تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
پاکستان اور امریکہ کے تیزی سے بگڑتے تعلقات اور خاموشی سے پنپتی مخاصمت کی وجہ پاکستان جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کا اتحادی ہے، کی جانب سے اپنی سرزمین سے گزرنے والی نیٹو سپلائی کی بندش ہے۔ پاکستان دیگر باتوں کے ساتھ راہداری کا فی ٹرالر کرایہ 250ڈالر سے بڑھا کر 5000ڈالر کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ہر روز قریباً 600 ٹرالر پاکستان سے گزر کر افغانستان میں قابض سامراجی افواج کے لیے انتہائی اہم عسکری اور دیگر سامان لے کر جارہے تھے۔ سرمایہ داری کے تباہ کن بحران نے طلب اور رسد کے چکر کوبرباد کرکے رکھ دیا ہے اس کی سفارتی‘ سیاسی اور عسکری حکمتِ عملیاں دیوانگی کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔حال ہی میں شکاگو میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں بھی اس نہ ختم ہونے والی جنگ اور 2014ء میں افغانستان سے آئی ایس اے ایف (ISAF) افواج کے انخلاسے جنم لینے والے مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
اسی دوران اس خونریز جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس ساتھ ’ باہمی نقصان‘ (collateral damage) میں بھی، جو در حقیت بے گناہ عام شہریوں کا بنیاد پرست دہشت یا سامراجی جارحیت کے ہاتھوں وحشیانہ قتل اور اپاہج ہونا ہے۔فارن پالیسی جریدے کے مطابق امن کا نوبل انعام پانے والا اوباما ’’ایسا جارج بش ہے جوطاقت کی گولیاں کھا رہا ہے اور اس نے اپنے شکار کی لسٹ بنا رکھی ہے‘‘۔ ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس ہفتے تین دنوں میں 42سے زیادہ افراد ان کا نشانہ بن کر قتل ہوئے ہیں۔ 5مئی کو گارڈین اخبار لکھتا ہے’’گزشتہ تین روز میں ڈرون حملوں میں مرنے والے زیادہ تر ’مشتبہ دہشت گرد‘ بے گناہ ہوں گے۔۔۔ باہمی نقصان کے طور پر سینکڑوں مارے جا چکے ہیں۔۔۔2008ء کی انتخابی مہم میں اس (اوباما) نے افغانستان میں جاری جنگ کو پاکستان میں پھیلا دینے کی دھمکیاں دے کر بہت سوں کو حیران و پریشان کر دیا تھا۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات اس کا ہنری کسنجر کا تائید کرنا تھا جو ویتنام میں غارت گری کرتے ہوئے کمبوڈیا میں بربادی پھیلانے اور نتیجًا پول پوٹ کے لیے راہ ہموار کرنے میں رچرڈ نکسن کا معاون تھا ۔‘‘ لیون پینیٹا کا بیان کہ ’’پاکستان کے ساتھ امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے‘‘ انکے عزائم کو ظاہر کر رہا ہے۔ لیکن آج کی امریکی معیشت 1960ء کی دہائی کا شائبہ بھی نہیں ہے۔پاکستان کے ساتھ ایک بھرپور جنگ ایک ہولناک بربادی کا باعث بنے گی۔
افغانستان میں ذلت آمیزناکامی کے بعد سامراجی انتہاہی بے بسی کی کیفیت میں ہیں۔وہ ایک با عزت انخلا کی سخت کوشش کر رہے ہیں۔ اب ساری بات چیت صرف اس انخلا کا وقت طے کرنے کے متعلق ہو رہی ہے۔ ان کے منصوبہ ساز اس کے بعد جنم لینے والے زمینی حقائق کے متعلق بات کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ فرانسیسی اسی برس نکل جائیں گے اور دوسرے ممالک بھی جلد ہی ایسا کریں گے۔ 2014ء تک کوئی قابل ذکر نیٹو ’اتحادی‘ افغانستان میں نہیں رہے گا۔ افواج کے انخلا کے لیے عوامی دباؤ بہت بڑھ رہا ہے اور امریکہ میں یہ 70فیصدکے قریب پہنچ گیا ہے جہاں ہر روز عراق اور افغانستان میں جنگ سے لوٹے اٹھارہ فوجی خودکشی کر رہے ہیں۔ اندازے کے مطابق خود اپنی جان لینے والے فوجیوں کی تعداد ان جنگوں میں مارے جانے والے 6,460 نیٹو فوجیوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔کچھ عرصے قبل تک پاکستان کے کمزور حکمران دھمکیوں اور رشوت کی بنا پر تابعداری پر مجبور تھے۔لیکن اب صورتحال الٹ ہو چکی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مباحثوں، رائے شماریوں، جنگ سے تھکاوٹ اور جنگ مخالف جذبات کے ابھرنے سے طالبان اور آئی ایس آئی کو شہہ ملی ہے۔ وہ معاشی بحران کے سامراج کی اس غیر فیصلہ کن جنگ کو جاری رکھنے کی صلاحیت پر اثرات کو بھی جانچ رہے ہیں۔یہ محسوس کرتے ہوئے کہ امریکہ کے پاس اب بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، وہ مزید بے باک ہو گئے ہیں اور سامراج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پراکسی جنگ مزید ہولناک ہو ئی ہے۔ چینی حکمران اشرافیہ کی جانب سے در پردہ حمایت سے پاکستانی فوج کے حکامِ بالا کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ہندوستان، چین، روس اور ایران جو پہلے سے ہی افغانستان میں بہت زیادہ ملوث ہیں، اس انخلا کے بعد کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دے رہے ہیں۔دوہا پروگرام کے ذریعے طالبان سے مذکرات اور ان میں پھوٹ ڈالنے کی سامراجی کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا ہے۔ مذاکرات میں ہونے والی کوئی بھی پیش رفت کسی بڑے بم دھماکے یا کسی اہم شخص کے قتل کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہے۔ طالبان کے لیڈر بخوبی جانتے ہیں کہ آئی ایس آئی جو انہیں’جہاد‘ کے اخراجات کے لیے ہر سال 15کروڑ ڈالر دیتی ہے، انہیں امریکیوں سے سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، ما سوائے ان سخت گیر فوجیوں کی شرائط کے مطابق جن کے اس جنگ سے منسلک کالے دھن کی معیشت میں بہت بڑے مالیاتی مفادات وابستہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان خود سامراج کا مطیع (Neo Colonial)ملک ہے لیکن انیسویں صدی کی روسی زار شاہی کی طرح پاکستانی اشرافیہ کے اپنے سامراجی عزائم بھی ہیں۔ اور اب ماضی کے گناہوں کا حساب چکانے کا وقت آگیا ہے۔مجاہدین اور آئی ایس آئی کا یہ گٹھ جوڑ سی آئی اے نے 1978ء کے ثور انقلاب کے خلاف ایک مسلح بغاوت برپا کرنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ پر اب یہ راکشس اپنے ہی خالق کو مار رہا ہے۔ لیکن طالبان کے خلاف اس جنگ کے دوران سی آئی اے نے کبھی بھی دہشت گردی میں ملوث ان بنیاد پرست دھڑوں سے تعلقات ختم نہیں کیے۔بروس ریڈل سی آئی اے کا انتہائی شاطر کارندہ ہے اور افغانستان پر کلنٹن، بش اور اوباما حکومت کا مشیر رہا ہے۔ اس نے روزنامہ بیسٹ میں ’’گلبدین حکمت یار: امریکہ کا نیا بہترین دوست‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ در حقیقت حکمت یارسامراج کا بہت پرانا دوست ہے۔ اگرچہ سامراج کے خلاف بہت سی پارٹیاں مزاحمت کر رہی ہیں جن میں سیکولر قوم پرست، بائیں بازو کے گروپ، خلق،پرچم اور کمیونسٹ پارٹیوں کی نئی نسل شامل ہے، لیکن میڈیا بہت آسانی سے انہیں نظر انداز کر دیتا ہے۔
تین بڑے اسلامی بنیاد پرست مسلح گروپوں میں سے ملا عمر کی کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک کسی بھی سمجھوتے لے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ لیکن مستنداطلاعات ہیں کہ 2009ء میں حکمت یار سے مذاکرات کے بعد اس کی مسلح جماعت حزب اسلامی امریکی فوجوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ستم یہ ہے کہ حزب، پاکستان کی جماعت اسلامی کی ماتحت ہے جو رجعتی ’دفاعِ پاکستان کونسل‘ کو چلا رہی ہے جس نے نیٹو سپلائی کھولنے کی صورت میں اسے طاقت کے ذریعے روکنے کی دھمکی د ے رکھی ہے ہے۔اس لڑائی میں ہر طرف سے منافقت جاری ہے۔باہمی دھوکہ دہی اس کھیل کا اصول ہے۔یہ ہولناک جنگ صرف اس خطے کے محنت کش عوام کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔دوسری جانب اس لڑائی نے ڈیورنڈ لائن کے جھوٹے پن کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جسے انگریزوں نے پختونوں کو تقسیم کرنے کے لیے کھینچا تھا جنہوں نے انگریزوں کیخلاف نا قابلِ شکست مزاحمت کی تھی۔دونوں اطراف کے محکوم عوام کی تقدیر تاریخ نے ایک مرتبہ پھر سے جوڑ دی ہے۔ اس میں بدلاؤ صرف اس وقت آئے گا جب عوام اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے جس نے صدیوں سے انہیں خون میں ڈبو رکھا ہے۔
ڈیلی ٹائمز، 10جون 2012ء
متعلقہ: