| تحریر: لال خان |
حلف برداری کی تقریب کے بعد امریکہ کے 45ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر ایک طویل عرصے کے بعد اسکی انتخابی مہم کی طرح ہی امریکی سیاست میں غیر معمولی نوعیت کی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے چارسابقہ صدورپشیمان تو ضرور ہوئے ہونگے۔ ٹرمپ نے انتہائی قلیل روایتی جملوں کے بعد سب سے انوکھا فقرہ کستے ہوئے 20 جنوری 2017ء کے دن کو امریکی عوام کے لئے پہلی مرتبہ طاقت کا اصل سرچشمہ قرار دیا اور اس دن، اس جگہ اور اس لمحے سے ان کے اپنے اقتدار کے آغاز کا اعلان کیا۔ دوسرے الفاظ میں اس نے یہ تسلیم کیا کہ اب تک امریکہ کے جمہوری نظام سے وہاں کے محنت کشوں اور عوام کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یعنی اب تک وہ امریکہ میں محروم اور محکوم ہی رہے ہیں۔ ان کو اس جمہوریت نے سیاسی اقتدار میں کبھی شریک نہیں کیا۔ ٹرمپ نے واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کو بالواسطہ طور پر ایک ایلیٹ آمریت ہی قرار دیا جو دولت اور طاقت کے جشن مناتی تھی اور غریب محرومی اور ذلت میں بلکتے رہے۔
واشنگٹن کے ایوانوں پر اتنا دقیق حملہ شاید ہی کبھی کسی امریکی نومنتخب صدر نے کیا ہوگا۔ ڈونلڈٹرمپ نے امریکی معاشرے اورملک کا جو نقشہ کھینچا وہ ایسے بھیانک حقائق کوبیان کرتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے عام لوگوں کے لیے شایدحیران کن ہوگا۔ اس نے امریکی صنعتی علاقوں کے قبرستان میں تبدیل ہونے کا نظارہ پیش کیا، عام لوگوں کی زندگیوں کی دشواریوں اور تلخیوں کو بیان کیا اور امریکہ کے انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ او ر خستہ حالی کو بیان کیا۔ اس نے کئی دہائیوں سے اس مسلسل تنزلی کا ذکرکرکے تمام پارٹیوں کی ماضی کی حکومتوں کو ایک طرح سے واشنگٹن اشرافیہ کے حواری قرار دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دائیں بازو کی اس پاپولسٹ نعرہ بازی کے بہت سے اجزا نریندرا مودی کے بھاشنوں سے ملتے جلتے ہیں۔ نریندرا مودی گو ہندو بنیاد پرستی کا استعمال اپنے مخصوص طریقہ واردات سے کرتا ہے لیکن ٹرمپ نے بھی پھر آخری سہارا آسمانی صحیفوں پر ہی چھوڑ دیا۔ امریکہ کے نام نہاد سیکولر ازم کی اس وقت دھجیاں بکھر گئیں جب پہلے تین مختلف اورمتحارب عیسائی فرقوں کے پادریوں نے اپنے اپنے فرقوں سے مطابقت رکھنے والے انجیل کے حصوں کی تلاوت کی۔ لیکن ٹرمپ کے حلف لینے کے بعد پھر یہودی رابیوں اور دوسرے فرقوں کے پادریوں کے منفرد واعظ یہ ظاہر کررہے تھے کہ مذہب امریکی سیاست اور ریاست میں کس قدر کلیدی کردار کا حامل ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ نے صرف عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کا تذکرہ ہی نہیں کیا، اس نے امریکی بالادست طبقات کے کارپوریٹ ٹیکسوں میں کٹوتی کا عندیہ دیا اور یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ امریکی حکمران طبقات نے اگرچہ ہیلری کی مہم پر بھاری رقوم صرف کی تھیں، لیکن وہ بھی نومبر کے انتخابات کے نتائج کے بعد ’ٹرمپ ازم‘ کی جانب تیزی سے راغب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ میں نیویارک اور دوسری سٹاک ایکسچینجوں میں تیز ابھار اس حمایت اور سرمایہ داروں کی امیدوں کی غمازی کرتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی اصل پالیسیوں کا اندازہ اس کے بنیادی نظرئیے، یعنی امریکی قوم پرستی اور حب الوطنی کے شاونزم سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکی قوم دوسری اقوام کی طرح درحقیقت کوئی قوم ہے نہ ہوسکتی ہے۔ امریکہ میں بھی دوسرے ممالک کی طرح دو قومیں بستی ہیں۔ ان میں ایک حاکم اور بالادست طبقے کی قوم ہے، دوسری محنت کش طبقے اورمظلوم عوام کی قوم ہے۔ لیکن جب امریکی قومی مفادات کو ذکر ہوتا ہے تو وہ درحقیقت امریکہ کے سرمایہ دار طبقات کے مفادات ہی ہوتے ہیں۔ امریکی محنت کشوں اور عوام کی یہ حالتِ زار، امریکی انفراسٹرکچر کی یہ خستہ حالی اور سماجی محرومی دراصل انہی امریکی حکمران طبقات کی جانب سے امریکی مزدوروں کے استحصال کا نتیجہ ہے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی حکومتوں، خصوصاً فرینکلن روز ویلٹ، آئرن ہاور اور کینیڈی کے دور میں امریکہ میں وسیع انفراسٹرکچر تعمیر ہوا تھا اور بڑے پیمانے پر سماجی ترقی بھی ہوئی تھی۔ اس سے امریکی بالادست طبقات کو کسی حد تک ہنرمند محنت حاصل ہوئی اور بہتر انفراسٹرکچر کے ذریعے ٹرانسپورٹ اور بجلی وغیرہ کی بہتری سے شرح منافع میں اضافہ ہو ا۔ لیکن شرح منافع کا کوئی انت نہیں ہوتا، اس کی ہوس کبھی بجھتی نہیں ہے۔ جس کو برقرار رکھنے کے لیے جنگوں اور خونریزی سے عالمی سامراجی غلبہ قائم کیا گیا۔ اس غلبے کے ذریعے انہوں نے دنیا بھر اور خصوصاً نوآبادیاتی غریب ممالک کو بڑے پیمانے پر لوٹ کر مالیاتی خزانوں کو بھرا۔ لیکن جہاں بیرونی ممالک کا استحصال کرکے ان کو کنگال کیا وہاں امریکی محنت کشوں کا بھی بے پناہ استحصال کیا۔
2008ء کے کریش کی بنیادی وجہ بھی سٹے بازی سے منافع خوری میں مصروف ان سرمایہ داروں کے بینکوں کا کنگال ہو کر دیوالیہ ہوتے جانا تھا۔ جنہوں نے بینکوں سے کھربوں ڈالر حاصل کیے وہ اپنی کمپنیاں دیوالیہ ڈکلیئرکرکے ادائیگیوں سے منکر ہوگئے۔ اوباما نے بھی سرکاری خزانے کو نہ صرف کنگال کردیابلکہ امریکہ کو دنیا کے سب سے مقروض ممالک میں سے ایک بنا دیا۔ اس سے عوام کی حالت اور خراب ہوگئی۔ امریکی اجارہ داریوں نے سستی محنت کے حصول کے لیے چین اور دوسرے ممالک کا رخ کیا اور امریکہ میں فیکٹریاں بند اور نوکریاں غائب ہوگئیں، ٹرمپ نے مزدوروں کی اس نازک رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور ذاتی طور پر ہر قسم کی بدکاری کے مرتکب ہونے کے باوجود نہ صرف گورے مزدوروں کے ووٹ حاصل کیے بلکہ سیاہ فام اور خواتین ووٹروں نے بھی موجودہ حالات، سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور پورے نظام سے تنگ آکر ٹرمپ کو ووٹ دیا، جو اپنی مہم میں’’وال سٹریٹ‘‘، ’’واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ‘‘ اور اپنی پارٹی سمیت تمام حاوی سیاست کو سٹیس کو قرار دے کر اس سب سے بغاوت کرنے کا دعویدار بنا ہوا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ داخلی اور خارجی میدانوں میں ’’پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی صرف لفاظی کی حد تک یا انتہائی محدود طور پر ہی نافذ کرسکے گا۔ سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں نے جس شرح منافع کے حصول کے لیے اپنی فیکٹریاں اکھاڑ کر کم اجرت والے ملکوں میں لگائی تھیں، وہ انہیں واپس لا کر دوبارہ امریکی مزدوروں کی محنت سے کس طرح اور کس حد تک اپنے منافعوں کا اضافہ جاری رکھ سکیں گی؟ اسی طرح امریکی بینکوں اورمالیاتی کمپنیوں نے جہاں بھاری قرضے دیئے ہوئے ہیں اور ان پر سود حاصل کررہے ہیں، وہ امریکہ میں کیا اتنی وسیع بنیادوں پر یہ سودخوری کا کاروبار جاری رکھ سکیں گے؟ جہاں ریاست پہلے اتنی مقروض ہے وہ بھلا کس طرح کھربوں ڈالر انفراسٹرکچر، علاج کی سستی فراہمی، تعلیمی اخراجات میں کٹوتی اور ٹرمپ کے دوسرے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے فراہم کرسکے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے یہ نعرے اور دکھائے گئے سبز باغ جلد ہی ’امریکی ڈریم‘ (American Dream) کی جگہ اس امریکی ’’نائٹ میئر‘‘ (ڈراؤنے خواب) کو مزید بھیانک بنادیں گے۔
برنی سینڈز نے سوشلزم کا نعرہ لگایا لیکن اس نے ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی ٹکٹ لینے کی کوشش کی۔ اس کو نہ یہ نامزدگی ملنی تھی نہ مل سکتی تھی۔ برنی سینڈز تو فارغ ہوگیا لیکن اس نے سوشلزم کے نام پر جو تحریک ابھاری تھی وہ طوفان اب دوبارہ کسی بوتل میں بند نہیں کیا جاسکتاہے۔ ہیلری کی شکست کی وجہ جہاں اس کی رعونت ہے، وہاں اس پر موجودہ ’سسٹم‘ کا حصہ ہونے اور اسے جاری رکھنے کادرست الزام بھی تھا۔ ٹرمپ نے سارے نظام کو چیلنج کرنے کا ناٹک خوب پیش کیا۔ اس نظام میں رہتے ہوئے نظام کا بال بھی بیکا نہیں کیاجاسکتا۔ سرمایہ داری نے قومی پروٹیکشنزم کی جکڑ سے نکل کر گلوبلائزیشن میں کسی حدتک ترقی حاصل کی تھی۔ اب واپس تنگ قومی ریاستی حدود میں تو ان کی مالیاتی و اقتصادی بربادی ہوجائے گی۔ اس لیے ٹرمپ کی صدارت شاید امریکہ کی تاریخ کا سب سے پر انتشار اقتدار ہوگا، جس کا آغاز ہمیں حلف برداری کی تقریب کے دوران مختلف جگہوں پر مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں نظر آیا۔ ٹرمپ کی ہلچل اور الٹ پلٹ سے کوئی سماجی بہتری تو آئے گی نہیں، لیکن اس سے ایک نیا عوامی اشتعال پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ انتشار اور انارکی کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ لیکن سوشلزم کی امنگ نے امریکی نوجوانوں اور مزدوروں میں ایک نیا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ اب وہ سوشلزم کی انقلابی تبدیلی کے حصول کے لیے ایک بڑی تحریک میں بھی گامزن ہوسکتے ہیں۔ یہ پورے کرہ ارض کے عوام کے لیے ایک خوش آئند پیش قدمی ہوگی۔