[تحریر: لال خان، عمران کامیانہ]
عراق میں اسلامک سٹیٹ کا ابھار ہو یا یوکرائن میں جاری خانہ جنگی، سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت دنیا بھر میں خونریزی کی شدت بڑھاتی چلی جارہی ہے۔ بحران کے اس عہد میں یہ نظام کسی بھی تنازعے کو سلجھانے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ نہ صرف نئے مسلح تنازعات جنم لے رہے ہیں بلکہ پہلے سے جاری تصادم زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔
12 ستمبر کو یورپی یونین نے روس پر معاشی پابندیاں ’’سخت‘‘ کرنے کی ایک اور سطحی اور نیم دلانہ کوشش کی ہے۔ مشہور اسلحہ ساز کمپنی کلاشنکوف اور آئل کارپوریشن روزنیفٹ سمیت توانائی سے وابستہ کئی دوسری کمپنیاں اور پانچ ریاستی بینک ان پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ روس نے کہا ہے کہ ان حالات میں جب ہم نے یوکرائن میں جنگ بندی کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان پابندیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ روسی حکومت نے پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنیوں کی مکمل سرپرستی کا اعلان کیا ہے۔ مزید برآں یورپی یونین کو واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ جوابی پابندیوں کے لئے تیار رہے۔
اس سے کچھ دن قبل بیلاروس کے دارالحکومت مِنسک میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرائن کے صدر پوروشینکو کے درمیان مذاکرات کے بعد پیوٹن نے دھمکی دی تھی کہ اگر جمعے تک جنگ بندی نہیں ہوتی تواس کے بھیانک نتائج مرتب ہوں گے۔ جمعہ 5 ستمبر کو جنگ بندی کے اس معاہدے پر مشرقی یوکرائن کی علیحدہ ہوتی ہوئی ریپلکنز کے لیڈروں، جن میں ڈونیٹسک (Donetsk) ریپبلک کے وزیر اعظم زخارچینکو بھی شامل تھے، نے دستخط کئے۔لیکن اس جنگ بندی کاانجام بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ کئی سالوں میں ہونے والی مختلف جنگ بندیوں جیسا ہورہا ہے۔ اگر ہم حالیہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے کربناک مناظر دیکھیں تو ان بربادیوں سے دل دہل جاتاہے۔ لیکن یوکرائن میں ہونے والی اس جنگ بندی کی اصلیت یہ ہے کہ یوکرائن کے نیم فسطائی وزیر اعظم جو مغربی سامراج کی کٹھ پتلی ہے نے بیان میں کہا کہ’’ اس(جنگ بندی) کو لازمی طور پرامریکہ اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے‘‘۔ کیونکہ ہم روس کو اپنے طور پر ’’سنبھال‘‘ نہیں سکتے۔ ہمیں’’گارنٹیاں ‘‘چاہئیں۔ جنگ بندی کے اعلان سے چند لمحے پیشتر تک مشرقی یوکرائن کے 5 لاکھ سے زیادہ آبادی والی ساحلی بندر گاہ ماریوپول کے شمالی حصے میں گھمسان کی لڑائی جاری تھی اور مغرب نواز یوکرائن کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے اس اہم شہر پر قبضے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔
اس سال مارچ میں مشرقی یوکرائن میں خانہ جنگی شدت اختیار کرگئی تھی جس میں اب تک 2 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو کر در بد ر ہوگئے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مغربی سامراج نے پہلے یوکرائن کے منتخب صدر یانوکوویچ کو معزول کروایا اور پھر اپنی پٹھو حکومت تعینات کردی جس میں فسطائی عناصر اور ملیشیاملوث تھی۔ اس سے روس کے خلاف جارحانہ کاروائیاں شروع ہوگئیں جس کے جواب میں روس نے یوکرائن کے علاقے کرایمیا، جہاں سیواسٹو پول میں اس کا کلیدی بحرے بیڑے کا مرکز تھا، پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد یوکرائن میں شدید معاشی بحران کے باعث مشرقی یوکرائن میں یوکرائنی دارلحکومت کیف کی حکومت کیخلاف ایک عوامی بغاوت پھوٹ پڑی۔ اس بغاوت کے دوران کچھ علاقوں میں آزاد ریپبلکوں کے اعلان بھی کر دیے گئے۔ یوکرائن کی حکومت نے مغربی سامراج خصوصاً امریکہ کی پشت پناہی سے اس بغاوت کو بد ترین ظلم اور سفاکی سے کچلنا شروع کردیا۔ ’’نیویارک ریویو‘‘ میں ٹم جوڈا کی رپورٹ ’’تباہ کن شکست‘‘ میں درج ہے کہ ’’باغیوں کے کنٹرول میں لوہانسک کو گھیرے میں لے کر یوکرائنی فوجوں نے بھاری شیلنگ کی۔ ڈونیٹسک (Donetsk) بھی وحشیانہ بمباری کا شکار ہوا۔ شہر برباد ہوئے ہیں اور سینکڑوں عام شہری مارے گئے ہیں۔ اس سے عوام میں کیف حکومت کے خلاف نفرت اور حقارت انتہا تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
اس جبر سے یہ خانہ جنگی مزید بھڑک اٹھی۔ اگست کے دوران جب خانہ جنگی نے پلٹا کھایا اوریوکرائن کی سرکاری فوجوں کو ان علاقوں میں پسپائی اختیار کرناپڑی تو باغیوں کی اس پیش قدمی سے بوکھلا کر کیف میں بیٹھے حکمرانوں نے ’’ہزاروں روسی فوجیوں‘‘ کی پیش قدمی کا شور مچانا شروع کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سامراجی حکمرانوں اور ان کے میڈیا کے اداروں نے کیف کی فوجوں کی درندگی اور عام عوام پربمباری کے خلاف نہیں بلکہ ’’روسی قبضے‘‘ کے بارے میں چیخناچلانا شروع کردیا۔ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کے لیے ’’ناٹو‘‘ نے چند مبہم سی تصاویر پیش کیں۔ یہ وہی افراد ہیں جنہوں نے صدام حسین کے’’وسیع بربادی کے ہتھیاروں‘‘ کے جھوٹے شو اہد پیش کرکے دنیا بھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا یا تھا۔ آج ان کے شواہد پرصرف ان کے حواری ہی یقین کرسکتے ہیں۔کیف جنگ ہار رہا ہے۔ اسی لیے وہ اس پراپیگنڈے کو ابھار رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب روس بھی مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو یوکرائنی فوج کے ہاتھوں کچلنے نہیں دے گا کیونکہ یہ اسکی سودے بازی کا ایک سرخیل پتہ ہیں۔ دوسرا ایسا ہونے سے روس میں پیوٹن کی حمایت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن روس نے ان باغیوں کو اب تک اسلحہ‘ انٹیلی جنس ‘ سرویلنس اورفوجی مشیروں کی حد تک امداد دی ہے ۔چندروسی فوجی مشرقی یوکرائن میں موجودضرور ہیں لیکن روسی فوجیں جارحیت اور قبضہ خود نہیں کررہی۔ دوہفتے قبل پیوٹن نے جرمنی کی چانسلر کو برجستہ کہہ دیا تھا کہ’’تم لوگ اتنا شور کررہے ہو۔ میں چاہوں تو 48 گھنٹوں میں پورے یوکرائن پر قبضہ کرلوں‘‘۔ انجیلا کو بھی معلوم تھا کہ یہ غلط نہیں کہہ رہا۔ درحقیقت یورپی اور امریکی سامراج اور روسی مافیا سرمایہ داری کی یوکرائن پر یلغار کا مقصد قومی، نسلی اور مذہبی تعصبات کے تصادم سے یوکرائن کی خونریز بندربانٹ کرنا ہے۔
مشرقی یوکرائن میں سامراجی حمایت یافتہ یوکرائنی فوجوں کو صرف روسی مداخلت سے شکست نہیں ہورہی۔ پہلے تو یوکرائنی فوجیں تین حصوں پر مشتمل ہیں ان میں وزارت داخلہ کی فوجیں‘ باقاعدہ فوج اور نیونازی فسطائی جتھے ہیں جن میں بے پناہ درندگی‘ کرپشن اور باہمی غداری پائی جاتی ہے۔ا ن کی حالیہ پسپائی سے قبل ہی یوکرائن کی سرکاری فوج کے کمانڈر نے کہا تھا ’’مختلف کمانڈروں کے درمیان تناؤ بہت زیادہ ہے۔ ایک خلفشار مچا ہوا ہے۔ آپس میں باہمی ربط نہ ہونے کے برابر ہے اور بدعنوانی اور بھگوڑوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔‘‘ شکست سے یوکرائنی فوجوں کے حوصلے مزید پست ہورہے ہیں ۔ دوسری جانب باغی اپنے گھروں اور خاندانوں کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس زندگی اور موت کی جنگ میں بہادری سے لڑنا ان کی مجبوری ہے۔جبکہ کیف کی فوجیں دشمن کے علاقے میں یہ جنگ لڑرہی ہیں۔
