| تحریر: لال خان |
پوری دنیا میں قومی ریاستوں کے جرنیلوں اور سیاسی اشرافیہ کی عسکریت پسند سوچ دو ہزار سال پہلے کے قدیم روم کے جرنیلوں سے شاید ہی آگے بڑھ پائی ہے۔ اس وقت کی رومی شاہی افسرشاہی کے ایک اہلکار وگیٹیس (Vegetius) نے لاطینی زبان میں ایک مقالہ پیش کیا تھا جو قرونِ وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے وقتوں کی جنگی مہمات میں خوب استعمال ہوتا رہا۔ وگیٹیس نے کہا تھا، ’’امن کی خواہش کرنے والوں کو جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘ اس کہاوت کو آج کے عہد میں، بالخصوص جنوبی ایشیا کے سیاست کاروں، دانشوروں اور فوجی قیادتوں نے تھوڑے ردو بدل کے ساتھ یوں کر دیا ہے، ’’اگر امن چاہئے تو جنگ کی تیاری کرو۔‘‘
یہ جارحانہ عسکری کہاوت درحقیقت داخلی تضادات کو خارجہ دشمنی کی پالیسیوں کے ذریعے دبانے اور محکوم عوام کے شعور کو جنگی جنون کے ذریعے مسخ کرنے کی واردات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کے جنگی جنون اور عسکریت کی پالیسیوں کی پیچھے سب سے بڑھ کر قومی اور سامراجی اشرافیہ کی وسیع لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کارفرما ہے۔ لینن نے پہلی عالمی جنگ کی بربریت کے تناظر میں کہا تھا، ’’جنگیں خوفناک ہوتی ہیں، لیکن وہ خوفناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں۔‘‘ آج کے جنوب ایشیا میں حکمران طبقات کے لئے ایک کھلی قومی جنگ کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن انہوں نے ہر کچھ عرصے بعد جنگی کیفیت پیدا کرنے اور جنگ کے کسی سنجیدہ امکان کے بغیر بھی جنگی جنون ابھارنے کے فن کو خوب پروان چڑھایا ہے۔
بدھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آنے والے مالی سال کے لئے ہندوستان کے ’دفاعی بجٹ‘ میں دس فیصد سے زائد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے مالی سال کے 2490 ہزار ارب بھارتی روپوں کے مقابلے میں دفاع بجٹ کو بڑھا کر 2740 ہزار ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس رقم میں ابھی فوجیوں کو ملنے والی پنشن شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی طرح وہاں بھی یہ پنشن سویلین کھاتے میں سے ادا کی جاتی ہے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق ’’افراط زر اور فوجی ساز و سامان کی تجدید کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ ضروری ہوگا۔‘‘لیکن مین سٹریم میڈیا بھی داخلی جبر اور پراکسی جنگوں کے لئے خفیہ ایجنسیوں اور بنیاد پرست پراکسی گروہوں پر ہونے والے اخراجات کو بے نقاب نہیں کرتا۔ایٹمی پروگراموں کا تو کوئی حساب ویسے ہی نہیں ہے۔ حقیقی ’دفاعی بجٹ‘ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اعلان کردہ بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ غربت اور محرومی کے سمندر کے بیچوں بیچ بربادی کے آلات پر یہ خوفناک حد تک وسیع اخراجات کی بہتی گنگا میں ایک طرف فوجی اشرافیہ اپنے ہاتھ دھوتی ہے تو دوسری طرف سامراجی ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ اس سامراجی صنعت کی شرح منافع سب سے بلند ہے۔ ان خریداریوں اور معاہدوں میں ریاستوں کی عسکری اور سویلین افسر شاہی اور حکام کے اپنے کمیشن اور کک بیکس ہوتے ہیں۔
واشنگٹن کی ’اٹلانٹک کونسل‘ نے بھی اپنی تازہ رپورٹ ’’ہندوستان اور پاکستان: تنازعے کی متوقع لاگت‘‘ میں تنبیہ کی ہے کہ ’’ہندوستان اور پاکستان میں بھاری فوجی اخراجات دونوں ممالک کے عام شہریوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔ بلند دفاعی اخراجات اور جنوب ایشیائی معیشت کی کم تر جڑت کی قیمت غربت میں رہنے والے ادا کر رہے ہیں…‘‘ ہندوستان اور پاکستان کا شمار فوجی ساز و سامان پر سب سے زیادہ اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی سہولیات پر کم ترین ریاستی اخراجات کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ’سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کے درآمدکنندگان کی فہرست میں ہندوستان سب سے اوپر ہے اور 2010ء سے 2014ء تک ہتھیاروں کی کل عالمی درآمد میں اس کا حصہ 15 فیصد تھا۔ اسی عرصے میں ہتھیار درآمد کرنے والے دس میں سے پانچ بڑے ممالک جنوب ایشیا میں تھے: چین(5 فیصد)، پاکستان (4 فیصد)، جنوبی کوریا (3فیصد) اور سنگاپور (3 فیصد)۔ درآمدات اس عالمی اسلحہ ساز صنعت کا صرف ایک رخ ہیں۔
ہندوستان کے سب سے بڑے میڈیا اداروں میں شامل دائیں بازو کے ’این ڈی ٹی وی‘ (NDTV) نے لکھا ہے، ’’دنیا کے اسلحہ ساز و، خوشی مناؤ۔ ہندوستان کی حکومت تمہاری وفادار ساتھی ہے۔ صرف یہی حکومت نہیں بلکہ پچھلی والی بھی۔ دفاع پر خرچ ہونے والا پیسہ اگر علاج، تعلیم، سستی رہائش اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا؟ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے وسیع دفاعی اخراجات پر قومی میڈیا میں کتنی کم بحث ہو رہی ہے۔ درحقیقت فوجی بجٹ میں کمی کے حق میں دلائل دینے والے اداریوں سے کہیں زیادہ ادارئیے ایسے ملیں گے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارتی فوج کو ’’تجدید‘‘ اور نئی ٹیکنالوجی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔یومِ جمہوریہ پر باراک اوباما جیسے مہمانوں کے سامنے جدید اسلحے سے نظارہ تو شاندار بن جاتا ہے لیکن شاید وقت آگیا ہے فوجی قوت کی اس نمود ونمائش سے ہٹ کر دیکھا جائے کہ کیا موت کی مشینوں پر اتنی فضول خرچی کی کوئی ضرورت بھی ہے؟‘‘
پچھلی ڈھائی دہائیوں کا تجربہ بالکل واضح کرتا ہے کہ اتنے وسیع دفاعی اخراجات نے ہندوستان اور پاکستان کو انسانوں کے لئے کوئی محفوظ اور بہتر جگہ نہیں بنایا ہے۔ کارگل کے بعد سے دونوں جوہری ہمسائیوں کے درمیان کوئی براہِ راست فوجی تصادم نہیں ہوا ہے۔ بیرونی خطرے کی لفاظی اور نعرہ بازی کے باوجو د کھلی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر بھی فوجی اخراجات میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غیرریاستی پراکسیوں کی مداخلت، میڈیائی جنگوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات جیسی چالبازیاں دانستہ طور پر ایک ایسے نظام کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے کی جاتی ہیں جو سماجی زندگی کا گلا گھونٹ رہا ہے اور حکمران طبقات کے جبر و وحشت کو شدید تر کر رہا ہے۔ جنگی جنون اور رجعت اور ابھارنے اور عوام کو محکوم و مغلوب رکھنے کے لئے مذہبی بنیاد پرست گروہ دونوں طرف کے حکمرانوں کے بہترین ہتھیار بن چکے ہیں۔
مودی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہندو شاونزم اب ’جمہوری‘ اور ’سیکولر‘ بھارت میں دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ پاکستان میں 70ء اور 80ء کی دہائیوں کی رجعتی اور وحشی ضیا آمریت کا ہندوستان میں دوسرا جنم معلوم ہوتا ہے جس نے اِس ملک کا سماجی اور ثقافتی تانہ بانہ ادھیڑ دیا تھا۔ جب ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ میں انتخابی عمل سے ایک بنیاد پرست اور رجعتی حکومت برسر اقتدار آ جائے تو رائج الوقت نظام اور ریاست کا بحران ناگزیر طور پر آشکار ہو جاتا ہے۔
1933ء کے انتخابات میں ہٹلر کا ابھار بھی گہرے معاشی بحران کے ایسے ہی حالات میں ہوا تھا،جب بھوک اور شدید محرومی سے دوچار دنیا کے سب سے جدید جرمن پرولتاریہ کو کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں کوئی انقلابی قیادت فراہم کرنے سے قاصر رہی تھیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی بنیاد پرست حکومت کم از کم جمہوری عمل کے ذریعے برسر اقتدار نہیں آئی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے تاریخی اور نامیاتی بحران کے تحت یہ جمہوریت جس حد تک گل سڑ چکی ہے، ایسے میں مستقبل میں ایسے کسی مشروط امکان کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم 1947ء کے بٹوارے کے بعد سے دونوں ممالک میں کم و بیش ہر جمہوری یا آمرانہ حکومت اس دشمنی اور قومی و مذہبی شاونزم کی لفاظی کا استعمال کرتی رہی ہے۔
جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا، ’’جو تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اسے دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘ تاریخ کے اسباق بالکل واضح ہیں۔ اس متروک نظام کے حکمران طبقات جنگی جنون، حب الوطنی اور مذہبی بنیاد پرستی کو ابھار کر یہی جبر و استحصال کا خونی کھیل جاری رکھیں گے۔ ’دفاعی اخراجات‘ بڑھتے جائیں گے، عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ ہر بنیادی ضرورت اور حق کو نجی شعبے کی منافع خوری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور جاتا رہے گا۔ اگر یہ نظام ایسا ہی تاریک مستقبل دے سکتا ہے تو پھر محنت کش طبقات اور نوجوانوں کے پاس اسے اکھاڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یا تو یہ سرمایہ دارانہ نظام بدلنا ہو گا یا پھر سماج بربریت میں غرق ہو جائے گا۔
متعلقہ: