پاکستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا ایک جائزہ
تحریر: عمران کامیانہ
وسیع پیمانے پر منشیات کے استعمال سے لے کر معصوم بچوں سے جنسی زیادتی، عورتوں پر تیزاب گردی، غیرت کے نام پر قتل، زندہ جلائے جانے اور ’موب جسٹس‘ کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نظام کے بحران نے سماج کو کس قدر تعفن زدہ کر دیا ہے اور عمومی گراوٹ لوگوں کے شعور کو مسخ کر کے کیسی کیسی وحشتوں کو جنم دے رہی ہے۔ آبادی کے نسبتاً کمزور حصوں کی حالت زار کسی بھی سماج کی عمومی کیفیت کا پتا دے رہی ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی ماضی قریب کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک، علاج اور زندگی کے تحفظ وغیرہ کے حوالے سے حالات نہ صرف بچوں بلکہ خواتین اور بزرگوں کے لئے بھی بدترین ہیں۔
بچوں کی تقریباً نصف تعداد کی ذہنی و جسمانی نشونما نامکمل ہے، پچاس فیصد خواتین خون، نمکیات اور وٹامنز کی کمی کا شکار ہیں، 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام سے دوچار ہے اور اس سے بھی زیادہ تعداد کسی نہ کسی طرح کا آلودہ یا مضرِ صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ 82 فیصد پائپ لائنوں کا پانی جراثیم یا مضر صحت مادوں سے آلودہ ہے۔
ڈھائی کروڑ بچے بچیاں سکولوں سے باہر ہیں، 43 فیصد سرکاری سکولوں کی عمارات انتہائی خستہ حال یا ناقابلِ استعمال ہیں، ناخواندگی کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ان حالات میں حکومتوں کی جانب سے جی ڈی پی کا 0.91 فیصد صحت اور 1.2 فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے! سرکاری شعبے کی شدید انڈر فنڈنگ اور زبوں حالی کی اس حالت میں 78 فیصد آبادی نجی شعبے سے علاج خریدنے پر مجبور ہے۔ یہی حال تعلیم کے شعبے کا بنتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل انوویشن کے لحاظ سے پاکستان 129 ممالک کی فہرست میں 110ویں نمبر پر ہے۔ پچھلے پانچ سال میں تقریباً 28 لاکھ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بہتر کیرئیر کی تلاش میں ملک چھوڑ گئے ہیں۔ سرکاری طور پر 78 ملین آبادی 2 ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے جبکہ کُل 193 میں سے 182 ملین لوگ پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک میں 145797 ڈاکٹر، 10693 ڈنٹسٹ اور صرف 55 ہزار نرسز ہیں جبکہ کم از کم ضرورت 194201 ڈاکٹروں، 159307 ڈنٹسٹوں اور 14 لاکھ نرسز کی ہے۔
وزارت قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) کے غذائیت ونگ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6 سے 23 ماہ تک کے تقریباً 80 فیصد بچے متوازن غذا حاصل نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غذائیت سے بھرپور خوراک کی فی گھر قیمت ایک لاکھ 4 ہزار سے 1 لاکھ 71 ہزار 30 روپے سالانہ کے درمیان ہے اور غذائی اشیا کا بازار میں دستیاب ہونا مسئلہ نہیں لیکن جب تک فی گھر آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا اس صورتحال میں تبدیلی مشکل ہے۔
بیروزگاری کے جو اعداد و شمار حکومتوں کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں وہ کسی بیہودہ مذاق سے کم نہیں ہیں۔ سرکاری تخمینے کے 6 فیصد کے برعکس غیر سرکاری اندازوں کے مطابق بیروزگاری کی حقیقی شرح 50 فیصد تک ہے۔ اگر نیم بیروزگاری اور پوشیدہ بیروزگاری کو بھی شمار کیا جائے تو یہ شرح اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔
آلودگی کا مسئلہ بھی شدید ہوتا چلا جا رہا ہے جس کی ایک واضح علامت بڑے شہروں میں ’سموگ‘ کا معمول بن جانا ہے۔ لیکن صرف فضائی آلودگی ہی نہیں ہے بلکہ زمینی آلودگی، صوتی آلودگی، آبی آلودگی اور بڑے شہروں میں روشنیوں کی آلودگی (Light Pollution) نے زندگیوں کو ایک کرب اور تعفن کا شکار بنا دیا ہے۔ دیہی علاقوں اور صحت افزا مقامات پر بھی ہر طرف شاپر ہی شاپر بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان آلودگی کا شکار چوتھا بدترین ملک ہے جہاں عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً 60 ہزار افراد آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آلودگی اور ماحولیاتی تباہی کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر انقلابی تبدیلی کا متقاضی ہے اور ایک مختلف رُخ سے عالمی سوشلزم کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
مجموعی طور پر انسانی ترقی کے اعشارئیے (HDI)، جس میں اوسط عمر، شرح خواندگی اور فی کس آمدن کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، کے لحاظ سے پاکستان کُل 189 ممالک کی فہرست میں ایک درجہ مزید گراوٹ کیساتھ 150 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ یوں اس سماج کی محرومیاں اتنی گہری اور مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ ایک سطحی نظر سے بھی واضح ہونے لگتا ہے کہ اس بحران زدہ نظام کی معیشت میں انہیں حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن گہرائی میں معیشت اور سماجی عوامل سے اس کے تعلق کا جائزہ لینے سے پہلے پاکستان کے ’زرعی ملک‘ہونے کے عام تاثرکی درستی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ لیبر فورس کا تقریباً 42 فیصد آج بھی زراعت سے وابستہ ہے لیکن جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ جو 1947ء میں 53 فیصد تک تھا آج صرف 18 فیصد رہ چکا ہے۔ جبکہ صنعت کا حصہ تقریباً 21 فیصد اور سروسز کا حصہ 60 فیصد ہے جن میں لیبر فورس کا بالترتیب 22 فیصد اور 35 فیصد کھپ رہا ہے۔
اسی طرح ملک کی ڈیموگرافی میں آنے والی تبدیلیاں بھی بہت تیز ہیں اور اس وقت تقریباً 21 کروڑ آبادی کا 37 فیصد شہروں میں آباد ہے۔ ملک کے پسماندہ علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ حصولِ تعلیم کے لئے شہروں کا رُخ کرنے والے نوجوانوں کے علاوہ اس رجحان کی ایک بنیادی وجہ چھوٹے قطعات اراضی کی تقسیم در تقسیم اور دیہی علاقوں میں زیادہ شرح پیدائش کے نتیجے میں زراعت میں افرادی قوت کھپانے کی گنجائش کا مسلسل کم ہونا بھی ہے۔ روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف تیز نقل مکانی کے پیش نظر اربنائزیشن کی شرح 3 فیصد ہے اور اگلے تقریباً دس سال میں پاکستان کی آبادی کی اکثریت شہروں میں آباد ہو گی۔
علاوہ ازیں پچھلی تقریباً ایک دہائی میں ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کے تیز پھیلاؤ سے موبائل فون کے استعمال میں ہوشربا اضافے، انٹرنیٹ کی فراہمی اور سوشل میڈیا وغیرہ نے دیہی علاقوں کو ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی رجحانات سے زیادہ باخبر کر دیا ہے۔ ان ذرائع نے بین الاقوامی میڈیا تک بھی لوگوں کی رسائی آسان بنا دی ہے۔ علاوہ ازیں جو لوگ جدید ذرائع ابلاغ کا براہِ راست استعمال نہیں کرتے اُن تک بھی منہ زبانی اطلاعات پہنچتی رہتی ہیں۔ ماضی کے برعکس آج کوئی بھی اہم عالمی یا ملکی خبر چند منٹوں میں دیہی علاقوں سمیت پورے ملک میں پھیل جاتی ہے۔ یوں ریاستی سینسر شپ کی صلاحیت بھی خاصی کم ہو چکی ہے۔
لیکن ملک کے بوسیدہ سماجی اور فزیکل انفراسٹرکچر کے پیشِ نظر اربنائزیشن کا عمل تضادات سے لبریز ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے چند شہروں کی آبادیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ آبادیوں کے ساتھ شہر بھی پھیلتے جا رہے ہیں۔ اب تو بڑے شہر بہت سے نواحی قصبوں، کچی آبادیوں اور چھوٹے شہروں کو بھی نگلنے لگے ہیں۔ اربن پلاننگ ناپید ہے۔ اگر کہیں کاغذوں پر منصوبہ بندی کی بھی جاتی ہے تو سرکار کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ اس پر عمل درآمد ہو سکے۔ رہی سہی کسر بدعنوان سرکاری مشنری اور پراپرٹی مافیا کا گٹھ جوڑ پوری کر دیتا ہے۔ نت نئی نجی کالونیاں زرخیز زرعی اراضی کو ہڑپ کرتی جا رہی ہیں۔ پانی کی فراہمی اور نکاس کے مسائل گھمبیر ہو رہے ہیں۔ کراچی جیسے شہروں میں کوڑے کے ڈھیر ایک اذیت بن چکے ہیں ۔ رہائش کی قیمتیں آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ٹریفک جام، حادثات، افراتفری اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔ روزگار کے مواقع طلب سے کہیں کم ہیں اور دیہی علاقوں سے آنے والے محنت کش انتہائی ذلت آمیز حالات اور قلیل اجرتوں پر اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ بہت سے مزدور باقاعدہ فاقے کر کے پیچھے گھروں میں بھیجنے کے لئے کچھ پیسے بچاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں پر گنجائش سے کئی گنا زیادہ دباؤ ہے۔ نجی تعلیم و علاج کے حصول میں پونجیاں لُٹ جاتی ہیں۔ غرضیکہ افراتفری کا ایک عالم ہے جس میں سارے نظام زندگی کا دم گھٹ رہا ہے۔
اِن مسائل سے نبٹنے کے لئے ٹھوس پلاننگ سے درجنوں نئے شہر آباد کرنے کی ضرورت ہے۔بیہودہ اور بے ہنگم ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی ری سٹرکچرنگ کرنا ہو گی۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں نئے سکول اور ہسپتال درکار ہیں۔ رہائش کا مسئلہ کروڑوں رہائشی یونٹوں کی تعمیر کا متقاضی ہے۔ صاف پانی کی فراہمی اور نکاس کے جدید نظام استوار کرنے کے لئے پورے کے پورے شہر اکھاڑ کر ازسرنو تعمیر کرنے ہوں گے۔ لیکن اِس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام میں اتنے بڑے پیمانے کی اکھاڑ پچھاڑ اور تعمیر کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ میٹرو ٹرین اور اورنج لائن جیسے نمائشی منصوبے ہی بن سکتے ہیں اور انہیں بنانے والے بھی کم از کم اتنے سیانے ضرور ہیں کہ اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔
’پڑھے لکھے‘ طبقات کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کے انتہائی محدود افق کے پیش نظر نظام کے نامیاتی یا ’سسٹمیٹک‘ تضادات کو بھی محض انتظامی مسائل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی لئے ایسے مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں جو ’گڈ گورننس‘ کے ذریعے سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔
’گڈگورننس‘ کی اصطلاح سب سے پہلے 1980ء کی دہائی میں ورلڈ بینک نے افریقہ سے متعلق تجزئیے میں متعارف کروائی تھی جس کے مطابق پسماندہ ممالک کے مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ بری گورننس ہے۔ گویا ان ممالک میں سامراج اور اس کے گماشتہ مقامی حکمران طبقات کی لوٹ مار کا مسئلہ نہیں ہے، وسائل کی تقسیم کا کوئی ایشو نہیں، بس ’اداروں‘ کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس طرح بڑی عیاری سے نظام کو چلانے کے کینشین یا نیولبرل طریقوں کی بات کو بھی بحث سے خارج کر دیا گیا۔
لیکن یہاں گنتی کے جو چند ایک سنجیدہ بورژوا معیشت دان ہیں وہ بڑی حد تک اپنے نظام کے بحران کی شدت اور نوعیت سے واقف ہیں۔ بالخصوص 2008ء کے بعد یہاں کی پہلے سے نحیف معیشت کا بحران اس قدر شدید ہوتا گیا ہے کہ حکمران طبقات کے دانشور اور تجزیہ نگار اس طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ چنانچہ میڈیا پر سب سے کم بحث معیشت جیسے بنیادی ایشو پر ہوتی ہے اور اسے بھی کرپشن کیساتھ گڈ مڈ کر کے انتہائی بھونڈا اور لایعنی بنا دیا جاتا ہے۔
اس حقیقت پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں کہ سرکار جو پالیسیاں بناتی ہے اور بجٹ پیش کرتی ہے اُن کی عملداری کُل معیشت کے ایک انتہائی قلیل حصے پر ہی ہوتی ہے کیونکہ باقی ماندہ وہ کالی معیشت ہے جو سرکاری دستاویزات اور اعداد و شمار سے ماورا ہے۔
اس کالی معیشت کے ہجم ماپنے کے لئے بہت سے اندازے وقتاً فوقتاً لگائے جاتے ہیں لیکن انتہائی محتاط اور مستند سمجھے جانے والے ماہرین کے مطابق بھی کُل معیشت کا 70 فیصد کالی معیشت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ کالی معیشت‘ سرکاری اعداد و شمار میں نظر آنے والی معیشت کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار (GDP) سرکاری طور پر بتائے جانے والے تقریباً 300 ارب ڈالر سے دو سے تین گنا ہے۔
نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام بلکہ افسر شاہانہ منصوبہ بند معیشتوں میں بھی کالی معیشت بالعموم سفید معیشت کے چھوڑے ہوئے خلا پُر کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ اتنے وسیع حجم کی حامل ہو جائے تو سفید معیشت پر حاوی ہو کر اس کی حرکیات کا تعین کرنے لگتی ہے۔ اس معیشت کا وسیع حصہ ہر طرح کی کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی، ٹیکس چوری اور منشیات جیسے دھندوں پر مشتمل ہے۔ یہاں سمگلنگ اور ڈرگ ٹریفکنگ جیسی قانونی طور پر ناجائز سرگرمیوں کے حجم کا تخمینہ پانچ ہزار ارب روپے تک ہے لیکن یہ دیوہیکل کالی معیشت ساری کی ساری ایسے جرائم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ٹھیلے والے اور پرچون فروش سے لے کر کنسٹرکشن اور بڑے پیمانے کے صنعت تک ہر ایسی سرگرمی جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے اِس کالی معیشت میں شمار ہوتی ہے۔ جیسا کہ مقداری تناسب سے بھی ظاہر ہے ملک کا اکثریتی روزگار اسی معیشت سے وابستہ ہے لیکن ان زیادہ تر عارضی نوکریوں میں استحصال کی شدت کہیں زیادہ ہے۔
یوں اِس کالی معیشت کا اپنا ایک سائیکل ہے جو نہ صرف یہ کہ سفید معیشت پر حاوی ہو چکا ہے بلکہ اس کے بغیر منڈی سکڑ جائے گی اور ساری معیشت ہی دھڑام ہو جائے گی۔ لیکن اِس معیشت سے وابستہ حکمران طبقات اور سیاسی و ریاستی اشرافیہ کے اپنے مالی مفادات سے قطع نظر بالفرض ریاست چاہے بھی تو اسے سرکاری لکھت پڑھت اور کنٹرول میں لانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان سرگرمیوں کا وجود ہی کسی قسم کے چیک اینڈ بیلنس اور ٹیکسیشن سے ماورا ہونے سے مشروط ہے۔ مثلاً مسلم لیگ کی حکومت اپنے دور میں تقریباً ہر سال ایک ایمنسٹی سکیم متعارف کرواتی رہی ہے۔ ان سکیموں سے فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگوں نے اپنا کالا دھن سفید بھی کیا لیکن مجموعی حاصلات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رہی ہیں۔
اتنے بڑے پیمانے کے کالے دھن کیساتھ کرپشن اِس نظام کی خرابی کی وجہ نہیں بلکہ اس کی ناگزیر پیداوار اور اس کے وجود کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ کرپشن پر ’قابو‘ پانے کے لئے بنائے گئے ادارے نہ صرف خود کرپٹ ہیں بلکہ کرپشن کے آلہ کار بن چکے ہیں جبکہ ’ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ عدلیہ ہے! یوں سماج کی رگوں میں دوڑتے اِس کالے دھن نے صرف اپنی دھونس اور دھاندلی کی لمپن سیاست تشکیل دی ہے، طرزِ زندگی، بودوباش اور ثقافت کو مسخ کیا ہے بلکہ ریاست کو بھی اپنے تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ چنانچہ کوئی ایک ادارہ ہو یا پوری ریاست، ایک کرپٹ نظام کو ’ٹھیک‘ طریقے سے چلانے کی کوشش کسی بہتری کی بجائے مزید مسائل ہی پیدا کرتی ہے۔ بدعنوانی کے ریٹ بڑھنے لگتے ہیں یا پھر کرپشن کے تیل سے جو زنگ آلود مشینری کسی نہ کسی طرح چل رہی ہوتی وہ بھی رُک جاتی ہے۔ ایسے حالات انقلابی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں جن کے تحت پورے کے پورے نظام اکھاڑ کر نئے نظام کھڑے کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن اس کالی معیشت نے کینسر کی طرح پھیل کر جہاں ایک بے ترتیب اور پرانتشار سماجی ارتقا کو جنم دیا ہے وہاں سرکاری معیشت روبہ زوال ہوتی چلی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری سے معیشت کی شرح نمو بلند ہو کر 5.8 فیصد تک گئی ہے لیکن ایک تو یہ زیادہ تر ’جاب لیس گروتھ‘ ہے جس میں بہت زیادہ نیا روزگار پیدا نہیں ہوا ہے۔ دوسرا یہ مستحکم نہیں ہے کیونکہ ٹھوس بنیادوں سے عاری ہے۔ لہٰذا لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ علاوہ ازیں اس سے معیشت کے تضادات دبنے کی بجائے مزید بھڑک اٹھے ہیں۔ مثلاً پچھلے پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں کے ہجم میں 30 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت ملکی معیشت ریکارڈ داخلی و خارجی خساروں سے دوچار ہے اور بورژوا تجزیہ نگاروں کے تاثر کے برعکس بحران کے دہانے پر نہیں کھڑی بلکہ سنگین بحران میں گھری ہوئی ہے۔ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 2018ء میں تجارتی خسارہ 37.7 ارب ڈالر رہا ہے جو پچھلے مالی سال سے 16 فیصد زیادہ تھا۔ 2008ء کے بعد تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آتا ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً 2014ء میں یہ خسارہ 20 ارب ڈالر، 2015ء میں 22.2 ارب ڈالر، 2016ء میں 23.9 ارب ڈالر، 2017ء میں 32.5 ارب ڈالر اور پھر 2018ء میں 37.7 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
اس تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ تکنیکی پسماندگی اور بجلی کی زیادہ قیمتوں جیسے عوامل کی وجہ سے یہاں پیدا ہونے والی زرعی و صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں چین جیسے ممالک کی سستی اجناس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کے لحاظ سے پاکستان کُل 137 ممالک کی فہرست میں 115 ویں نمبر پر ہے۔ باقی دنیا کی طرح چین کی سستی اجناس کی یہاں کی مقامی منڈی پر یلغار سے مقامی صنعت بیٹھ رہی ہے اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سی پیک کی شروعات کے بعد سے بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد سے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں چین کیساتھ تجارت کا خسارہ 2.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.66 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کے لئے پچھلے مالی سال کے دوران روپے کی قدر میں 15 فیصد کمی سے کوئی خاطر خواہ افاقہ تو نہیں ہو پایا لیکن حکومت کے قرضوں میں 1.1 ہزار ارب روپے کا اضافہ ضرور ہو گیا۔ نئے مالی سال کے آغاز کے بعد سے روپے کی قدر میں گراوٹ کو شامل کیاجائے تو مجموعی گراوٹ 22 فیصد بنتی ہے۔
برآمدات میں خاطر خواہ بہتری کے لئے جتنے بڑے پیمانے پر روپے کی قدر میں کمی درکار ہے اس سے مہنگائی اور قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا یوں اس طریقہ کار کے اپنے تضادات ہیں۔ علاوہ ازیں ایسا کوئی اقدام وقتی نتائج ہی دے سکتا ہے۔
ملکی جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ 7.6 فیصد ہے۔ یہ شرح درمیانی آمدن والے ممالک کی اوسط سے بھی 17 فیصد کم ہے۔
بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے گزشتہ مالی سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی 18 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو اس سے پچھلے مالی سال سے 44.7 فیصد زیادہ ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا رجحان بھی مذکورہ بالا تجارتی خسارے کے رجحان سے منسلک ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق یہ خسارہ ’’ناقابلِ برداشت سطح‘‘ تک پہنچ چکا ہے۔
ایسے میں بیرون ملک مقیم محنت کشوں کے ترسیلاتِ زر ہی ہیں جنہوں نے کرنٹ اکاؤنٹ کو کچھ سہارا فراہم کیا ہوا ہے۔ یہ رقم گزرنے والے مالی سال میں معمولی اضافے کیساتھ 19.6 ارب ڈالر رہی ہے لیکن پچھلے پانچ سال سے تقریباً اسی سطح پر کھڑی ہے۔ علاوہ ازیں خلیجی ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں، جن میں تیل کی معیشتیں بیٹھ رہی ہیں اور غیر ملکی محنت کشوں کو فارغ کیا جا رہا ہے، کے پیش نظر آنے والے دنوں میں یہ ترسیلاتِ زر بھی گراوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
فارن ڈائریکٹ سرمایہ کاری، جسے ہر کوئی معیشت کی بحالی کا نسخہ کیمیا قرار دیتا ہے، کم و بیش آٹھ سال پہلے کی سطح پر کھڑی ہے اور 2008ء کے بعد عمومی گراوٹ کا شکار ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران اور اِس ملک کے عدم استحکام کے پیش نظر اس میں کسی بڑے اضافے کے امکانات آئندہ بھی نہیں ہیں بلکہ تازہ رپورٹوں کے مطابق اس میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔ اکتوبر 2018ء میں بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ سال اکتوبر کی نسبت 55 فیصد کمی کیساتھ صرف 161.2 ملین ڈالر رہی ہے۔
ایسے میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر کے آس پاس منڈلا رہے ہیں جو شاید ڈیڑھ مہینے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔
داخلی سطح پر بجٹ خسارہ بے قابو ہو کر 2.26 ہزار ارب روپے (جی ڈی پی کا 6.6 فیصد) تک پہنچ چکا ہے۔ نواز لیگ کی حکومت نے بجٹ خسارے کو 3.5 فیصد تک لانے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کروائی تھی لیکن نشانے اہداف سے بہت دور بیٹھے ہیں۔
یہاں میڈیا پر یہ جھوٹ بہت ڈھٹائی سے بولا جاتا ہے کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ حالانکہ پاکستان میں امیروں کے سوا سب لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک میں چارٹرڈ اکاؤٹنسی کے ادارے (ICAP) کے مطابق حکومتی آمدن کا 88.79 فیصد عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ صرف 11.21 فیصد براہِ راست ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان جیسے ممالک میں بھی حکومتی آمدن میں براہِ راست ٹیکسوں کا حصہ بالترتیب 46.33 اور 33.45 فیصد ہے۔
2016ء میں رجسٹرڈ تقریباً 72 ہزار فرموں میں سے نصف سے بھی کم نے ٹیکس ریٹرن فائل کیے۔ اور ان میں سے بھی نصف نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ یوں کارپوریٹ ٹیکسوں کی نمو مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور حکومتوں کا زیادہ انحصار پھر عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکس لگانے پر ہے۔
لیکن سرمایہ دار طبقے کو اتنی چھوٹ کے باوجود نجی سرمایہ کاری روبہ زوال ہے۔ جی ڈی پی میں سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کی شرح صرف 11 فیصد ہے اور اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔ اور جو سرمایہ کاری ہو بھی رہی ہے وہ زیادہ تر رئیل اسٹیٹ اور مالیاتی سٹہ بازی کے دھندوں میں ہے۔
نتیجتاً ٹیکس سے جی ڈی پی کی شرح پچھلے پانچ سالوں کے دوران 9.8 سے 12.4 فیصد کے درمیان جھولتی رہی ہے جو دنیا کی کم ترین ٹیکس آمدنوں میں شمار ہوتی ہے۔ جبکہ مجموعی حکومتی آمدن کی جی ڈی پی سے شرح ترقی پذیر ممالک میں کم ترین ہے۔
ایسے میں اِن خساروں کو بھرنے کے لئے پھر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا راستہ ہی بچتا ہے جو بے دریغ لیے گئے ہیں اور لیے جائیں گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی اگست 2018ء کی رپورٹ کے مطابق حکومتی قرضہ اور دوسری واجب الادا رقوم (Liabilities) پچھلے پانچ سال میں 13.5 ہزار ارب روپے یا 82.8 فیصد اضافے کیساتھ 30 ہزار ارب روپے ہوچکی ہیں جو جی ڈی پی کا 87 فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے حکومتی قرضہ 25 ہزار ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد بنتا ہے۔ اس قرضے میں پانچ سال کے دوران 10.6 ہزار ارب روپے یا 74.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اِن قرضہ جات، جن میں سے بیرونی قرضہ پچھلے صرف ایک سال میں 14 فیصد اضافے کیساتھ 95 ارب ڈالر ہے، کی ادائیگی میں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق روزانہ 6 ارب روپے صرف ہو رہے ہیں۔
لیکن قرضوں کی کہانی صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ توانائی کے شعبے کے خسارے اور قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ایک بار پھر بڑھتے بڑھتے 1.18 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ نواز لیگ کی حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی آئی پی پیز کو 500 ارب روپے کی ادائیگیاں کی تھیں۔ لیکن بجلی کی پیداوار کا یہ نجی شعبہ ایک ایسا بلیک ہول بن چکا ہے جس میں غریب عوام کے ہزاروں ارب روپے غرق کیے جا رہے ہیں۔ اس کی بھوک مٹنے کا نام نہیں لیتی۔
سی پیک کو گزشتہ عرصے میں ہر مسئلے کا حل قرار دیا جاتا رہا ہے اور سرکاری پراپیگنڈا کی ایک یلغار تھی کہ بس ملک کی تقدیر بدلنے کو ہے۔ لیکن اِس سلسلے میں ہم نے جو تناظر اپنے پرچوں اور دستاویزات میں پیش کیا اسے وقت اور حالات درست ثابت کر رہے ہیں۔ وقت کیساتھ خود بورژوا میڈیا میں ایسے تجزئیے اور رپورٹیں تواتر کیساتھ آ رہی ہیں جن میں تسلیم کیا جا رہا ہے یہ سارا منصوبہ بالواسطہ یا براہِ راست طور پر قرض پر مبنی ہے۔ لیکن یہ تجزئیے بھی قیاس آرائیوں کا درجہ رکھتے ہیں جس کی وجہ ہے کہ ابھی تک سی پیک کے تحت ہونے والے معاہدوں کی مکمل تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئی ہیں۔ مثلاً ابھی تک صرف ایک سرکاری دستاویز پچھلے سال ’’لانگ ٹرم پلان‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ہے جس میں معاشی راہداری کے منصوبوں کا عمومی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری یا قرضوں کی شرائط، لیبر بھرتی کرنے کی پالیسی یا ٹھیکے دینے کے طریقہ کار سے متعلق کوئی حتمی معلومات نہیں ہیں۔
سی پیک کا بڑا حصہ توانائی کے منصوبوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن میں چینی کمپنیاں 35 ارب ڈالر کی ’سرمایہ کاری‘بجلی کی پیداوارمیں کر رہی ہیں۔ لیکن یہ سرمایہ کاری پھر انہی شرائط پر ہو رہی ہے جن پر 1990ء کی دہائی کے بعد یہاں تمام انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹ (IPPs) لگائے گئے ہیں اور جن کا خمیازہ ابھی تک عوام بھگت رہے ہیں۔ یعنی ان 35 ارب ڈالر کا 25 فیصد حصہ یہ کمپنیاں ’ایکویٹی‘ کی مد میں لے کر آئیں گی جن پر سرکاری موقف کے مطابق انہیں 17 فیصد سالانہ ریٹرن (ڈالروں میں) دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن 15 فروری 2017ء کو ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونیو الی ایک رپورٹ میں سرکاری دستاویزات کی روشنی میں ہی ان معاہدوں کا کچا چٹھا کھولا گیا ہے جس کے مطابق چینی کمپنیوں کو 27 سے 34 فیصد منافع دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں کوئلہ بھی چین سے ہی درآمد کیا جا رہا ہے۔ 25 فیصد ایکویٹی کے علاوہ باقی 75 فیصد سرمایہ چینی بینکوں سے قرضوں کی صورت میں لیا جائے گا۔ جس پر سود کی شرح عمومی تاثر کے برعکس 2 فیصد نہیں بلکہ 6 فیصد ہے جبکہ انشورنس (جو پھر چینی انشورنس کمپنیاں ہی کریں گی) کی قیمت شامل کی جائے تو ان قرضوں پر 13 فیصد سالانہ ادا کرنا ہوگا۔ بتایا یہی جا رہا ہے کہ یہ ادائیگیاں کمپنیوں کو خود سے کرنا ہوں گی لیکن یاد رہنا چاہئے کہ 1994ء اور 2002ء کی پاور پالیسیوں کی مطابق حکومت پاکستان پلانٹ لگانے کے لئے حاصل کیے گئے قرضوں کی سروسنگ کی مد میں آئی پی پیز کو ماہانہ ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ بالفرض یہ ادائیگیاں چینی آئی پی پیز نے ’’خود‘‘ بھی کرنی ہیں تو یہ پیسہ بھی وہ یہاں سے ہی پورا کریں گی۔ لیکن اس سے ہٹ کر بھی اگر صرف 25 فیصد ایکویٹی پر 34 فیصد منافعوں کو ہی لیا جائے تو یہ رقم تین ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے جو اگلے پچیس سے تیس سال تک ملک سے باہر منتقل کی جائے گی۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق آزادانہ ذرائع سے ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے بھی کی ہے۔ یہ جریدہ اپنے مضمون ’’چین کا عالمی تعمیراتی غل غپاڑہ‘ پاکستان میں مسائل کا شکار‘‘ میں دلچسپ تبصرہ کرتا ہے کہ ’’منصوبے کے آغاز کے تین سال بعد پاکستان قرضوں کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی وجہ اورنج لائن جیسے منصوبوں کے لئے حاصل کیے جانے والے چینی قرضے اور درآمدات ہیں… 70 ممالک پر مبنی چین کے ’’روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے‘‘ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے امریکی مارشل پلان سے تشبیہ دی جا رہی ہے… چین مشرق سے مغرب تک کے نئے تجارتی راستے کھولنا چاہتا ہے، اپنی کمپنیوں کے لئے کاروبار پیدا کرنا چاہتا ہے اور اپنا سٹریٹجک اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن جہاں بعد از جنگ کے یورپ میں امریکیوں نے مالی امداد کا استعمال کیا تھا وہاں چین زیادہ تر غیرشفاف قرضے دے رہا ہے جو اکثر چینی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے سے مشروط ہوتے ہیں۔ پاکستان اب اُن کئی ممالک میں شامل ہے جو بیشمار چینی قرضے لینے کے مالیاتی اور سیاسی مضمرات سے نبردآزما ہیں… نئی حکومت کو ممکنہ طور پر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ لینا پڑے گا۔ بیل آؤٹ کی شرائط میں قرض لینے اور اخراجات کرنے پر پابندیاں بھی شامل ہوں گی جن کے پیش نظر پاکستان کو سی پیک پروگرام کو بھی مختصر کرنا پڑے گا۔ یہ چین کے لئے بڑی خجالت کی بات ہوگی جو اپنے منصوبے کو 20 کروڑ لوگوں کے اس ملک کے لئے ’گیم چینجر‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ملائشیا، جو پاکستان کے بعد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ قرضوں کا دوسرا بڑا وصول کنندہ ہے، نے نئی حکومت کے تحت 20 ارب ڈالر کے چینی ریلوے پراجیکٹ پر کام روک دیا ہے۔ برما بھی 10 ار ب ڈالر کے چینی پورٹ پراجیکٹ پر دوبارہ مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے۔ نیپال نے نومبر کے بعد سے دو چینی ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کے منصوبے روک دئیے ہیں… چین کیساتھ بات چیت میں شامل ایک سینئر پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ’مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ پیسہ واپس کیسے ہو گا۔‘پاکستان چین سے بیل آؤٹ لینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ چینیوں نے پہلے ہی ایمرجنسی فنڈ کی مد میں 3 ارب ڈالر کمرشل شرح سود پر دئیے ہیں۔ چینی بیل آؤٹ سے اُن کا منصوبہ تو چلتا رہے گا لیکن ایک پریشان کن مثال قائم ہو جائے گی۔ (بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پیچھے) منطق یہ ہے چینی بینکوں کو اس سے زیادہ منافعے دلوائے جائیں جو وہ اپنے ملک میں حاصل کر سکتے ہیں اور چین کی اضافی صنعتی صلاحیت کو بیرونِ ملک بروئے کار لایا جائے۔ لیکن کچھ چینی بینکار اور حکام اب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے مالیاتی خطرات کے بارے میں زیادہ پریشان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو دی جانے والی تازہ رہنمائی میں چین کی ٹیکس انتظامیہ نے تنبیہ کی ہے کہ پاکستان کی قرضے واپس کرنے کی سکت ’انتہائی کم‘ ہے… چینی قرضے واپس نہ کر سکنے والی سری لنکن حکومت نے ہنبنٹوٹا کی بندگاہ ایک چینی ریاستی کمپنی کو 99 سال کی لیز پر دے دی ہے۔‘‘
پاکستان کے معاملے پر چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک اہم وجہ یہی تناظر ہے کہ چینی قرضے واپس نہ کر سکنے کی صورت میں سری لنکا کی طرز پر گوادر یا تذویراتی طور پر کسی اور حساس مقام کو چین اپنے قبضے میں لیتا ہے تو خطے میں امریکہ کی سفارتی اور سٹریٹجک زبوں حالی مزید گہری ہو جائے گی۔ خلیج فارس کے کلیدی راستے پر چینی بحریہ کی تنصیبات امریکہ کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی جہاں مالیاتی اور سفارتی دباؤ بڑھا رہے ہیں وہاں ’دوبارہ‘ دوستی کے اشارے بھی دے رہے ہیں۔ یہاں کی اسٹیبلشمنٹ فی الوقت دو سامراجی طاقتوں کی اس چپقلش کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
ملک کے شدید اقتصادی بحران کی کیفیت میں سعودی حکمرانوں (جو خود شدید معاشی بحران کا شکار ہیں اور قرضے لے رہے ہیں) کی طرف سے قرضوں کی شکل میں ملنے والی ’’امداد‘‘ خاصی کٹھن شرائط سے مشروط ہے۔ ایسے میں نواز شریف کی یمن میں عدم مداخلت کی پالیسی، جو اس کی سزا بن گئی تھی، کو عمران خان کے ذریعے اُلٹانے اور ایران سے کشیدگی میں پاکستان کی حمایت اپنے پلڑے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ایران بھی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کی شمولیت جیسے اقدامات کر رہا ہے۔
یوں سب کچھ اتنا شفاف اور سیدھا نہیں ہے جیسا کہ تاثر دیا جاتا ہے۔ چینی کمپنیوں کی لوٹ مار کی وجہ سے تازہ رپورٹوں کے مطابق سی پیک کے تحت لگائے جانے والے بجلی گھروں (جن سے ’’سستی‘‘ بجلی پیدا کرنے کا بہت شور تھا) سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 40 فیصد زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گردشی قرضوں کا مسئلہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے اور یہ قرضے پانچ سال پہلے کے مقابلے میں دو گنا سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔
انفراسٹرکچر کے پراجیکٹ براہِ راست حکومت سے حکومت کو دئیے جانے والے ’رعایتی قرضوں‘ سے بنائے جا رہے ہیں جن پر شرح سود 2 فیصد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہاں بھی سوائے سیمنٹ کے سارا میٹریل، مشینری اور زیادہ تر لیبر بھی چین سے آ رہی ہے۔ ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کے پاس ہیں جو پھر ذیلی ٹھیکے مقامی کمپنیوں کو دیتی ہیں جن سے یہاں کے سرمایہ داروں اور خصوصاً عسکری ٹھیکیداروں کی منافع خوری وابستہ ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ایسی تسلیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ گوادر کو ہنبنٹوٹا نہیں بننے دیا جائے گا جبکہ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ گوادر پورٹ کی 91 فیصد آمدن اگلے 40 سال کے لئے چین کو جائے گی جبکہ صرف 9 فیصد گوادر پورٹ اتھارٹی کے حصے میں آئے گی۔ کم و بیش ایسی ہی صورتحال دوسرے تعمیراتی منصوبوں کی ہے جن میں چینی کمپنیاں کئی دہائیوں تک یہاں سے پیسہ کمائیں گی۔
جہاں تک سی پیک سے روزگار پیدا ہونے کی بات ہے تو آج کی’Capital Intensive‘ سرمایہ کاری کے تحت اول تو بہت زیادہ روزگار پیدا ہی نہیں ہوتا۔ سی پیک کے منصوبوں میں جو مقامی آبادی کو نوکریاں دی بھی گئی ہیں وہ کم اجرتی، دہاڑی دار اور غیرمستقل نوکریاں ہیں۔ بالفرض یہ سرکاری دعوے مان بھی لئے جائیں کہ ایک لاکھ نوکریاں پیدا ہوئی ہیں اور آنے والے سالوں میں آٹھ لاکھ نوکریاں مزید پیدا ’’ہوں گی‘‘ تو بھی یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے کیونکہ پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ نئے نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔
لیکن سی پیک کے حوالے سے بائیں بازو کے حلقوں میں بھی غیرمتوازن موقف اور نظریاتی تذبذب پایا جاتا ہے۔ ایک طرف حکمران طبقات کی ہاں میں ہاں ملانے والی یہ پوزیشن ہے کہ ان منصوبوں سے بہت ترقی اور خوشحالی آ جائے گی اور سارے نہیں تو بہت سے مسائل ضرور حل ہو جائیں گے۔ بالخصوص مرحلہ وار انقلاب اور ابھی تک چین سے خوش فہمیاں وابستہ کرنے والے رجحانات اس موقف کے حامل ہیں۔ اسی طرح یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ چین‘ امریکی سامراج کے مقابلے میں ’کاؤنٹر بیلنس‘ کا کردار ادا کر سکتا ہے جس سے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بھی انتہائی مبہم اور مجرد قسم کی پوزیشن ہے جس میں پراکسی جنگوں کے انتشار اور ہاتھیوں کی لڑائی میں چونٹیوں کے کچلے جانے کی کیفیت کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک مزدور ریاست تو سامراجی قوتوں کی آپسی چپقلش کا فائدہ اٹھا سکتی ہے لیکن ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں حکمران طبقات ایسے حالات کو اپنی لوٹ مار میں اضافے کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ بَلی کا بکرا عوام کو ہی بنایا جاتا ہے۔
ایک دوسری انتہا یہ بھی ہے کہ ایسے منصوبے نہیں بننے چاہئیں یا نہیں بننے دینے چاہئیں جس میں نہ صرف بائیں بازو کی انتہا پسندی اور تنگ نظر قوم پرستی بلکہ اصلاح پسندی جیسے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ اپنی انتہائی شکلوں میں یہ پوزیشن انفرادی دہشت گردی تک جبکہ اصلاح پسندانہ شکل ( جیسا کہ ہندوستانی بائیں بازو کا المیہ ہے) میں سامراج مخالفت کے نام پر ’’قومی بورژوازی‘‘ کی حمایت تک لے جاتی ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر انفرسٹرکچر کی تعمیر اپنے تمام تر تضادات کے باوجود آخری تجزئیے میں ایک ترقی پسندانہ کردار کی حامل ہوتی ہے اور لوگوں کے شعور پر مثبت تبدیلیاں ہی مرتب کرتی ہے۔ بہتر مادی حالات میں سوچ آگے بڑھتی ہے اور آگے کی مانگوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ترقی کے بیچوں بیچ پسماندگی اور بدحالی کا تضاد زیادہ کھل کر واضح ہونے لگتا ہے۔ موٹروے، میٹروبس یا اورنج لائن ٹرین میں روزانہ سستا، تیز رفتار اور آرام دہ سفر کرنے والے لاکھوں عام لوگوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ منصوبے نہیں بننے چاہئیں۔ سب سے بڑھ کر اس نظام میں ہونے والی ہر تعمیر اور ہر ترقی اپنے استحصالی کردار کے باوجود مستقبل کی سوشلسٹ تعمیر کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
لیکن مارکسسٹوں کا کام محنت کش طبقات کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ سب منصوبے حکمران طبقات کے تحفے نہیں ہیں بلکہ اس نظام میں ان کی کئی گنا زیادہ قیمت جبر و استحصال کی شکل میں انہی کی محنت اور خون پسینے سے وصول کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ کیسے ان بڑے منصوبوں کی چکاچوند میں صاف پانی، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محرومی کو دھندلا دیا جاتا ہے۔ جہاں یہ مطالبہ رکھا جانا چاہئے کہ ہر تعمیراتی منصوبے کو عوام کی ضروریات اور مفادات کے مطابق ڈھالا جائے اور تمام پوشیدہ شرائط اور معاہدے منظر عام پر لائے جائیں وہاں ایسے مطالبات کی بنیاد پر عام لوگوں کے سامنے یہ وضاحت بھی کی جائے کہ اس نظام کی حدود میں ایسا کیونکر ممکن نہیں ہے۔
معیشت کی اِس دگرگوں کیفیت کیساتھ یہاں کوئی مستحکم اقتدار قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معیشت اور بالعموم پورے سیٹ اپ میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ حکمران طبقات کے سنجیدہ دانشور مسلسل بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری اور سماجی تضادات کی نشاندہی کر رہے ہیں اور اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے ایسی کسی کوشش سے حکمران طبقات کے اپنے تضادات بھڑک اٹھتے ہیں اور بحران مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
نواز لیگ، جسے یہاں کی پرانی اور بڑی بورژوازی کا سنجیدہ سیاسی نمائندہ گردانا جا سکتا ہے، کی حکومت نے سنجیدگی سے ایسے بہت سے اقدامات کرنے کی کوشش کی جس سے کچھ استحکام پیدا کیا جا سکے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے، کالی معیشت کو قانونی دھارے میں لانے، نجکاری، ہندوستان کیساتھ تجارت کھولنے، ملک کے اندر اور باہر بنیاد پرست پراکسیوں کی پشت پناہی کی پالیسی ختم کرنے، یمن میں فوجیں بھیجنے سے انکار، افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی ترک کرنے اور سب سے بڑھ کر ڈیپ سٹیٹ کو لگام دینے اور ’سویلین بالادستی‘ قائم کرنے کی کوششیں بحیثیت مجموعی نظام میں ایسی لبرل اصلاحات کرنے کی سعی تھی جس سے امن و امان کی صورتحال کچھ بہتر ہو، عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کو کم کیا جا سکے، تجارت کو فروغ دیا جائے اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول قائم کیا جائے۔ نواز شریف یہ سب کچھ کسی انقلابی نیت سے نہیں بلکہ خود اپنے طبقے اور قومی سرمایہ داری کو ٹھوس کردار دینے کی کوشش کے تحت کر رہا تھا۔ لیکن اس سے ڈیپ سٹیٹ کیساتھ جو ٹکراؤ پیدا ہوا اس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
یہ کیفیت ایک بار پھر یہاں کے حکمران طبقات کی تاریخی کمزوری اور ان کی سیاست کے کھوکھلے پن کی غمازی کرتی ہے۔ نواز شریف خود کو واقعی وزیرِ اعظم سمجھنے لگ گیا تھا لیکن حقیقی طاقت کا منبع و ماخذ کہیں اور موجود تھا۔ اس سے یہاں کی بورژوازی کی اصلیت اور اوقات زیادہ بے نقاب ہو گئی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کالے دھن کی سرایت نے طاقتور اداروں کی جو ساخت تشکیل دی ہے اور جس طرح سفید معیشت میں بھی ان کا کردار بڑھتا چلا گیا ہے اس کے پیش نظر وہ اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں سے دستبردار ہونے کو کسی صورت تیار نہیں ہیں۔
اس وقت فوج ملک کی سب سے بڑی مالیاتی اجارہ داری بن چکی ہے جس کی ٹرانسپورٹ اور کنسٹرکشن سے لے کر بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، خوراک، ادویات، تعلیم، علاج، کھاد، نجی سکیورٹی، سٹاک مارکیٹ اور بجلی کی پیداوار تک ہر منافع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل سینیٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن وغیرہ کے تحت درجنوں کاروبار چلائے جا رہے ہیں۔ اس دیوہیکل مالیاتی حجم کیساتھ سیاست سے لے کر ریاست، ثقافت، معاشرت اور صحافت تک ہر شعبے میں اس کی ناگزیر مداخلت بھی شدید ہو چکی ہے۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو وہ نواز لیگ کے ذریعے مزاحمت کی کوشش کر رہا تھا جو کبھی بھی مزاحمتی پارٹی نہیں رہی ہے بلکہ بنیادی طور پر دکانداروں اور تاجروں کی دائیں بازو کی پارٹی ہے جس کا خمیر ہی ضیاالحق کی رجعتی آمریت سے اُٹھا تھا۔ دوسرا یہ کہ مروجہ سیاست کے لحاظ سے اگرچہ نواز شریف اور مریم نے بہت جارحانہ لفاظی کا استعمال کیا، جس کی مثال شاید پنجاب کی حاوی سیاست میں پہلے نہیں ملتی، لیکن ان کے تمام تر نعرے اور لفاظی اِسی نظام کی حدود میں مقید تھی جس میں وسیع تر عوام کے لئے کوئی خاص کشش موجود نہیں تھی۔
اس کے باوجود نواز شریف اورمریم نے بڑے جلسے کیے۔ آبادی کا ایک حصہ، جس میں پیٹی بورژوازی کے علاوہ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتیں بھی شامل تھیں، ان کی طرف متوجہ ہوا۔ جس میں 2013ء کے بعد ہونے والے معاشی پھیلاؤ اور نسبتاً استحکام جیسے عوامل کارفرما تھے۔ لیکن محض ’مظلومیت‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے کمزور اور مبہم نعروں کے ذریعے ایک وقت تک ہی لوگوں کی حمایت یا ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس حمایت اور ہمدری کو جرات مندانہ تحریک اور بغاوت میں بدلنے کے لئے پھر پارٹیاں اور عام لوگوں کی نجات کے انقلابی پروگرام درکار ہوتے ہیں جو ان کے پاس نہیں تھے۔
لیکن اس پوری ایجی ٹیشن کا بیڑا غرق کرنے میں پھر شہباز شریف جیسے مصالحتی عناصر کا بنیادی کردار تھا جنہوں نے سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں نواز شریف اور مریم کے استقبال کے لئے نکلنے والی ریلیوں کو نہ صرف دانستہ طور پر سبوتاژ کیا بلکہ جو لوگ آئے (جن کی تعداد کچھ کم نہیں تھی) انہیں بھی مال روڈ کی سیر کرواتے رہے اور ایئرپورٹ نہ پہنچنے دیا۔ اگر ٹھیک نیت سے اِن ریلیوں کو منظم کیا جاتا تو کم از کم طاقت کا بڑا مظاہرہ کیا جا سکتا تھا، روکے جانے کی صورت میں لاہور اور دوسرے شہروں میں خاصی ایجی ٹیشن کی جا سکتی تھی اور اِس سارے مومینٹم کو آگے انتخابات کی طرف موڑا جا سکتا تھا۔
لیکن اِس تمام تر تصادم میں ریاست نے خود جس بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے اس سے اسکا اپنا بحران اور کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ تضادات کا یوں پھٹ کر منظر عام پر آ جانا اور پھر معاملات کا اس نہج تک پہنچ جانا بذات خود ریاست کے انتشار اور زوال پذیری کی غمازی کرتا ہے۔
فی الوقت پورا زور لگا کر نواز شریف کو پچھاڑ تو دیا گیا ہے لیکن بھاری قیمت پر حاصل کی گئی یہ جیت قدیم یونان کے بادشاہ پِیرس کی جنگی فتوحات سے مماثلت رکھتی ہے جن میں یونانی فوج کے اتنے سپاہی مارے گئے تھے کہ بقول پیرس ’’ایسی ایک فتح اور ہو گئی تو ہمارا بیڑا غرق ہو جائے گا۔‘‘
ایسے میں حالیہ انتخابات میں نہ صرف ہارنے والے بلکہ جیتنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی جیت کی حقیقت کیا ہے اور کتنے بڑے پیمانے پر کھلواڑ کر کے ’جمہوریت کا تسلسل‘ جاری رکھا گیا ہے۔ ہم نے پاکستان تناظر کی سابقہ دستاویز میں لکھا تھا کہ ’’نواز لیگ کو خارج کر کے اگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وغیرہ پر مبنی مخلوط حکومت بنائی جاتی ہے تو ایسی حکومت کسی برائے نام اخلاقی جواز اور ساکھ کی حامل بھی نہیں ہو گی۔‘‘کم و بیش یہی کیفیت اس وقت موجود ہے۔ لیکن تحریک انصاف کیساتھ بھانت بھانت کے چوروں اور فراڈیوں کو جوڑ کر بنائی جانے والی حکومت کا جائزہ لینے سے پہلے خود تحریک انصاف اور اس سے بھی بڑھ کے عمران خان کے مظہر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