جنگیں ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہوتی ہیں۔ یوکرائنی حکومت کا خیال تھا کہ روس باغیوں کو انکے حال پر چھوڑ دے گا۔ اب وہ ناٹو سے گڑگڑا کر امداد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ لیکن برطانیہ کے صوبے ویلز میں ہونے والے ناٹو کے سربراہی اجلاس میں مذمتوں کی گرج برس ہوئی اور عرش معلی کی جانب ہاتھ اٹھا کر پیوٹن پر قہر خداوندی کے نزول کی دعائیں کی گئیں لیکن پھر عملی طور پر کیاکچھ بھی نہیں! روس پر ’’سخت معاشی‘‘ پابندیاں لگانے کی تجاویز آئیں لیکن ان سے روس کی نسبت پہلے سے خستہ حال یورپی ممالک زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ یہ درست ہے کہ روس کی معیشت کو ان پابندیوں سے بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن جرمنی سمیت مختلف یورپی معیشتیں جو اس وقت ایک بڑے اقتصادی زوال کے دہانے پر کھڑی ہیں اس میں گرسکتی ہے۔دوسری جانب روس ان ممالک کی گیس سپلائی بھی بند کرسکتا ہے۔ آنے والی سردیوں میں ٹھٹھرتے ہوئے جرمن خاندانوں اور بند ہوتی ہوئی جرمن فیکٹریوں کا منظر نامہ انجیلا مرکل کے لیے ایک گھناؤنا سپنا بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے ساتھ زیادہ قابلِ قبول صلح کروانے میں جرمنی کاوشیں کررہا ہے۔ پابندیوں کی دھمکیوں نے الٹ اثر دکھایا۔ یورپی یونین کے اعلان کے بعد پیوٹن نے ڈان باس (Donbas) کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کو صلح سے مشروط کر دیا۔
دوسری جانب کیف میں حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں پھوٹ بڑھ گئی ہے۔ صدر پوروشینکو اور وزیر اعظم یاٹسینویک متصادم پالیسیوں پر گامزن ہیں اور مخالف بیانات دے رہے ہیں۔ نیونازی ایزوف (Azov) جتھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ باغیوں کے ساتھ کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کریں گے اور لڑائی جاری رکھیں گے۔ اس معاہدے سے وہ پوروشینکوکا تختہ گرانے کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں۔
یہ خانہ جنگی پہلے سے شدید بحران زدہ یوکرائن کو معاشی بربادی کی چوکھٹ پر لے آئی ہے۔ جی ڈی پی میں 8 فیصد گراوٹ آگئی ہے اور آئی ایم ایف اس ملک کو دیوالیہ گردان رہا ہے۔ گیس کی بندش یوکرائن کی برفانی سردی میں لوگوں کو جما دے گی۔ افراطِ زر سے اشیائے ضرورت عوام کی دسترس سے باہر ہوگئیں ہیں۔ لیکن جلد یا بدیراصل معاشی اور سماجی مسائل سامنے آئیں گے اور اس قوم پرستی کے زہریلے جنون کو خارج کریں گے۔ ابھی سے ہی مہنگائی اور دوسرے بنیادی مسائل پر مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔3 ستمبر کو اینٹونوف طیاروں کی فیکٹری ہڑتال سے بند کردی گئی۔ کانکنوں کی ہڑتالیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات پھوٹتے ہیں۔ آج یوکرائن ایک ردانقلابی خونریزی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ لیکن صورتحال میں اچانک تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔ گزشتہ پچیس سال میں یوکرائن کو اس نظام نے سیاسی خلفشار ‘ بدعنوانی‘ کرپشن ‘ انتشار‘جنگیں ‘غربت‘ ذلت اور موت ہی دی ہے۔ اس نظام میں یوکرائن کے عوام کا مستقبل تاریک اور خونریز ہے لیکن اسی دکھ اور درد سے وہ یہ سبق سیکھیں گے کہ ایک روشن سویرے کا راستہ کیا ہے؟
متعلقہ:
جہاز کی تباہی اور یوکرائن کی چیر پھاڑ
یوکرائن: امریکی سامراج کی بے بسی
یوکرائن میں آخر ہو کیا رہا ہے؟