[تحریر: لال خان]
کرپشن اور ’’جمہوریت‘‘ دو ایسے موضوعات ہیں جنہیں سیاست اور صحافت پر مسلط کر کے عوام کی وسیع اکثریت کے حقیقی مسائل کو دبا دیا گیا ہے۔ اس عہد کے کردار سے مطابقت رکھنے والے ’’دانشور‘‘ اس جعلی بحث کو پورے سماج پر حاوی کرنے میں دن رات سرگرم عمل ہیں۔ حاوی سیاست بھی اسی تاریک عہد کی ذلت، فریب، خود غرضی اور منافقت کی امین ہے۔ ’’جمہویت کو وقت دو‘‘ کا عجب بیہودہ اصرار ہے۔ ہندوستان میں یہ جمہوریت بغیر کسی تعطل کے چھ دہائیوں سے چل رہی ہے اور عوام کی غربت، بھوک اور محرومی کسی طور یہاں سے کم نہیں ہے۔ یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ کرپشن کے پیسے سے چلنے والی یہ ’’جمہوریت‘‘ بھلا کرپشن کو کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ کالے دھن کی سیاست میں بدعنوانی اور لوٹ مار بھلا کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ پرانے وقتوں میں مواصلاتی خرابی کی صورت میں ٹیلی وژن پر ’’انتظار فرمائیے‘‘ کا پیغام گھنٹوں آویزاں رہتا تھا۔ اس ’’جمہوریت‘‘ بھی یہی حساب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ خرابی ٹھیک ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔
جمہوریت اور آمریت سماج پر ایک ہی نظام کو مسلط رکھنے کے دو طریقے ہیں جنہیں حکمران طبقہ اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتا رہتا ہے۔ یہاں نظام کو چھوڑ کے اسے چلانے کی طریقہ کار پر بحث ہوتی ہے۔ سماجی اور معاشی مسائل نظام کے طریقہ کار کی نہیں بلکہ نظام کی پیداوار ہیں۔ جمہوریت کے پنپنے کا جتنا بھی انتظار کر لیں یہ مسائل بڑھتے ہیں چلے جائیں گے کیونکہ اس جمہوریت میں دولت کی آمریت نے جمہور کا گلا گھوٹ رکھا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جمہور کی آرزوؤں، امنگوں اور ضروریات کو آئینی ، قانونی، مذہبی اور ’’قومی‘‘ بھول بھلیوں میں الجھا کے غرق کر دیا گیا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام حکمرانوں کے آپسی تنازعات کے بدنصیب تماشائی بن کے رہ گئے ہیں؟ اپنے خون پسینے سے سماج کو چلانے والے محنت کشوں کو اس نظام نے حکمران طبقے کی ہوس کا ایندھن بنا کے رکھ دیا ہے۔ محنت کش طبقے کو بے بسی اور لاچارگی کی کیفیت میں اس کی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادتوں نے مبتلا کیا ہے۔ اس روایتی قیادت نے ان کے نیک جذبوں اور مخلص جدوجہد کا سودا حکمرانوں سے کیا ہے۔ محنت کش پسپا ضرور ہوئے ہیں، ہارے نہیں ہیں۔
آمریت کا سب سے بڑا المیہ عوام کے ذہنوں میں ’’جمہوریت‘‘ سے متعلق خوش فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ امیدیں جب ٹوٹتی ہیں تو جنم لینے والی پراگندگی اور بدگمانی کے عہد بعض اوقات طویل بھی ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان سے لے کر یورپ اور امریکہ تک، حکمران طبقہ مختلف طریقہ ہائے واردات سے لوٹ مار اور استحصال کا نظام برقرار رکھتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں پیسے کی اس جمہوریت کے فنکاروں کے لئے مذہبی بنیاد پرستی ایک ایسا اوزار جس کے ذریعے عوام کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ ’’لبرل‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ پارٹیوں کے دور اقتدار میں عوام پر ہونے والے معاشی حملے، لوٹ مار اور اخلاقی بیہودگیاں مذہبی سیاست کو خوب آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ عوام کو جب روشن مستقبل کی امید نظر نہیں آتی تو یہ مذہبی جغادری انہیں ماضی بعید کے خیالاتی تصورات میں الجھا کر قرون وسطیٰ کی جبر و وحشت کو مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ آمریت کے ذریعے بہتری کی نوید سنانے والے بھی اسی رجحان کا حصہ ہیں۔ جمہوریت کی ذلالت کے بعد آمریت اور آمریت کے جبر میں جمہوریت سے امید کی اس چکی میں عوام پستے چلے جارہے ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران جوں جوں شدت اختیار کررہا ہے، عوام کی زندگیاں اور بھی اجیرن ہورہی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور انتشار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں حقیقی مسائل اور ایشوز کے گرد ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں بھی شدت آرہی ہے۔
عوام کو ’’قومی سالمیت‘‘ کا درس دینے والے ان حکمرانوں کے اپنے مقدر کا فیصلہ سامراجی قوتیں کرتی ہیں۔ یہاں کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے طے کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس سامراجی لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ ہیں اور معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست، ثقافت اور معاشرت میں بھی اپنے آقاؤں کی خوب جی حضوری کرتے ہیں۔ ’’مشرقی تہذیب‘‘ اور ’’مغربی روشن خیالی‘‘ پر سیاست کرنے والے ملاؤں اور ’’لبرلز‘‘ کے درمیان سرمائے کی حاکمیت پر بہرحال کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ امریکہ بہاد ر کا کوئی کھلا وظیفہ خوار ہے تو کوئی ایسے لیتا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔
امریکہ کی اپنی حالت بھی روز بروز پتلی ہورہی ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین جمہوریت امریکہ میں پائی جاتی ہے جس کی رگ رگ میں بدعنونی اور ضمیر فروشی رچی بسی ہوئی ہے۔ 22 جنوری کو نیویارک کی ریاستی اسمبلی میں 21 سال سے چلے آرہے سپیکر سیلڈن سلور کو بدعنوانی کے پانچ کیسوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس پر رئیل اسٹیٹ کی مختلف اجارہ داریوں کے حق میں قانون بنا کر کروڑوں ڈالر رشوت لینے کے الزامات سرفہرست ہیں۔ ہر کیس انتہائی سنگین نوعیت کا ہے جس میں اسے 20 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ قومی امکان یہی ہے کہ دو دہائیوں میں اس نے جتنی دولت جمع کی ہے اس کے بلبوطے پر جلد ہی رہا ہوجائے گا۔ امریکی سماج میں کرپشن کی یلغار کا اندازہ آج کل نیویارک کے تھیٹر میں چلنے والے ڈرامے ’’ہیملٹن‘‘ کے اس گیت سے لگایا جاسکتا ہے:
’’کرپشن کا گیت اتنا پرانا ہے کہ سب ایک ہی لے میں گا سکتے ہیں…اور دارالحکومت سے زیادہ مضبوط کرپشن اور کہیں نہیں ہے!‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ جریدہ اکانومسٹ اپنے تازہ شمارے میں لکھتا ہے کہ ’’امریکی نظام ایک بحران میں مفلوج ہے۔ امریکہ میں دولت کی سیاست زیادہ غلیظ اور گندی ہوچکی ہے۔ یہ جاگیردارانہ سیاست بنتی جارہی ہے جس کا اظہار ہے کہ 2016ء کے صدارتی امیدوار (جیب) بش اور (ہیلری) کلنٹن ہوں گے۔ ’’Washinton Consensus‘‘ کے مطابق تو تاریخ نے ختم ہوجانا تھا اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نسخے نے دنیا کو آزاد کروانا تھا لیکن آزادی کے وہ لمحات رک سے گئے ہیں۔ جمہوریت اب متوقع منزل نہیں رہی۔ روس اور ترکی جیسے ممالک جہاں جمہوریت کے کچھ مواقع 20سال پہلے پیدا ہوئے تھے، انہوں نے بھی زار اور سلطان اپنا لئے ہیں۔ جابرانہ چین کی فی کس آمدن میں جمہوری ہندوستان کی نسبت دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘
یہ سامراج کے سب سے جارح اورسخت گیر نمائندوں کا اپنا تجزیہ ہے۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کے اس امتزاج نے نسل انسان کو بھوک، غربت اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہمیں بتا جاتا ہے کہ پچھلے 25 سال میں برازیل کے چار کروڑ انسانوں کو غربت سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ ان کی آمدن5 2سے بڑھ کر 27 ڈالر ماہوار ہوگئی ہے!دعوے کیا ہیں اور حقائق کیا۔ مہنگائی اور افراط زر کو مد نظر رکھا جائے تو غربت میں ہر طرف اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس ملک میں بیس لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ کالے دھن پر مبنی یہ بدعنوان سرمایہ داری کتنی ملازمتیں کن شرائط پر فراہم کر رہی ہے؟حکمران طبقے کے دانشوروں اور ٹی وی اینکروں کے پاس شاید اس کا جواب تلاش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ کچھ بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن بولتے نہیں کہ یہی نوکری کی شرط ہے۔
جمہوریت کے اس آٹھ سالہ ’’تسلسل‘‘ کے بعد اب عوام مزید دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہاں جائز اور ناجائز کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں رہا ہے۔ کرپشن اس نظام کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے اور اسی کرپشن پر یہ جمہوریت مبنی ہے۔ لیکن جمہورکب تلک مجروح اور مجبور رہے گا؟ محنت کشوں کی جمہوریت دولت سے نہیں محنت کے اشتراک سے جنم لیتی ہے۔ محنت کا یہ اشتراک جب سیاسی اشتراک میں بدلے گا تو اس سے پھوٹنے والا انقلاب کرپشن کی جمہوریت اور جمہوریت کی کرپشن کے اس کھلواڑ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر ڈالے گا!
متعلقہ:
دولت والوں کی تکرار، عوام بیزار