لیکن اس سے پیشتر یہ مختصر وضاحت ضروری ہے کہ بورژوا معاشیات میں صارفین کے رویوں کے مطالعہ سے لے کر مارکسزم کے تحت طبقات کے سیاسی کردار یا سیاسی مظاہر کی طبقاتی بنیادوں کے تعین تک، سماجی علوم میں ہمیشہ عمومی رجحانات کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور استثنائی صورتوں کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک سرمایہ دار یا کچھ سرمایہ داروں کے سوشلزم کے حامی ہو جانے سے سرمایہ دار طبقے کا کردار نہیں بدل سکتا۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کی سماجی حمایت درمیانے طبقات میں موجود ہے لیکن پھر ’درمیانے طبقے‘ کو گہرائی میں دیکھ کر دونوں پارٹیوں سے وابستہ سماجی رجحانات میں تمیز کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ کی حمایت درمیانے طبقے کی جس پرت میں موجود ہے وہ چھوٹے سرمایہ دار، تاجر اور دُکاندار ہیں۔ یہ بالعموم تجارت سے وابستہ چھوٹے کاروباروں والا درمیانہ طبقہ ہے جو ’پیٹی بورژوازی‘ کی مارکسی تعریف کے قریب ترین ہے۔ ماضی میں جماعت اسلامی جیسے رجحانات کی بنیاد بھی یہی طبقہ رہا ہے۔ اس پرت سے اوپر مسلم لیگ جس طبقے کا نمائندہ رجحان رہا ہے وہ بڑے سرمایہ دار ہیں جو زیادہ تر صنعت سے وابستہ ہیں۔
اس کے برعکس تحریک انصاف کی سماجی بنیادیں 1980ء کے بعد نیولبرل سرمایہ داری کے ارتقا (بالخصوص سروسز سیکٹر کے پھیلاؤ) کے نتیجے میں پیدا ہونے والے درمیانے طبقے پر مبنی ہیں۔ یہ زیادہ تر نوکری پیشہ وائٹ کالر شہری مڈل کلاس ہے جسے نجی تعلیمی اور کاروباری اداروں کا کارپوریٹ زدہ ’پڑھا لکھا‘ طبقہ بھی کہا جا سکتا ہے جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں میں تیزی سے پھیلا ہے۔ محنت کش طبقے کے عدم تحرک کے ادوار میں اپنے مخصوص سماجی اثرورسوخ کے پیش نظر یہ مڈل کلاس دوسرے طبقات کے مختلف افراد یا پرتوں کو بھی اپنے ثقافتی اور سیاسی اثرورسوخ میں لے لیتی ہے۔
1980ء کی دہائی کے بعد کے مخصوص ماحول میں میڈیا اور نصابوں کے ذریعے اس شہری مڈل کلاس کی ذہن سازی اور تربیت ضیاالحقی اقدار اور اخلاقیات میں ہوئی ہے جس کے بیہودہ ماڈرنزم کیساتھ ملغوبے نے ایک عجیب تذبذب، ڈھٹائی اور نیم فسطائی منافقت کو جنم دیا ہے۔ مولوی طارق جمیل سے لے کر بڑی بڑی کوٹھیوں میں ’’درس‘‘ کرنے اور کروانے والی میک اپ میں لتھڑی اور رنگ برنگے بیش قیمت حجابوں میں ملبوس بیگمات تک سے روح کی غربت ہی جھلکتی ہے۔ ظاہریت پرستی، طاقت سے مرعوبیت، مقابلہ بازی اور موقع پرستی اس طبقے کا بنیادی خاصہ ہے۔
دُکاندار یا تاجر طبقے کی نسبت اِس طبقے کے لوگ زمینی حقائق سے کہیں زیادہ کٹے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’اپنی محنت سے آگے بڑھنے‘‘ کی مخصوص اَپ سٹارٹ نفسیات کے تحت ان کے شعور میں فردِ واحد کا کردار مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
نواز شریف کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی حکومت کی نیم کینشین نیم نیولبرل معاشی پالیسیوں سے تیزی سے ابھرنے والا یہ نیا درمیانہ طبقہ، جو اپنی تمام پرتوں سمیت آبادی کا تقریباً 20 فیصد تک بند جاتا ہے، جس فرسٹریشن کا شکار ہوا اور اس کو اوپر چڑھنے اور اپنی مالی و سماجی حیثیت بڑھانے کی جو جلدی تھی ایسے میں اسے مذہبیت اور ماڈرنزم کے ملغوبے پر مبنی عمران خان کی ’’تبدیلی‘‘ کا راستہ نظر آیا۔
ہر طبقہ اپنے عکس پر اپنی سیاست تشکیل دیتا ہے۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے کلیدی لوگوں پر غور کیا جائے تو حیران کن حد تک اِس اَپ سٹارٹ مڈل کلاس کی مجسم شکل معلوم ہوتے ہیں۔ اسد عمر، جہانگیر ترین اور عمران خان تینوں اَپ سٹارٹ ہیں جن کے گرد پھر چھوٹے بڑے دوسرے نودولتیوں، کیریئراسٹوں اور شاہ محمود جیسے نوسربازوں کا پورا مجمع ہے۔ نیچے سے اوپر تک اس پورے سیاسی رجحان کا کلچر اس قدر بدبودار ہے جس کی مثال کسی دوسری سیاسی پارٹی میں نہیں ملتی۔
لیون ٹراٹسکی نے ہٹلر کے تناظر میں طبقے اور لیڈر کا آپسی تعلق نہایت خوبصورتی سے بیان کیا تھا کہ ’’… لیڈر ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو (کسی طبقے کی) اجتماعی ضرورت کو پورا کرتا ہے… ہر بھڑکا ہوا پیٹی بورژوا‘ ہٹلر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن تھوڑے تھوڑے ہٹلر کا بسیرا ہر بھڑکے ہوئے پیٹی بورژوا میں ہے۔‘‘
یوں عمران خان کی تضادات سے بھری شخصیت اور احمقانہ باتیں، محدود سوچ، ادھورے سچ اور بدتہذیبی اُس کی کمزوریاں نہیں ہیں بلکہ وہ بنیادی خاصیتیں ہیں جو اس طبقے کو اپیل کرتی ہیں اور اس کا رہنما ہونے کی بنیادی شرائط ہیں۔ اگر وہ معقول باتیں کرنے لگے تو ایک دن میں اِس مڈل کلاس کی حمایت کھو دے۔ جب وہ اپنی مخصوص مصروفیات سے فارغ ہوکر کوکین کے نشے میں دھت ہونے کے بعد سٹیج پر چڑھ کر مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کرتا ہے تو اس کے اندر اس کا طبقہ بول رہا ہوتا ہے۔
ایسے میں تحریک انصاف کی حکومت کو جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ ان کی حدوں کو چھوتی بے شرمی، ڈھٹائی اور منافقت ہے۔ اس حکومت کے پاس منشیوں سے زیادہ اختیارات نہیں ہیں۔ عمران خان کو چار سیٹوں کی اکثریت والا ایسا اقتدار دیا گیا ہے جس کے پاؤں مٹی کے ہیں۔ تھوڑا سا ہلنے کی کوشش کرے گا تو ڈھے جائے گا۔
اس حکومت نے برسراقتدار آتے ہی ’سادگی‘ کا جو بیہودہ ڈرامہ شروع کیا تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس کوئی برائے نام اصلاحاتی معاشی پالیسی بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس ’آسٹیریٹی‘ کی آڑ میں جہاں بڑے معاشی حملوں کے لئے عوام کی ذہن سازی کی جا رہی ہے وہاں آئی ایم ایف کو بھی اطاعت کا پیغام دیا جا رہا ہے۔
بڑی عیاری سے میڈیا پر ساری بحث کا موضوع پروٹوکول کی گاڑیوں اور اجلا سوں میں چائے کیساتھ پیش کیے گئے بسکٹوں کی تعداد کو بنا دیا گیا۔ کبھی وزیر اعظم ہاؤس کی دہائیوں پرانی کھٹارہ گاڑیوں، بھینسوں اور ناکارہ ہیلی کاپٹروں کی نیلامی کو بڑا کارنامہ بنا کر پیش کیا گیا، کبھی گورنر ہاؤسز کے ’سبز باغ‘ عام لوگوں کو دکھانے کو انقلابی اقدام قرار دیا جاتا رہا۔ بالفرض ریاستی سطح پر ’مطلق سادگی‘ اپنا لی جائے تو بھی اس معیشت کے دیوہیکل خساروں میں ایک فیصد کی کمی نہیں لائی جا سکتی۔ لہٰذا یہ واردات، جو ماضی کے ادوار میں بھی کئی طریقوں اور کئی ناموں سے کی جاتی رہی ہے، چند ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکی۔
اسی طرح بھرپور میڈیا مہم کے ذریعے عوام کو ’ڈیم‘ کی بتی کے پیچھے لگانے کی انتہائی بھونڈی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اول تو پانی کے مسئلے کی جو شدت بیان کی جا رہی ہے وہ انتہائی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے اور جو نوعیت بیان کی جا رہی ہے وہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح ڈیم کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مثلاً بالفرض ملک کے دو سب سے بڑے ڈیم آج ختم کر دئیے جائیں تو صرف 10 فیصد زراعت متاثر ہو گی۔ پاکستان میں مسئلہ پانی محفوظ کرنے سے پہلے بچانے کا ہے اور پانی ضائع ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کا فرسودہ آبپاشی کا نظام ہے۔ اسی طرح آج ڈیموں سے ہٹ کر پانی کو محفوظ کرنے اور بجلی بنانے کے جدید طریقے بھی موجود ہیں جو زیادہ ماحول دوست بھی ہیں اور سستے بھی۔ علاوہ ازیں سنجیدہ ماہرین کی رائے ہے کہ مقررہ جگہ کے زلزلے کے خطرات سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر تکنیکی طور پر بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ہم ان تمام نکات کو یکسر مسترد بھی کردیں تو بھی چندے سے ڈیم بنانے کی بات اس قدر بھونڈی ہے کہ یہاں کی ریاستی اشرافیہ اور سیاسی حکمرانوں کی جہالت اور بے شرمی کا پتا ہی دیتی ہے۔ بالخصوص عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ ’’حکومت کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ ڈیم بنانا ہے تو عوام پیسے دیں۔‘‘
آزاد حلقوں کے مطابق دیامیر بھاشا ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 18 سے 20 ارب ڈالر ہے جبکہ تعمیر کا دورانیہ تقریباً 14 سال ہے۔ لیکن بالفرض 14 ارب ڈالر کا حکومتی تخمینہ بھی لیں اور کھینچ تان کر یہ بھی فرض کر لیں کہ روزنہ 2 کروڑ روپے کا چندہ اکٹھا ہو رہا ہے تو بھی ہدف تک پہنچنے کے لئے 72 ہزار دن یا 199 برس درکار ہوں گے! لیکن 14 ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ انتہائی کم ہے کیونکہ ڈیموں کے عالمی کمیشن کے مطابق اختتام تک پہنچتے پہنچتے لاگت تقریباً دو گنا ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں ڈیم کا چندہ چار سو سال میں اکٹھا ہو گا!
