| تحریر: لال خان |
حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی دو اہم کیفیتوں کی غمازی کرتی ہے۔ پہلی یہ کہ موجودہ امریکی جمہوری نظام میں اب اتنی گنجائش بھی نہیں رہی ہے کہ وہ کوئی ایسا متبادل پیش کرسکے جو وہاں کے عوام کو کسی قسم کی سنجیدہ اصلاحات اور زندگیوں میں بہتری کا کوئی حقیقی پروگرام بھی دے سکے۔ دوسری یہ کہ امریکہ میں عوام کی حالت اب اس قدر ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے کہ وہ ان معاشی اور سماجی عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کسی انتہا سے بھی توقعات لگانے پر مجبور سے ہوگئے ہیں۔ امریکی ریاست کا اقتصادی بحران اتنا شدید ہوچکا ہے کہ اس میں عوام کی بہتری کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ٹرمپ وہی اقدامات کررہا ہے جن کا انتہا پسندانہ اظہار اس نے اپنی انتخابی مہم میں کیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر قومی شاونزم اور حب الوطنی کے جنون کو ابھار کر اس زوال پذیر نظام کے تسلط اور حاکمیت کو جاری رکھنے کی پالیسی ہے۔ ٹرمپ نے دہشت گردی کو جس طرح ’’اسلامو فوبیا‘‘ سے جوڑا اور اس مذہبی تضاد کو ابھارا ہے اس میں پہلے سے بحران زدہ صورتحال میں کسی استحکام کی بجائے مزید خلفشار کا انجام نظر آرہا ہے۔ سات مسلمان اکثریت والے ممالک جن میں سوڈان، یمن،ایران، عراق، شام، صومالیہ اور لیبیا شامل ہیں، ان کے تمام افراد کی امریکہ میں آمد پر 120 دن کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگلی لسٹ میں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب زیر غور ہیں۔
دہشت گردی میں ڈوبی یہ ریاستیں بنیادی طور پر اسی بحران کی بگڑی ہوئی شکلیں بن گئی ہیں جس کا سامنا امریکی معاشرے کو کسی دوسرے انداز میں ہے۔ ان پالیسیوں سے جس مذہبی اور نسل پرستانہ تقسیم اور تعصبات کو پھیلانا مقصود ہے اس سے ٹرمپ کی مقبولیت امریکی سفید فام آبادی کی کچھ پرتوں میں عارضی اور مصنوعی ہی رہے گی۔ لیکن اس کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ جہاں دہشت گردی سے امریکی عوام کو مزید خوفزدہ کرکے نفسیاتی اور سماجی طور پر مطیع بنانا ہے، وہیں اس تعصب کو بھی ہوا دی جارہی ہے کہ یہ غیر ملکی اور غیر سفید فام نسلوں اور رنگوں کے مزدور ان کی نوکریاں خطرے میں ڈال رہے ہیں یا پھر وہ کم اجرتوں پر ان سے نوکریاں چھین رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لئے اس نسلی اور قومی تضاد کو بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ یہی رجحان ہمیں یورپ میں ابھرتی ہوئی قوم پرستی کی صورت میں بھی نظر آرہا ہے۔ لیکن جس حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اس میں مزید روزگار پیدا کرنے کی اہلیت ختم ہورہی ہے۔ امریکی محنت کشوں سے نوکریاں بیرونِ ملکی مزدور نہیں چھین رہے بلکہ یہ سرمایہ داری ہے جو شرح منافع کی خاطر انسانی محنت پر منحصر (Labour Intensive) سرمایہ کاری کی بجائے مشینوں اور ربورٹس کے ذریعے (Capital Intensive) پیداوار کی طرف مائل ہے۔ اس نظام میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو سہل کرنے کی بجائے بیروزگاری کا باعث بن رہی ہے۔
دوسری جانب امریکی ریاست دنیا کی انتہائی مقروض ریاست بن چکی ہے اور پنشن سے لے کر علاج تک کی سہولیات پر ہونے والے پہلے سے معمولی ریاستی اخراجات کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں آج ’’تارکین وطن‘‘ مزدوروں سے ہر حق چھینا جارہا ہے تو یہ سلسلہ سفید فام مزدوروں پر آکر رکنے والا نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ کی رجعتی بڑھک بازی اور اقدامات سے اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ رکے گی نہیں بلکہ مزید شدت ہی اختیار کرے گی۔ یہی پالیسی ہمیں اسکی خارجہ پالیسیوں میں ملتی ہے جہاں وہ روس سے کسی سمجھوتے کے لیے امریکہ کے فوجی اخراجات میں کٹوتیاں کرنا چاہتا ہے وہاں چین کی برآمدات پر ٹیکس لگا کر تجارتی جنگ کو شدید کرے گا۔ گلوبلائزیشن میں تحفظاتی قومی معیشت (State Protectionism) کی پالیسی ہمارے ایک ساتھی الیاس خان کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی’’جہالت کا کوہ ہمالیہ‘‘ ہے۔ عالمگیریت یا گلوبلائزیشن پر مبنی عالمی معیشت سرمایہ داری کے استحصال اور منڈیوں کو پھیلا کر شرح منافع میں اضافے پر مبنی تھی۔ لیکن اب ٹرمپ 19 ویں صدی کی ریاستی تحفظ والی سرمایہ داری کی طرف لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں ریاست ’’اپنے سرمایہ دار‘‘ کو تحفظ فراہم کرتی تھی۔ اس سے یہ نظام مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔ چین کی معیشت خود تنزلی کا شکار ہے، امریکہ کی منڈی اس کو درکار ہے۔ یورپ اور امریکہ کی منڈی کے بغیر چینی سرمایہ داری تیزی سے گراوٹ شکا ر ہوگی لیکن امریکی کے چینی مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے خود ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر سخت دھچکا لگے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی یہ حیثیت ہی کھو بیٹھے۔
عالمی جنگیں تجارتی جنگوں سے ہی شروع ہوئی تھیں۔ سامراجی طاقتوں کے فوجی اور جوہری توازن کی وجہ سے کوئی تیسری عالمی جنگ تو برپا نہیں ہو سکتی لیکن اگر ہم غور کریں تو دینا بھر میں معاشی، اقتصادی اور فوجی تصادم جاری ہیں۔ کہیں ریاستی دہشت گردی جاری ہے،کہیں قومی ریاستوں کی براہ راست جنگوں کی بجائے پراکسی جنگیں جاری ہیں۔ پوری دنیا میں شدید عدم استحکام، بیزاری اور بربادیاں جاری ہیں۔ اس میں ٹرمپ جیسے قوم پرست اور نسل پرست رہنماؤں کی پالیسیاں جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔
لیکن امریکی حکمران طبقات کے پاس ٹرمپ کا متبادل کون تھا؟ ہیلری کلنٹن، جس نے وزیر خارجہ کے طور پر لیبیا، عراق اور شام کو برباد کیا۔ اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کے ذریعے پراکسی جنگوں کا سلسلہ وسیع کیا۔ اور پھر آج جس اسلامی دہشت گردی کا وایلا کیا جارہا ہے اس کو جنم دینے والا بھی کیا امریکی سامراج نہیں تھا؟ 1956 ء میں ’’جنگ سوئز‘‘ میں سامراج کی شکست کے بعد صدر آئزن ہاور کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس نے ہی مصر میں جدید اسلامی بنیاد پرستی کی بنیادیں رکھی تھیں۔ کمیونسٹوں کے خلاف پراکسی کے طور پر اس وحشت کو افغانستان، پاکستان، شام، انڈونیشیا اور دوسرے کئی مسلمان آبادی والے ممالک میں پروان چڑھایا گیا۔ اس غارت گری میں بائیں بازو کے طلبہ اور محنت کش کارکنان کا قتل عام کیا جاتا رہا اور امریکی سامراج ان بنیاد پرستوں کو ’’مجاہدین‘‘ قرار دے کر فوجی اور مالی امداد سے نوازتا رہا۔ انڈونیشیا میں 10 لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام کیا گیا۔ جب یہ بنیاد پرست قوتیں امریکی ’امداد‘ میں کٹوتیوں یا نئے آقا میسر آ جانے پر برہم ہو کر قابو سے باہر ہوگئیں تو اسی ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف ایک محاذ کھول کر ایک طرف دنیا بھر میں جارحیتوں کا بازار گرم کیا گیا تو دوسری طرف دہشت گردی کاخوف ابھار کر مغربی ممالک کے محنت کشوں سے جمہوری حقوق، سہولیات اور رعایات چھیننے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
آج اسی ’’فوبیا‘‘ (ڈر) کی انتہا کرکے سرمایہ داری اپنا گلا سڑا وجود دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ لیکن دنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی حکمران طبقے کے پاس کسی بہتری اور ترقی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں نوجوانوں اور کسی حد تک محنت کشوں نے پچھلے سالوں میں کئی تحریکیں چلائی ہیں۔ آکوپائی وال سٹریٹ سے لے کر برنی سینڈرز کی ’جمہوری سوشلزم‘ پر مبنی انتخابی مہم کے گرد لاکھوں لوگ متحرک ہوئے تھے۔ آج پھر امریکہ اور دنیا بھر میں ٹرمپ کی ان رجعتی پالیسیوں کے خلاف احتجاجوں کا طوفان امڈ آیا ہے جو آنے والے دنوں میں کسی دیوہیکل تحریک کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کا دباؤ پہلے ہی سامراجی ریاست کے ایوانوں میں شدید دباؤ اور تناؤ پیدا کررہا ہے۔ یہ ممکن ہے ٹرمپ کو برطرف کردیا جائے۔ لیکن چہروں کے بدلنے سے نظام تو نہیں بدلتے! لیکن موجودہ ٹرمپ مخالف تحریک کو اس نظام کے خاتمے سے جوڑنا ہو گا جو ٹرمپ جیسے رجحانات کی جڑ ہے۔ ٹرمپ اسی نظام کا ایک نمائندہ ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا ہو کر کرنا ہوگا!
متعلقہ: