچہ اربوں روپے تک پہنچادیاگیا ہے۔ اسی طرح سینٹ کا رکن بننے کے لئے کتنی بڑی مالیاتی سرگرمی ہوتی ہے، یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ماضی میں سینٹ کا رکن بننے کے لئے براہ راست ووٹ خریدنے پڑتے تھے، اب پارٹیوں(کے مالکان) نے وہ بھاری رقم خود اپنی تجوریوں کو مزید بھرنے کے لئے براہ راست حاصل کرنا شروع کردی ہے۔
پہلے سپیکر فہمیدہ مرزا کی اسمبلی میں مراعات میں کروایا گیااور اب 2016ء میں پھر اسی پیرائے میں دو سو گنا اضافہ کروایا گیا۔ سماج کے مراعات یافتہ حصوں کے برعکس محنت کش طبقے کی اجرتوں میں معمولی اضافے کی تگ ودوکتنی مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو مزدوروں کے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کو طبقہ امرا بشمول ان ’’عوامی نمائندگان‘‘کے، تعصب اوربیزاری کے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکمران، سرمایہ دار اور تاجر حضرات کی ملی بھگت سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، جبکہ تنخواہیں عملی طور پر منجمد ہیں، بلکہ مہنگائی کے مقابلے میں سکڑاؤ کا شکار ہیں۔ جب تک تنخواہوں کو کئی گنا بڑھا کر مہنگائی اور افراط زر کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاتا اس وقت تک تنخواہوں میں معمولی قسم کا اضافہ بے معنی، بے وقعت اور بے ثمر ہی ثابت ہوتا ہے۔ مگر تنخواہوں میں اضافوں، سروس سٹرکچرز کے قیام، مختلف قسم کے الاؤنسز کے مطالبات کو حکمران طبقہ ایک طرح سے مزدوروں کی ’’جارحیت‘‘ تصورکرتا ہے۔ ان کے لئے مزدورکی حیثیت غلام جیسی ہے، جس کو ہروقت تسلیم ورضا کا پیکر اور صابرشاکر رہنا چاہئے۔
تحریک انصاف خود ہر وقت احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کی رسیا ہے۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف کسی قسم کا سونامی نہ برپا کرسکی اور نہ ہی (بقول عمران خان) 1970 ء کی پیپلز پارٹی جیسی مقبولیت حاصل کرسکی۔ جس نظام میں وہ الیکشن لڑرہی تھی اسکی شفافیت پراگرعمران خان نے یقین کیا تھا تو وہ اسکی کوتاہ بینی، سیاسی بصیرت میں کمی اور خوش فہمیوں کی دنیا میں آنکھیں بند کرکے رہنے کی خواہش تھی۔ الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان کے پاس سونامی برپا نہ کرنے کی شرمندگی کو مٹانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ انتخابی نتائج نہ مان کر ’واویلے‘ کی سیاست شروع کردے۔ وہ مسلسل واویلے، جلسے جلوسوں، ریلیوں، احتجاج، دھرنوں اور گالی گلوچ کی سیاست جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ دوسری طرف جب نرسزنے خیبر پختون خواہ میں اپنے جائز مطالبات کے لئے احتجاج کیا، جو ان کا بنیادی حق تھا، تو انکے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ تحریک انصاف کے نام نہاد اصول پسندوں نے نرسز پر تشدد کیا، گرفتار کیا، زبردستی زودوکوب کرتے ہوئے ہاسٹلز سے بے دخل کیاا ور انکے خلاف محکمانہ کاروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ نرسز کو تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے انکے ’عورت‘ ہونیکا احترام نہیں کیا گیا۔ نہ ہی انکے تقدس یا پیشے کے احترام کا لحاظ کیا گیا۔
اسلام آبادکا ریڈ زون تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے ایک سو چوبیس دن تک ’محاصرے‘ میں لئے رکھا، اس پر پاکستان مسلم لیگ نوازحکومت نے کوئی خاص اعتراض نہیں کیااور انکے محاصرے، دنگے فساد، شوروغوغے اور اپنے پیچھے چھوڑ جانے والی غلاظت پر زیادہ ناگواری ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح، پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کو قتل کرنے والے مجرم ممتاز قادری کی پھانسی پر ہونے یا کرائے جانے والے ردعمل پر سینکڑوں ملاؤں نے اسلام آباد پر عملاً قبضہ کرلیا، میٹرو بسیں اور انکے اسٹیشن جلادئے، دیگر تنصیبات کو توڑ پھوڑدیا۔ یہ عمل بھی کئی دن جاری رہا، نواز لیگ حکومت کا ردعمل ’شفیق ماں‘ جیسا تھا۔ میڈیا اور عوام کی چیخ و پکار پر چند لوگوں کوعارضی طورپر ’حفاظتی تحویل‘میں لیا گیا جبکہ گھیراؤ جلاؤ اور سرکاری املاک کو جلانے پر انکے خلاف نہ دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی اسلام آبادپر قبضے جیسی کیفیت پیدا کرنے کے جرم سے مطابقت رکھنے والا سلوک کیا گیا۔ مگر جب آئل اور گیس (OGDCL) کے مزدوروں نے نجکاری کے خلاف اسلام آباد میں پرامن احتجاج کیا تو نہ صرف انکو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی حکومت کے دوران ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف مینار پاکستان پر شہباز شریف خود تو ’نوٹنکی ‘کرتا رہا، ہاتھ والے پنکھے جھلتا رہا اور جلوس نکالتا رہا۔ مگر جب وفاق میں بھی نواز لیگ کی حکومت بننے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کے باوجود اور زیادہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا توفیصل آبادمیں لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر احتجاج کرنے والے محنت کشوں کو نشان عبرت بنادیا گیا۔ شہباز شریف کے حکم پر احتجاج کرنے والے محنت کشوں کے خلاف چادر اور چاردیواری کے تقدس کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، انکے گھروں میں پولیس دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئی اور انکے کمروں کے دروازے توڑ کراہل خانہ کے سامنے ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا۔ قبل ازیں فیصل آباد میں ہی پاورلومز کے مزدوروں کے جلوس کے دوران مبینہ طور پر مالکان کی طرف سے ’’جلاؤ گھیراؤ‘‘کرائے جانے کی پاداش میں مزدوروں کو گرفتار کیا گیا، انکے خلاف گواہیاں پیدا کرکے عدالتوں سے ڈھائی ڈھائی سو سال کی سزائیں سنوائی گئیں۔ لاہور میں نرسز کے دھرنوں کے دوران وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی اخلاق سے گری ہوئی گفتگوہو یا سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کا رویہ، ان میں واضح طور پر محنت کش طبقے سے تعصب اور نفرت جھلکتی نظر آتی ہے۔
1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدوروں کو تنخواہوں کے مطالبات کی پاداش میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے براہ راست حکم پر گولیوں سے بھون کر شہید کردیاگیا تھا، مگر نہ اسکے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوااور نہ ہی کسی قانون نے اسکو سزادی، بلکہ اس واقعے کو تاریخ سے ہی مٹا دیا گیا۔ جبکہ اسی شخص نے ملک کا آئین توڑتے ہوئے منتخب حکومت ختم کرکے اسکے منتخب وزیر اعظم کو جعلی مقدمے کے ذریعے تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو یقیناًحکمران طبقات سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس کا ناقابل معافی ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ اس نے 1968-69ء کی تحریک کے نتیجے میں اپنے طبقے کے برخلاف، محنت کشوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اور برسراقتدار آ کر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر کچھ ضربیں لگائی تھیں۔ اس کی غلطی بہرحال یہ تھی کہ اس نے سانپ کا سر کچلے بغیر اسے چھوڑ دیا تھا۔
عام طور پر پست شعور کے حامل افراد آج بھی انگریزکے دور(کالونیل سسٹم) کے انصاف کے بڑے معترف ہیں، حالانکہ اس نام نہاد زریں دور میں مقامی آبادی کے کسی بھی شخص سے قتل سرزد ہونے کی صورت میں اسکو موت کی سزادی جاتی تھی جبکہ کسی گورے کے ہاتھوں مقامی باشندے کے قتل کی سزا صرف چارآنے جرمانہ ہوا کرتی تھی۔ ویسے آج بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ محنت کشوں اور حکمران طبقے کے لئے علیحدہ علیحدہ معیار اور ضابطے ہیں۔ اگر ایک رکن اسمبلی کو تمام تر وسائل اور مال ودولت ہونے کے باوجود (لوٹ مار اور کرپشن اس کے علاوہ) دولاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کی ضرورت ہے تو پھر یہی ضرورت مزدورکا ذکرکرتے ہوئے کیسے کم ہوجاتی ہے۔
روٹی، کپڑا، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم، سفری اخراجات، غم اور خوشی پر اخراجات میں فرق روا رکھا جانا ہی طبقاتی نظام اور اس کے دہرے معیاروں کا کھلا اظہار ہے اور یہی اس نظام کے وجود کا بنیادی تقاضا بھی ہے۔ نکمے، استحصالی اور غیر پیداواری حکمران طبقے کی تجوریوں کو ’’جائز‘‘ اور ناجائز طریقہ ہائے کار سے مسلسل بھرنا اور تمام تر دولت پیدا کرنے والے محنت کش طبقے کو خوداسکی پیدوار سے محروم رکھنے والے اس غیر منصفانہ، استحصالی اور ظالمانہ سرمایہ دارنہ نظام کا جب تک وجود رہے گا، تب تک یہ ناانصافی، غربت اور عدم مساوات نہ صرف قائم رہے گی بلکہ مسلسل بڑھے گی۔