جمہوریت کے سوداگر

[تحریر: لال خان]
حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن)  کی بھاری مینڈیٹ سے کامیابی کے بعد یہ جماعت وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی ہے۔ اپنے بنیادی سوشلسٹ منشورسے انحراف اور محنت کش عوام کے مفادات کو فراموش کرنے کے نتیجے میں تاریخ کی بد ترین شکست کا شکار ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی محدود ہو کر صرف سندھ میں حکومت بنائے گی جبکہ پختونخواہ اور بلوچستان مختلف جماعتوں کی مخلوط حکومتیں بنائے جانے کا امکان ہے۔ پچھلے پانچ سال کی طرح اس بار بھی ایک گھن چکر تیار ہے اور اس چکر بازی کو حکمران صحافت اور دانش کے علمبردار ’’جمہوریت‘‘ کی فتح اور ’’استحکام‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سرمایہ دار اور دایاں بازو، نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کا جشن زور و شور سے منا رہے ہیں لیکن یہ تماشا زیادہ دیر چلتا دکھائی نہیں دیتا۔
11مئی  کو ہونے والے انتخابات کی دو اہم خصوصیات کو چھپانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ان انتخابات پر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے جتنی ’’سرمایہ کاری‘‘ کی ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کالے دھن اور دولت کے اس کردار کو انتہائی مکاری سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ اخراجات ان حدود سے کئی گنا زیادہ تھے جو الیکشن کمیشن نے مقرر کی تھیں۔ اس لئے کسی غریب آدمی کا ان انتخابات میں جیتنا تو درکنار، ان میں حصہ لینا ہی دیوانے کے خواب سے کم نہ تھا۔ یہ امیروں کی جمہوریت میں امارت کی مقابلہ بازی پر مبنی انتخابات تھے۔ اس نظام میں سیاست ایک کاروبار ہے، یہ انتخابات حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے مابین اقتدار کے حصول کا ایک مقابلہ تھااور اس میں کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری کا اصل مقصد اقتدار میں آنے کے بعد ہوشربا منافعوں کا حصول تھا۔
دوسرا عنصر جس کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ اس مخصوص وقت اور انتخابی عمل کے لمحات میں سماج کی عمومی نفسیات اور محنت کش عوام کے اجتماعی شعور کا کردار، کیفیت اور معیار ہے۔ یہ انتخابات ایسے دور میں ہوئے ہیں جب سماج میں ایک عمومی جمود اور سیاسی بے حسی غالب ہے۔ محنت کش طبقہ اپنے پر ہونے والے پچھلے کئی برسوں کے تابڑ توڑ معاشی، اقتصادی، سماجی حملوں اور دہشت گردی کی خونریز وحشت سے ایک نفسیاتی صدمے کی کیفیت میں ہے۔ سماجی خلفشار کے شور کے اندر اس نفسیاتی سکوت کی عکاسی ہمیں ان انتخابات کے نتائج میں نظر آتی ہے۔ انتخابات اور ان کے نتائج ایک مخصوص لمحے پر عمومی سماجی شعور کے عکاس ہوتے ہیں، کسی سیلولائیڈ فلم کی ریل میں سے لی گئی ایک تصویر کی طرح۔ انسانی معاشرہ مسلسل ارتقاء اور تغیر کے عمل سے گزرتا ہے لہٰذہ ایک مخصوص لمحے کی سماجی سوچ کو حتمی نہیں سمجھا جا سکتا۔ دوسرے الفاظ میں انتخابات میں منعکس ہونے والی عوام کی وقتی رائے انکی حتمی سوچ اور شعور کی عکاس نہیں ہوسکتی، ایک واقعہ تمام تر رائے عامہ کو تبدیل کرسکتا ہے۔ عام حالات میں انتخابات اور ان کے نتائج غیر معمولی نہیں ہو سکتے۔ ن لیگ نے تجزیہ نگاروں کی ایک زیادہ منتشر مینڈیٹ کی پیش گوئی کے برخلاف بھاری اکثریت حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت، انتخابات میں حصہ لینے والے تمام تر بڑی سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک تھا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے انحراف کی وجہ سے عبرت ناک شکست پائی۔ ’’تبدیلی ‘‘  کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی مہم پہلے دن سے ہی کسی ٹھوس اور جامع عملی پروگرام سے عاری تھی جس نے اس کی پسپائی کو ناگزیر بنا دیا۔ امریکی سامراج سے قربت جہاں ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو لے ڈوبی وہیں امریکہ دشمنی کی سیاست کرنے والی بنیاد پرست مذہبی پارٹیاں بھی ہمیشہ کی طرح عوامی حمایت سے محروم رہیں۔ امریکہ دشمنی اور سامراج دشمنی صرف مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد رویے اور نظریات ہیں۔ معاشی پالیسی کے حوالے سے ’’امریکہ دشمن‘‘ اور امریکہ دوست پارٹیوں میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اس قسم کے معروض میں حکمران اپنا تسلط اور حکمرانی قائم رکھنے کے لئے بلند و بانگ منصوبے بناتے ہیں۔ یہ دعوے، وعدے اور منصوبے عوام کو وقتی طور پر مرعوب تو کرسکتے ہیں لیکن ان کی حالت زار میں بہتری نہیں لا سکتے۔ روم کے شہنشاؤں کے کلازیم، مصر کے فرعونوں کے دیو ہیکل اہرام، مغل بادشاہوں کے تاج محل اور ان گنت انسانوں کا خون نچوڑ کر تعمیر کئے گئے ایسے دوسرے تاریخی عجوبوں کا مقصد فن تعمیر کے اس رعب و دبدبے سے عام انسانوں کو نفسیاتی طور پر مطیع رکھنا تھا۔ تاج محل تعمیر ہو گیالیکن اس کے گرد ونواح کی بستیوں میں غربت، بھوک اور محرومی پلتی رہی اور آج تک پل رہی ہے۔ ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر شریف برادران کے طریقہ واردات کا جائزہ لیا جائے تو مغلائی طریقہ حکمرانی سے خاصی مشابہت نظر آتی ہے۔ موٹر وے سے لے کر لاہور و کراچی کے قلعہ نما ہوائی اڈے، ایٹمی دھماکوں سے لے کر میٹرو بس سروس تک۔۔۔ یہ سب ایسے ہی منصوبے ہیں جن سے درمیانے اور بالادست طبقے فیض یاب تو ضرور ہوئے لیکن آبادی کی بھاری اکثریت علاج، مناسب خوراک، تعلیم، نکاس اور رہائش کی سہولیات سے بدستور محروم رہی۔ ان منصوبوں کا شور پورے معاشرے کو ذہنی طور پر شل کئے ہوئے تھا جبکہ سماج میں محنت کش طبقات، غربت، افلاس اور محرومی کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے تھے۔
پارلیمنٹ میں نواز لیگ کی موجودہ اکثریت شریف برادران سمیت اس ملک کے حکمران طبقات کے لئے کوئی اچھی نوید نہیں ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ سے وابستہ دانشوروں کی تمام تر خوش فہمیوں کے برعکس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نسخوں پر مبنی پالیسیاں اپنائی جائیں گی۔ عوام کو مختلف اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ اور کرنسی کی قیمت میں تنزلی سامراجی اداروں کی پہلی شرائط ہوں گی، مہنگائی بڑھے گی اور سامراجی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی رقوم میں خوفناک اضافہ ہو گا، محنت کشوں سے بچی کھچی مراعات بھی چھینی جائیں گی۔ پاکستان کا قومی قرضہ جو 2008ء میں 6 ہزار ارب روپے تھا، اس وقت 15 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس قرضے پر سود کی ادائیگی کے لئے کم از کم بجٹ کا60 فیصد مختص کرنا پڑے گا اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے مزید قرضہ لینا پڑے گا، مزید قرضہ مزید سخت شرائط کے ساتھ ہی مل پائے گا۔ یہ ایک گھن چکر ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر نکلنا ناممکن ہے۔ بجلی کے بحران کے خاتمے کے بارے میں اگر کوئی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ سرکلر ڈیٹ اس وقت 800 ارب روپے سے تجاوز کر رہا ہے، سرمایہ داری کی حدود میں اس بحران سے نکلنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں ہے۔ اس شدید ترین بحران کی کیفیت میں آئی ایم ایف، سخت شرائط پر اگر 5 ارب ڈالر (تقریباً500 ارب روپے) کا قرضہ دیتا بھی ہے تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوگا۔
لینن نے ایک بار کہا تھا کہ ’’سیاست آخری تجزئے میں معیشت کامجتمع شدہ عرق ہوتی ہے۔‘‘ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھاری مینڈیٹ سے ایک مضبوط حکومت بنے گی، وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ گڈ گورننس اور حکومت کرنے کے لئے ترقی کرتی ہوئی معیشت درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی شدت سے معاشی بحران بڑھے گااور حکمرانوں کی سیاست اور ریاست کو محنت کشوں کی طوفانی تحریکوں اور طبقاتی بغاوتوں کا جلد ہی سامنا کرنا پڑے گا۔