میڈیا پر بڑے بڑے دانشور اور تجزیہ نگار یہ خیالی ڈیم بنانے میں مصروف ہیں جبکہ پس پردہ بچی کھچی سبسڈیوں کے خاتمے، بالواسطہ ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے کی ایک خاموش مگر جارحانہ کاروائی جاری ہے ۔
بجلی کی قیمتوں میں مختلف حیلے بہانوں اور ناموں سے اضافے کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں 1.27 روپے فی یونٹ کا اعلانیہ اضافہ کیا گیا ہے۔ جس سے صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اسی طرح چھوٹے اور غریب صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں 10 سے 143 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جس سے صارفین پر 94 ارب کا بوجھ پڑے گا۔ کمرشل اور صنعتی صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں 30 سے 57 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس سے نہ صرف کھاد، سیمنٹ اور سی این جی کی قیمتوں میں تیز اضافہ ہو گا بلکہ بجلی بھی 12 فیصد مزید مہنگی ہو جائے گی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں پہلے ہی 200 سے 800 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ دو دن پہلے کی خبر کے مطابق ’اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی‘ نے سیمنٹ کی صنعت کو قیمتیں بڑھانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ اِس موقع پر وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کو سیمنٹ کی صنعت میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور منڈی کی قوتوں کو قیمتوں کا تعین کرنے دینا چاہئے۔‘‘ یاد رہے کہ اِس وقت افراطِ زر چار سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور آنے والے مہینوں میں 15 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ داخلی قرضوں کی ادائیگی کے لئے گزشتہ دو مہینوں میں 800 ارب کے نوٹ چھاپے گئے ہیں جس سے افراطِ زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
دو سو اداروں کی نجکاری کا اعلان تو تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ لیکن یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کی شاندار مزاحمتی تحریک کے بعد حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے اور ایسی نئی تحریکوں، جو بہت تیزی سے پھٹ کے قابو سے باہر ہو سکتی ہیں، کے خوف سے پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل جیسے بڑے اداروں کو فی الوقت نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن محکمہ صحت سمیت کئی دوسرے سرکاری اداروں میں چھوٹے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تمام اقدامات سے سماج کی محروم ترین پرتوں کی زندگیاں برباد ہوں گی۔
ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ایک طرف ان حملوں کی منظوری خود عمران خان سرکاری اجلاسوں میں دے رہا ہے، دوسری طرف فواد چوہدری جیسے پیشہ ور جھوٹوں سے تردیدیں کروائی جا رہی ہیں کہ کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے اور پھر اگلے ہی دن دوبارہ خبر آتی ہے کہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہی کیفیت ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ ملازمین کو نکالنے جیسے اقدامات کی ہے۔ کوئی ایسا دِن نہیں گزرتا جب یہ حکومت کوئی ’یوٹرن‘ نہ لے۔ ایک تازہ اخباری رپورٹ کے مطابق یہ حکومت ایک مہینے میں سولہ بار مختلف بیانات دے کر ان سے پھری ہے۔
ایسی حرکات جہاں لوگوں کو فریب دینے کے لئے ہیں وہاں ان نئے حکمرانوں اور ان کے پیچھے بیٹھے اصل حکمرانوں کے خوف اور تذبذب کی غمازی بھی کرتی ہیں۔
لیکن معاشی بحران جتنا شدید ہے اس کے پیش نظر 8 سے 12 ارب ڈالر کا قرضہ فوری طور پر درکار ہے۔ چین اور سعودی عرب سے کچھ قرضہ ملنے کی خبریں ہیں۔ لیکن شدید منت ترلوں اور نہ جانے کیسی کیسی یقین دہانیوں کے بعد سعودی حکومت سے ملنے والے تین ارب ڈالر (جو صرف دکھاوے کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھے جا سکیں گے اور ایک سال بعد تین فیصد سود سمیت واپس کرنے ہوں گے) اور ادھار تیل کو جس طرح تاریخی کامیابی بنا کے پیش کیا جا رہا ہے وہ اِس حکومت کی حالت زار کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ اسی طرح اندر کی اطلاعات ہیں کہ عمران خان کے حالیہ دورہ چین کے دوران موصوف کو سی پیک کے منصوبوں پر ’نظرِ ثانی‘ کی مبہم سی بیان بازی پر بھی اچھی خاصی ڈانٹ پلائی گئی ہے اور چینی حکومت نے کسی امداد یا قرضے تک کا بھی اعلان نہیں کیا۔ بس ’پاک چین دوستی‘ کے قصیدوں کے ساتھ عمران خان کو فارغ کیا گیا ہے۔ لیکن بھکاریوں کیساتھ اس سے ہٹ کے کسی سلوک کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟ بالفرض چین سے کوئی بڑا بیل آؤٹ لینے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو اس کی شرائط آئی ایم ایف سے زیادہ تلخ ہوں گی۔ اسی طرح اگر عالمی مارکیٹ میں بانڈ جاری کیے جاتے ہیں تو ان پر انتہائی بلند شرح سود دینی پڑے گی۔ ’موڈیز‘ جیسے اداروں نے پہلے ہی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی ہے۔ یوں لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ہیں اور ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے جس کی تیاریوں حکومت میں آنے کے فوراً بعد ہی شروع کر دی گئی تھیں۔ یہ 1980ء کی دہائی کے بعد آئی ایم ایف سے لیا جانے والا بارہواں بیل آؤٹ ہو گا۔
آئی ایم ایف کی ٹیم ایک ہفتے کے مذاکرات کے لئے 27 ستمبر کو اسلام آباد پہنچی تھی ۔ لیکن اس سے پہلے ہی واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے حکام کو خصوصی ویڈیو کال کے ذریعے مطلع کر دیا گیا تھا کہ تنخواہ دار ملازمین کو دی گئی جزوی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے، درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور ترقیاتی بجٹ میں 430 ارب روپے کی کمی کی جا رہی ہے۔ لیکن ترقیاتی بجٹ میں کمی اور دوسرے جاری اخراجات میں کٹوتیوں اور بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کا نتیجہ ناگزیر طور پر معاشی سکڑاؤ کی صورت میں نکلے گا جس سے قرضوں کا بحران مزید گھمبیر ہو جائے گا۔ فی الوقت آئی ایم ایف سے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں لیکن قرضے کی شرائط انتہائی سخت ہیں جن میں مزید 160 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کو ایک فیصد اضافے کیساتھ 18 فیصد تک کرنا شامل ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں، جن میں پچھلے ماہ کے اختتام پر پہلے ہی بالترتیب 5 روپے اور 6.37 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا جا چکا ہے، مزید 10 سے 15 روپے بڑھانے کا دباؤ موجود ہے۔
اِس سے قبل حکومت سنبھالنے کے بعد سوموار 18 ستمبر کو پیش کیے گئے ’مِنی بجٹ‘ میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں کٹوتیوں کا آغاز کرتے ہوئے 250 ارب روپے کی کمی کی گئی تھی۔ جبکہ پانچ ہزار اشیا پر کسٹم ڈیوٹی اور 900 اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی گئی تھی۔ حکومتی دعووں کے برعکس ان میں سے زیادہ تر عام استعمال کی اشیا ہیں جن کی قیمتوں میں اضافے سے عام صارفین ہی متاثر ہوں گے۔ اِس بجٹ میں کم از کم اجرت، ٹھیکیداری نظام کے تحت محنت کے بیوپار اور محنت کشوں کے دوسرے اذیت ناک مسائل کا ذکر تک نہیں تھا۔ لیکن یہ مِنی بجٹ اس بات کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے کہ تحریک انصاف آخر حکمران طبقے کے کن حصوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ’نان فائلرز‘ کو گاڑیوں اور جائیدادکی خرید و فروخت کی اجازت دینے کا اقدام بنیادی طور پر کالے دھن والوں کے مفادات کے پیش نظر کیا گیا تھا (اگرچہ ہر دوسرے اقدام کی طرح یو ٹرن لیتے ہوئے یہ فیصلہ بھی بعد میں واپس لینا پڑا) لیکن منی بجٹ کے بعد 17 اکتوبر کی رات کو جو ایک اور شب خونی بجٹ پیش کیا گیا اس میں جن 570 اشیا کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر عام لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔
تحریک انصاف یہاں کے حکمران طبقے میں شامل ہونے والے ان نودولتیوں کی نمائندہ ہے جو کئی صورتوں میں ’پرانی‘ بورژوازی سے بھی زیادہ دھنوان بن چکے ہیں اور جن کی سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ اور نجی تعلیم و علاج جیسے شعبوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ ارب اس وقت تحریک انصاف میں موجود ہیں۔ انتخابات اور پھر ہارس ٹریڈنگ میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر دولت لگائی ہے اس کے سامنے نواز لیگ کی مالی حیثیت بھی چھوٹی نظر آنے لگی ہے۔ یعنی کرپشن مخالف سیاست کرنے والی جماعت چل ہی کالے دھن پر رہی ہے۔ اسی لئے کالے دھن کے خلاف نواز حکومت کے کمزور اور ادھورے اقدامات بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔
خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی تحریک انصاف کی حکومت شدید بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے جو پھر یہاں کے ریاستی پالیسی سازوں کے اپنے تذبذب کا اظہار ہے۔ کئی داخلی محاذوں پر برسرِ پیکار ہونے اور بالخصوص سی پیک اور وسیع تر ’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘ کی وجہ سے چین کے دباؤ کے تحت ریاست بھارت سے تناؤ کو قدرے کم کرنا چاہتی ہے۔ جس کا اظہار شروع میں عمران خان کی جانب سے مودی کی طرف غیرمعمولی اور غیرمتوقع گرمجوشی سے بھی ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشی گراوٹ، کئی طرح کے دوسرے داخلی بحرانات اور قریب آتے ہوئے انتخابات کے پیش نظر مودی سرکار اس وقت کسی ’مذاکرات‘ کے موڈ میں نظر نہیں آتی بلکہ پاکستان دشمنی کو خوب ہوا دے رہی ہے۔
افغانستان میں مداخلت ختم کرنے کا امریکی دباؤ، مغربی بارڈر پر عمومی انتشار اور وہاں سے مبینہ دہشت گردی (بالخصوص حالیہ عرصے میں ’داعش‘ کی وارداتیں) بھی ریاست کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔
عمران خان کے بیان کہ ’’پاکستان حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی بھرپور مدد کرے گا‘‘ کے بعد سعودی ایران چپقلش کی پاکستان میں سرایت زیادہ گہری اور تباہ کن ہی ہو گی۔ ایران کوئی افغانستان نہیں بلکہ علاقائی طاقت ہے۔ سعودی حکمرانوں کی اِس سرِ عام کاسہ لیسی سے ایران کیساتھ تناؤ بھی بڑھے گا اور ریڈ کلف لائن کی طرح گولڈ سمتھ لائن بھی ممکنہ تصادم والی سرحد بن جائے گی۔ نہ صرف یہاں شیعہ سنی تصادم بڑھے گا، بلوچستان میں ایرانی مداخلت زیادہ شدت اختیار کرے گی بلکہ علاقائی تجارت اور پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے منصوبے بھی خلل کا شکار ہو جائیں گے۔ یمن میں اگر کھل کر فوجیں اتاری جاتی ہیں یا کسی اور نوعیت کی براہِ راست مداخلت کی جاتی ہے تو اداروں کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر گہری پھوٹ جنم لے سکتی ہے۔
ان حالات میں اُنہتر دنوں بعد نواز شریف اور مریم کی ضمانت پر رہائی کے پیچھے جہاں کئی وجوہات کارفرما ہیں وہاں ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ میں پڑنے والی دراڑوں، جس کا اظہار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے بیانات سے ہوتا رہا ہے، کی غمازی بھی کرتی ہے۔ لیکن ان چند ماہ میں نواز شریف اور مریم کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ نواز لیگ کے موجودہ ڈھانچوں کے ذریعے وہ ڈیپ سٹیٹ کے خلاف مزاحمت کی سیاست نہیں کر پائیں گے۔آثار یہی بتا رہے ہیں کہ نواز شریف کا دھڑا فی الوقت پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ یا پھر وہ تحریک انصاف کی حکومت کی بڑھتی ہوئی زوال پذیری کے پیش نظر خاموش رہ کر مناسب وقت کے انتظار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سب کے لئے وقت شاید زیادہ نہیں ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کی حرکات اورمعاشی جبر کی وارداتوں کے پیش نظر بورژوا تجزیہ نگار بھی اس حکومت کی طوالت کے اندازے کم کرتے چلے جا رہے ہیں۔
لیکن عمران خان سے درمیانے طبقے کی مایوسی بھی کئی طر ح کے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ سرکار کے کچھ حصوں کی پشت پناہی سے کوئی بنیاد پرست رجحان بھی ابھر سکتا ہے۔ لیکن ملائیت کی طاقت اتنی وسعت اختیار نہیں کر سکتی کہ پورے سماج پر حاوی ہو جائے۔ ایسے میں صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ تحریک انصاف میں کوئی فارورڈ بلاک بننے یا بن کر پنپنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ کیونکہ عمران خان کی شخصیت پرستی، جس کی بنیاد پر ساری پی ٹی آئی کھڑی ہے، کے بغیر کوئی دھڑا چل نہیں سکے گا۔علاوہ ازیں ڈیپ سٹیٹ کی پیوند کردہ اس پارٹی میں مہنگے داموں جگہ خرید کر گھسنے والے دھنوان اپنے ریاستی آقاؤں کے حکم کے بغیر سیاسی وفاداریاں نہیں بدلیں گے۔
عمران خان کی شخصیت پرستی کے ٹوٹنے کی صورت میں یہ مصنوعی پارٹی بالکل ہی بکھر جائے گی۔ ایسا جلد بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حکومت کا بحران بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو عمران خان اپنے آقاؤں کی مرضی اور مفادات کے برخلاف حرکتیں کر کے سیاسی شہید بننے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔
اوپر سے ایسی کوئی بڑی ٹوٹ پھوٹ یا نیچے سے کوئی تحریک پھٹ پڑنے کی صورت میں ڈیپ سٹیٹ کی جانب سے نواز لیگ کے کچھ دھڑوں اور زرداری و بلاول کی اِس مصنوعی پیپلز پارٹی کو اکٹھا کر کے ایک نئی مخلوط حکومت بنانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے جو اتنی ہی کمزور ہو گی۔ نواز شریف اور مریم اگر کوئی نئی تحریک چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ایک بورژوا پروگرام سے آگے نہیں جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ ’’غریبوں کے لئے اصلاحات‘‘ کی بات ہو گی یا جیسا کہ نواز شریف پہلے بھی سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے ترقی اور روزگاردینے کی باتیں کرتا ہے۔ اِس پس منظر میں اگر دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں تو انہیں تمام تر اختلافات کے باوجود مصالحت کرنی پڑے گی۔ بصورت دیگر بالفرض اقتدار مل جانے پر بھی ریاستی ڈھانچوں سے اُن کے ’ورکنگ ریلیشن‘ نہیں بن سکیں گے۔ لیکن عمران خان کی نسبت مریم نواز سے وابستہ خوش فہمیاں ٹوٹنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن اقتدار ملنے کی صورت میں آج کی مظلوم مریم کل کو محنت کشوں کے لئے ایک چڑیل بن جائے گی۔
لیکن اس عرصے میں معیشت کے تنزلی کی کیفیت، عالمی اور علاقائی طاقتوں کا توازن و ٹکراؤ، اداروں کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ، بحیثیت مجموعی پورے نظام کا بحران اور محنت کش طبقے کی تحریک سمیت دوسرے بہت سے ایسے عوامل ہیں جو تناظر کو زیادہ پیچیدہ اور مشروط بنا دیں گے۔ اوپر سے کسی نئے چہرے کو مسلط کرنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے اور نیچے سے تحریکوں کے نتیجے میں نئی قیادتیں بھی ابھر سکتی ہیں۔ لیکن یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کی جرات مندانہ مزاحمت نے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن ایک بار پھر محنت کش طبقے کی دیوہیکل طاقت اور لڑنے کی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ اِسی طرح گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف تعلیمی اداروں میں بنیادی ایشوز بالخصوص فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کی چھوٹی بڑی تحریکیں بھی مسلسل اٹھ رہی ہیں۔ عوام کو کھلائی جانے والی ’کڑوی گولیوں‘ سے یہ زوال پذیر معیشت سنبھلے گی نہیں بلکہ اس میں سکڑاؤ آئے گا اور بحران مزید بڑھے گا۔ اس بحران زدہ نظام میں سیاسی انتشار بھی کم ہونے والا نہیں ہے بلکہ حکمران طبقات کی نورا کشتیاں آگے بھی مختلف شکلوں میں مختلف سطحوں پر جاری رہیں گی۔ لیکن مروجہ سیاست کی کسی پارٹی اور کسی رجحان کے پاس کوئی متبادل پروگرام اور نظریہ نہیں ہے۔ آبادی کے وسیع حصوں بالخصوص محنت کش طبقات میں اِس سیاست سے شدید بیزاری بلکہ نفرت پائی جاتی ہے۔ جب کوئی نظام تاریخی طور پر متروک ہو جائے تو سماج کو استحکام بخشنے سے بھی عاری ہو جاتا ہے۔ ’تبدیلی‘ کے نام پر اقتدار میں لائی جانے والی یہ حکومت جتنی جلدی بے نقاب ہوئی ہے اس سے پتا چلتا ہے یہاں کی سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی گراوٹ اور نجکاری کے حملے، جن کے بغیر یہ نظام چل ہی نہیں سکتا، ناگزیر طور پر نئی تحریکوں اور بغاوتوں کو جنم دیں گے جو سارے منظر نامے کو یکسر بدل کے رکھ سکتی ہیں۔