مسئلہ کشمیر کا مسئلہ!

[تحریر: یاسر ارشاد]
انسانی تاریخ میں بعض سماجی اور سیاسی مسائل مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر ایسے الجھاؤ اور پیچیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک حل طلب رہنے کے بعد سماجی معمول کا حصہ بن کر ایک ضرب المثل یاذومعنی علامات بن جاتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر بھی نصف صدی سے زائد عرصہ قائم رہنے کے بعد اسی طرح کا ایک ذومعنی فقرہ بن چکا ہے۔ کم از کم کشمیر کے اندر افراد کے باہمی سماجی معمولات میں کسی بھی کام کے ہونے میں ضرورت سے زیادہ تاخیر کی صورت میں لوگ ایک دوسرے کو طنزیہ انداز میں یہ کہتے ہیں کہ کام کو جلدی ختم کرو مسئلہ کشمیر نہ بناؤ۔ اسی طرح سماجی اور خاندانی جھگڑوں اور ناراضگیوں کو ختم کرنے کی محفلوں کے دوران بھی صلح کرانے والے ناراض افراد کو یہ کہتے ہیں کہ ناراضگی مٹا دو مسئلہ کشمیر نہ بناؤ۔ یہ ایک گہری تاریخی حقیقت کی مزاحیہ اور غیر شعوری عکاسی ہے۔ 67 سالوں میں کشمیر کو جنگوں، جنگی حالات یا نام نہاد امن مذاکرات کے مرکزی موضوع کے طور پر مسلسل زیر بحث رکھا گیا۔ پاک و ہند کے حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کو اپنی حکمرانی کی ضروریات کے خارجی محاذ کے طور پر تواتر کے ساتھ استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ نہ تو جنگوں کے ذریعے اور نہ ہی مذاکرات کے ذریعے برصغیر کے حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کو حل کر پائے اور نہ ہی کوئی امن قائم کیا جا سکا۔ حکمرانوں کی اس نا اہلی کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر ایک نہ ختم ہونے والے مسئلے کی علامت بن کر سماجی معمولات کی گفتگو کا حصہ بن گیا ہے۔ حکمران مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف بے شک نہ کریں عوامی شعور میں حکمران طبقات کی ناکامی اور تاریخی نا اہلی مکمل طور پر آشکار ہو کر زبان زد عام ہو چکی ہے۔ صرف یہی نہیں اس المناک علامت پر غور کیا جائے تو مسئلہ کشمیر ایک عبرت کا نشان بن چکا ہے جس سے لوگوں کو جھگڑوں کی طوالت کے انجام سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات واقعی درست ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں لیکن اس میں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اس مسئلے سمیت بے شمار دیگر مسائل کا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی حل ممکن نہیں۔
پاک و ہند کے حکمران طبقات گزشتہ 67 سالوں سے برصغیر میں سرمایہ دارانہ استحصال اور وحشت کا کھیل جاری رکھنے کیلئے مسئلہ کشمیر کو مسلسل استعمال کرتے آ رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اس نظام کے بحران میں اضافے اور ان ممالک میں داخلی طور پر کسی تحریک کے اُبھرنے کی صورت میں ان حکمرانوں کو ایک خارجی محاذ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لیے یہ حکمران طبقات اس نظام کے تحت مسئلہ کشمیر کو کبھی بھی حل نہیں کر سکتے۔ ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف بے شمار سادہ لوح درمیانے طبقے کے دانشوروں کا نقطہ نظرہے کہ اگر دونوں طرف کے حکمران مخلص ہوں تو مسئلہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پہلو کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف صورتحال سامنے آتی ہے۔ در حقیقت مسئلہ کشمیر کے ظاہری طور پر رسمی منطق کے نقطہ نظر سے دواہم پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں بسنے والے کشمیری عوام اور محنت کشوں کی محرومی، پسماندگی، مظلومیت، استحصال، تقسیم اور پاک و ہند اور چین کے سامراجی قبضے سے نجات حاصل کرتے ہوئے کشمیر کی وحدت کی بحالی اور کشمیری عوام کی حقیقی آزادی اور سرمائے کے استحصال سے نجات کا مسئلہ ہے اور دوسرا پاک و ہند کی نیم سامراجی ریاستوں کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطہ کشمیر کے وسائل اور خاص کر پانی کے ذرائع اور منصوبوں پر کنٹرول کی لڑائی ہے لیکن جدلیاتی نقطہ نظر سے اس کا ایک تیسرا انتہائی اہم پہلو ہے جو اس مسئلے کے آغاز پر یعنی تقسیم ہند کے وقت شائد ثانوی نوعیت کا تھا لیکن اب کلیدی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور وہ ہے تقسیم ہند کے مقصد کی تکمیل کیلئے برصغیر کے جسم پر ایک رستا ہوا ناسور جس کو بار بار کرید کر اور نوچ کر تقسیم کے زخموں کو تازہ کرتے ہوئے پاکستانی اور ہندوستانی قومی شاونزم کو ابھارتے ہوئے طبقاتی جڑت کو تشکیل پانے سے پہلے ہی منافرتوں، تعصبات اور رجعتیت سے زہر آلود کرنا۔ اس پہلو کی جڑیں برصغیر پاک و ہند میں سرمایہ دارانہ نظام کے طرز ارتقا اور قومی جمہوری انقلاب کے فرائض کی تکمیل کی تاریخی نااہلیت میں پیوست ہیں۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد جوں جوں پاک و ہند کے حکمران طبقات کو ہندوستان اور پاکستان میں ایک صحت مند سرمایہ دارانہ جمہوری اور سیکولر ریاست استوار کرنے کی عملی کوششوں کے ذریعے اپنی تاریخی نا اہلی کا احساس اور ادراک ہوتا گیا توں توں اپنی حکمرانی کے جواز کیلئے ایک خارجی خونریز محاذ کی ضرورت بڑھتے بڑھتے ناگزیر ہوتی گئی۔ اسی لیے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ داخلی استحصال کو جاری رکھنے کیلئے ایک یکساں صنعتی اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بجائے خارجی پر تشدد محاذ پر انحصار بڑھتا گیا۔ پاک و ہند میں تعمیر کیا جانے والا صنعتی و سماجی انفراسٹرکچر انتہائی ناہموار اور مشترکہ نوعیت کا تھا۔ مشترکہ اس حوالے سے کہ ملک کے کچھ حصوں میں انتہائی جدید صنعتی ڈھانچے کی تعمیر سے وہ حصے جدید سرمایہ دارانہ طرز پر استوار ہو گئے اور عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کے ساتھ جدید صنعتی اور مواصلاتی آلات کے ذریعے منسلک ہو گئے۔ ناہموار اس حوالے سے کہ ملک کے زیادہ تر حصے میں جدید صنعتی ڈھانچہ قائم نہ ہو سکنے کی وجہ سے یہ حصے انتہائی پسماندہ زرعی، قبائلی اور نیم جاگیردارانہ طرز معیشت و معاشرت میں پھنس کر رہ گئے۔ یوں اس ناہموار اور مشترکہ طرز ارتقا نے ان معاشروں کے اندر پر امن اور صحت مند سماجوں کی تعمیر کی بجائے پسماندگی اور جدیدیت کے تضادات کے ٹکراؤ نے ان معاشروں میں ایک خلفشار پیدا کر دیا۔ اسی خلفشار نے ان سماجوں پر حکمرانی کرنے والوں کو اس عدم استحکام کو دبانے کیلئے خارجی پر تشدد محاذ کی جانب دھکیل دیا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ 6دہائیاں گزرنے کے بعد آج پاک و ہند کے حکمران طبقات کو مسئلہ کشمیر کو اسی طرح رستے ہوئے زخم کی طرح رکھنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے یہ محض حکمرانوں کی نیک نیتی کا مسئلہ نہیں ہے اور اگر برصغیر کے حکمران اس مسئلے کو حل کرنا بھی چاہیں تو اس کا کونسا ایسا حل ہے جو کشمیری عوام کو بھی سامراجی غلامی سے نجات اور حقیقی آزادی فراہم کرے گا اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پاک و ہند کے حکمران طبقات کی اپنی داخلی اور خارجی ضروریات پوری کرے گا؟ دوسرا ان حکمرانوں اور سامراجی اداروں جو اس استحصالی نظام کے سب سے بڑے رکھوالے ہیں ان سے مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
در حقیقت کشمیر کا مسئلہ برصغیر کے مفلوج سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار بھی ہے اور ضرورت بھی، اس کو حل کرنے کیلئے اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل کو برصغیر پاک و ہند کے مستقبل کے تناظر سے الگ کر کے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت مشرق وسطیٰ میں فلسطین کی بھی ہے۔
کشمیر کی سماجی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔ ایک جانب کشمیر کے تمام منقسم حصوں کے حکمران ہیں جو دہلی یا اسلام آباد کی غلامی کو قبول کر کے ان کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ ان حکمرانوں کو کشمیر کی آزادی سے نہ تو کوئی واسطہ ہے نہ دلچسپی اور نہ ہی ان کو اس آزادی میں اپنا کوئی مفاد نظر آتا ہے جس کیلئے کوئی کٹھن جدوجہد کی جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کا کشمیر پر قبضہ بہت حد تک ان کشمیری حکمرانوں کے بل بوتے پر ہے۔ یہی کشمیر ی حکمران، کشمیری عوام کے سب سے بڑے اور پہلے دشمن ہیں جن کیخلاف لڑائی سب سے پہلے بنتی ہے۔ لیکن یہ لڑائی قومی کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے قومی مسئلے اور قومی آزادی کی جدوجہد کے جس پہلو کا بھی سنجیدگی سے سائنسی تجزیہ کیا جائے تو یہ مسئلہ کشمیر کے عام عوام اور محنت کشوں کا طبقاتی استحصال، سامراجی لوٹ مار اور غلامی کا مسئلہ ہے۔ جس کیخلاف کشمیر کے محنت کش اور عوام طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر ہی ایک حقیقی انقلابی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
اس وقت نام نہاد آزادکشمیر کے تمام شعبوں کے محنت کش تقریباً ڈیڑھ ماہ سے مسلسل ہڑتال پر ہیں لیکن تا حال حکمران اس ہڑتال سے مجرمانہ پہلو تہی برتتے آ رہے ہیں۔ اگرچہ اس ہڑتال کی شدت کشمیر کے تمام اضلاع میں ایک جیسی نہیں ہے لیکن پھر بھی کشمیر کے حکمران اتنے سفاک اور عام لوگوں کے حالات زندگی سے اس قدر لا تعلق ہو چکے ہیں اتنی طویل ہڑتال کے باوجود محنت کشوں کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے۔ محنت کشوں کی جدوجہد اور تنظیموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ محنت کشوں کی قیادت کی تنگ نظری پر مبنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے اتنی طویل ہڑتال اپنے اثرات مرتب کرنے میں بھی ناکام رہی ہے اور کوئی بڑی عوامی اور سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں کی جا سکی۔ لیکن طبقاتی جدوجہد کے اُبھار کے ابتدائی مراحل کی مختلف علامات کے ساتھ ہمیں طبقاتی لڑائی کا ایک نیا آغاز نظر آتا ہے۔
اسی طرح ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ لوک سبھا کے انتخابات میں حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی شکست اس بات کی غمازی ہے کہ عام عوام محنت کشوں اور نوجوانوں میں طبقاتی شعور تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اگرچہ ابھی اس میں بے شمار نا پختگیاں ہیں لیکن ایک واضح طبقاتی لکیر نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان موجود طبقاتی تفریق کو واضح کرنا شروع کر دیا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے لوک سبھا کے انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد کشمیر اسمبلی کے آنے والے انتخابات میں ناکامی سے بچنے کیلئے نام نہاد اصلاحات کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جون 2010ء میں اُبھرنے والی سنگ باز نوجوانوں کی تحریک کے دوران گرفتار کیے جانیوالے 1300 نوجوانوں کی عام معانی اور رہائی کیلئے ایک کمیشن بنایا گیا ہے۔ اسی تحریک کے دوران موبائل فون کے ذریعے ٹیکسٹ پیغام بھیجنے اور ٹیلی ویژن پر مقامی خبریں نشر کرنے پر عائد کی جانیوالی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کبھی بھی عوام اور محنت کشوں کی اکثریت کو اپنی جانب راغب نہیں کر پائے۔ اسی لیے یہ معاشرے کی ایک انتہائی قلیل اقلیت یعنی حکمران اشرافیہ کا جمہوری ناٹک ہوتا ہے جو سات لاکھ فوجی سنگینوں کے سائے تلے رچایا جاتا ہے۔ پاکستانی کشمیر ہو یا ہندوستانی کشمیر ان میں ہونے والے انتخابی ڈرامے میں حصہ لینے والوں کو اسلام آباد یا دہلی کے سب سے بڑے وفادار اور دلال ہونے کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے۔ ابھی تک محنت کشوں اور عوام نے اپنی طبقاتی طاقت کا اظہار نہ تو انتخابی میدان میں کیاہے اور نہ ہی انقلابی میدان میں۔ اسی لیے حکمران اشرافیہ نسبتاً آسانی کے ساتھ اس جمہوری ڈھونگ کو رچا کر اپنی طبقاتی حکمرانی کو مسلط رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف طبقاتی شعور انگڑائیاں لے رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے گہرے ہونے کے ساتھ لگنے والے جھٹکوں سے یہ شعور تیزی کے ساتھ پختگی حاصل کرے گا۔ لیکن آزادی اور حقیقی نجات کے حصول کیلئے اس طبقاتی شعور کی پختگی کو ایک مارکسی نظریے، انقلابی پروگرام اور پلیٹ فارم کی بھی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں مارکسی قوتیں اگر اس طبقاتی شعور کو مارکسزم کے نظریات، درست حکمت عملی اور طریقہ کار سے لیس کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو برصغیر کے زندہ جسم کو چیر کر جس زخم کے ذریعے اس تقسیم کو برقرار رکھا گیا اسی زخم خوردہ حصے یعنی کشمیر سے اس خونی تقسیم کے انقلابی خاتمے کے عمل کا بھی آغاز ہو گا جو برطانوی سامراج اور برصغیر میں ان کے مقامی گماشتوں کے 1947ء میں کیے گئے تمام جرائم اور ہر خونی لکیر کو صفحہ ہستی سے مٹا کر برصغیر کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھے گا جو عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کا نقطہ آغاز ہو گا۔

متعلقہ:
کشمیر: خاموشی کی کوکھ میں پلتے طوفان
کشمیر کی پکار