تحریر: لال خان
پاناما کا ہنگامہ اتنی طوالت اختیار کرگیا ہے کہ اکتاہٹ اور بیزاری کا معمول بن گیا ہے۔ آخر کسی نان ایشو کو سیاست اور صحافت والے کتنا لمبا کھینچ سکتے ہیں۔ پھر عدالت کا جو فیصلہ آیا، اس نے اس تذبذب کو ختم کرنے کی بجائے مزید الجھاؤ کا شکار کردیا ہے۔ میڈیا اور بالادست سیاست کی حزب اختلاف اس کو ایک ایسا بھنور بنا رہی ہے جس میں نواز شریف تو غرق نہیں ہورہا لیکن محنت کشوں کے سلگتے ہوئے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کی آوازوں کو غرق کرنے کی کوشش اس ملک کی غالب سیاست ضرور کررہی ہے۔
جہاں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو بنا کر پیش کیا جارہا ہے وہاں اس مالیاتی سیاسی اکھاڑے کے تمام سیاست دان لا متناہی طور پر ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ کیے چلے جارہے ہیں۔ لیکن یہ وہ واحد سچ ہے جو یہ بول رہے ہیں۔ کیونکہ سب ایک ہی نظام کا حصہ ہیں، بالادست طبقات کے نمائندے ہیں اور اس مالیاتی سیاست میں اس مقام تک پہنچنے کے لیے بے پناہ دولت درکار ہوتی ہے۔ اربوں کھربوں تک پہنچ جانے والے یہ سیاست کے اخراجات کبھی کسی جائز کمائی سے تو حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے یہ سبھی کے سبھی اس فاضل دولت کے حصول کے لیے اُس کالے دھن تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس سے وہ سیاست کا کاروبار چلا سکیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ ریاستوں میں سیاست، دولت کے بغیر ممکن نہیں لیکن جوں جوں اس نظام زر کا بحران گہرا ہوتا ہے تو اس کے حکمران طبقات کے درمیان ٹوٹ پھوٹ اور مقابلہ بازی میں زیادہ شدت آجاتی ہے۔ لیکن برصغیر میں تو شاید اس کی انتہا ہوچکی ہے۔ کیونکہ ایک طرف بحران کی وجہ سے لوٹ کا مال سکڑنے لگتا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی ہوس زر میں مزید شدت بھی آتی جا رہی ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں جنم لینے والی محرومی اور امارت و غربت کی خلیج اب جتنی وسیع ہوچکی ہے اتنی شاید کبھی نہ تھی۔ اس سے صرف سیاست ہی نہیں بلکہ سماجی قدریں، اخلاقیات او ر رشتے تک اس دولت کے حصول کی اندھی دوڑ میں منڈی میں نیلام ہونے والی مادی اشیا بن چکی ہیں۔ معاشرے، ریاست اور سیاست کا ہر شعبہ اس سرمائے کا تابع اور رسیا بن گیا ہے۔ ہندوستان کی مشہور مصنفہ اروندیتی رائے نے اپنے حالیہ مضمون میں برصغیر کی سیاست اور جمہوریت کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’جدید جمہوریت کا بحران بہت سنگین اور گہرا ہوگیا ہے۔ آزاد انتخابات، آزاد صحافت اور ایک آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہوگئے ہیں کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت نے اِن کو اُن اجناس میں تبدیل کردیا ہے جو زیادہ بولی لگانے والوں کو ہی فروخت ہوتی ہیں۔‘‘
لیکن کرپشن چونکہ برصغیر کے معاشروں میں نیچے تک سرائیت کرچکی ہے اس لیے اس کے بغیر زندگی گزارنا شاید سماج کی کسی پرت کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ کوئی اخلاقی اور ثقافتی بیماری نہیں ہے بلکہ اس نظام کی معیشت کے اس قدر بحران زدہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ اس کے بغیر یہ اقتصادی، سماجی، ریاستی اور سیاسی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ پھر اس کے بارے میں شور کرنا کس حد تک بے معنی اور پرفریب بن جاتا ہے۔ اگر ہم باقی شعبوں کو چھوڑ کر صرف سیاست کا ہی جائزہ لیں تو آج کے عہد میں پارٹی بنانا، میٹنگ کرنا، جلسے جلوس اور کنونشنوں کا انعقاد، پارٹی ٹکٹوں کا حصول، پھر الیکشن کی مہم چلانا اور کامیاب ہونا، سبھی جگہ کھیل پیسے کا ہوتا ہے۔ پیسے کے مزید حصول کے لئے پیسے کا یہ کھیل کھیلنا زیادہ مہنگا ہوتا چلا گیا ہے اور اب اس میں مقابلہ بازی تمام دوسری صفوں اور سرکاری و کالے کاروباروں سے زیادہ رقوم کی سرمایہ کاری مانگتی ہے۔ جائز طریقوں سے اتنا پیسہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے اور چونکہ اب کاروباربدعنوانی کے بغیر چل نہیں سکتے اس لیے یہ وقت آگیا ہے کہ کھرب پتی ساہو کار اب کھل کر پارٹیوں کے فنانسر بن کر سامنے آگئے ہیں۔ ان کو کسی پارٹی کے نام سے غرض نہیں ہے کیونکہ اس دولت کی سیات میں تمام پارٹیاں دولت کے حصول کے نظریات کی ہی سیاست کرتی ہیں، دوسری کوئی ہو نہیں سکتی۔ لیکن یہ ایسے انویسٹر ہیں جو سیاست کی ریس کے ان گھوڑوں میں سے صرف ایک پر نہیں بلکہ کئی گھوڑوں پر داؤ کھیلتے ہیں، ظاہر ی طور پرچاہے جو پارٹی بھی جیتے آخری کامیابی انہی فنانسرز کی ہی ہوتی ہے۔ جو پارٹی بھی اقتدار میں آتی ہے، یہ مالدار انویسٹر اپنے کاروبار کے فروغ اور شرح منافع کے حصول کے لیے ان سب سے پالیسیاں مرتب کرواتے ہیں۔ بعض ایسے انویسٹر بھی ہیں جو خو د اس سیاست کے میدان میں اتر کر یہ کھلواڑ کرتے ہیں تاکہ براہِ راست اقتدار میں آکر اپنی ہوس زر کو پورا کرسکیں۔ ان فنانسروں کے نام اور تحائف بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان کا کسی مخصوص ملک یا قوم سے تعلق ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
اس کھلواڑ میں عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ یہ سیاستدان ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ ویسے آئین میں ٹھونسی گئی ان شقوق کے خالق جنرل ضیاالحق کی اپنی صداقتوں اور ایمانداری کا جائزہ لیں تو اس نے 90 دنوں میں انتخابات کروانے سے لے کرپارسائی کے بھیس میں فرقہ واریت اور خونی منافرتوں کو پھیلانے کے کون کون سے ایسے جھوٹ اور فریب ہیں جو نہیں کئے۔ اپنی حاکمیت کو طوالت دینے کے لیے اُس نے اِس ملک میں ظلم وبربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ لیکن اس کے بعد آج بھی اتنی ’’جمہوریتوں‘‘ کے آنے کے باوجود ضیا الحق کی سیاسی، سماجی، مذہبی و اخلاقی باقیات جاری ہیں اور سبھی اس کالے دھن کے مرہون منت ہیں جس کے اجتماع کا عمل ضیا الحق نے شروع کیا تھا۔ ایسی کونسی پارٹی ہے جس میں اُس کی باقیات کی اعلیٰ شخصیات بالائی پوزیشنوں پر براجمان نہیں ہیں۔ جہاں جسٹس کھوسہ نے یہ کہا ہے کہ’’ ہر بڑے خزانے کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے‘‘ وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ا س جرم اور خزانے کے باہمی رشتے کو تقویت اور بڑھاوا دینے کے لیے دولت کی سیاست اور دوسرے ادارے ہی اوزاروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔
لیکن اسی معاشرے میں 1970ء کی دہائی تک ایسی سیاست بھی ہوئی ہے جہاں پوسٹر لگانے سے لے کر الیکشن جیتنے اور تحریکیں چلانے تک کے عمل میں دولت کا کوئی حاوی کردار نہیں ہوتا تھا۔ سیاست میں قربانی کاجذبہ صرف ان نظریات سے حاصل ہوتا ہے جو انفرادی مفادات اور خود غرضی کو مسترد کرتے ہوئے اشتراکی مفادات اور پورے سماج کو اس استحصال، ظلم اور لوٹ مار کی مالیاتی سیاست اور آمریت سے نجات کی فکر پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ نظریات آج بھی موجود ہیں۔ انسان فنا ہوسکتے ہیں، سچے نظریات کبھی نہیں مرتے۔ آج کی سیاست، ریاست اور ثقافت معاشرے کو فسطائیت اور معاشی بحرانوں کی بربادیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ آج ظاہری طور پر محنت کش عوام تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اب یہ بدعنوان سیاست دانوں کے کرپشن پر مبنی تماشوں سے نہ صرف اکتاچکے ہیں بلکہ اس سیاست سے متنفر بھی ہیں۔ ایک لاوا پک رہا ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں کہ محنت کش طبقات تاریخ کے میدان میں اتریں گے۔ حکمرانوں کے سارے دھڑے اپنی باریاں لگا چکے ہیں۔ اب محنت کش عوام کی باری آنے والی ہے جو نہ صرف اس دولت کے راج کو ختم کرے گی بلکہ معاشرے کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے گی۔