| تحریر: یاسر ارشاد |
20 جولائی کو جنوبی ترکی کے شہر ’سروک‘ میں داعش کی جانب سے کئے گئے خود کش حملے نے پھر سے واضح کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دہکتی آگ قریبی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس وحشیانہ حملے میں ’سوشلسٹ یوتھ ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کے 30 نوجوان موقع پر ہی شہد ہو گئے۔ یہ نوجوان داعش کے خلاف برسر پیکار کرد عوامی ملیشیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرہ کر رہے تھے۔ واقعے کے بعد ترکی کے مختلف شہروں میں طیب اردگان کے خلاف پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ طیب اردگان اور اس کی برسر اقتدار بنیاد پرست AK پارٹی گزشتہ کئی سالوں سے پس پشت داعش کی مالی اور اسٹریٹجک حمایت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں کے وسیع قتل عام میں مصروف داعش کے جنگجوؤں کو نہ صرف ترکی میں پناہ اور محفوظ راستے فراہم کئے جا رہے ہیں بلکہ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ طیب اردگان کی بیٹی کی سرپرستی میں چلنے والے ہسپتالوں میں ان وحشیوں کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ طیب اردگان ٹولے کے ’انتہائی برادرانہ کاروباری تعلقات‘ قائم ہیں۔
اس سے قبل 26 جون کو بیک وقت تین براعظموں میں دہشت گردی کی کا روائیوں نے عالمی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ ایک ہی دن تیونس، فرانس اور کویت میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ داعش کی طاقت کو ذرائع ابلاغ میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور حکمران طبقات دہشت گردی کی رسمی مذمت کے ساتھ تیونس میں ہونے والے قتل عام پر کچھ زیادہ ہی ماتم کر رہے ہیں۔ اس منافقانہ ماتم کی و جہ یہ ہے کہ تیونس میں مارے جانے والے زیادہ تر برطانوی باشندے تھے لیکن کویت میں مارے جانے والے شیعہ فرقے کے لوگوں کی موت کو انہی ذرائع ابلاغ نے اس قدر بے اعتنائی سے پیش کیا جیسے یہ مرنے والے انسا ن ہی نہ ہوئے ہوں۔ در حقیقت مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک جیسے شام، عراق، یمن اورلیبیا میں سامراجی جارحیت، فرقہ وارانہ لڑائیوں اور مختلف سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے ہونیوالی دہشت گردی کے علاوہ بھوک اور بیماری سے مرنے والے عام لوگوں کے مسائل سے پہلوتہی کرنا اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا ان سامراجی ذرائع ابلاغ کا پیشہ ہے۔
دوسری جانب اگر برطانوی شہریوں کی اموات پر منافقانہ شورشرابہ کیا جارہا ہے تو اس کے بھی کچھ مقاصد ہیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ مختلف دہشت گرد گروہوں کی درندگی کو مغربی ممالک کے محنت کشوں اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس کی حد سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ پھر اس اشتہاری مہم کے ذریعے خوف اور دہشت کو عوام اور محنت کشوں کے شعور پر مسلط کر کے ان کے تحفظ کے نام پر ان کے بنیادی جمہوری حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ فوج اور پولیس جیسے مسلح ریاستی اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے کر ریاستی جبر کو سماج پر لاگو کیا جاتا ہے۔ پھر اس قسم کی کاروائیوں کی جتنی زیادہ تشہیر کی جائے اتنی ہی مختلف سامراجی جارحیت کی مہمات کو جاری کرنے کے حق میں عوامی رائے عامہ ہموار ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں سامراجی طاقتوں کی باہمی لڑائی اور تضادات ان انتہاؤں کو چھو رہے ہیں جہاں ہر چیز بقول ہیگل سر کے بل کھڑی ہو گئی ہے۔ ازلی دشمنی دوستی میں بدل رہی ہے اور جنم جنم کی دوستیاں تصادموں کی نذر ہو رہی ہیں۔ امریکی سامراج اور اس کے سعودی گماشتوں کے درمیان کھلی لڑائی اتنی بڑی انہونی نہیں ہے جتنی خادمین حرمین شریفین کے محافظوں اور روس (سابقہ ’’کمیونسٹوں‘‘) کے مابین تازہ معاشقے کی خبر میں چسکا ہے۔ اس نظام کے زوال کے باعث اس کے محافظ جہاں نسل انسانی کی بربادی کی سبھی حدوں کو پار کر رہے ہیں وہیں ثقافتی گراوٹ اور بے غیرتی کی بھی ابھی نئی حدیں دریافت کی جائیں گی۔
عراق، شام، لیبیا اور یمن جیسے ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کے باعث دہشت گردی، قتل و غارت اور سامراجی حملے تو ایک معمول بن چکے ہیں۔ انسانی تہذیب و ثقافت کے ابتدائی مراکز کا حامل اور تیل و گیس کی قدرتی دولت سے مالا مال یہ خطہ سامراجی لوٹ مار کی ہوس کے ہاتھوں تاراج ہوا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو آگ اور خون کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ شام، لیبیا، عراق اور یمن جیسے ممالک میں ریاستی اور سماجی ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہے۔ ان ممالک کی غیر اعلانیہ ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا عمل اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ باقی تمام حالات اگر ایسے ہی رہتے ہیں تو کسی بھی صورت میں ان کو دوبارہ پہلے جیسا ملک نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
اگر شام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک پانچ مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ مشرق میں داعش کی عمل داری ہے۔ جبکہ شمال مشرق میں داعش کے مخالف مذہبی گروہوں کا قبضہ ہے۔ نام نہاد قوم پرست باغی جنوب کے کچھ حصوں پر قابض ہیں جبکہ شمال میں کردوں کا کنٹرول ہے اور اس کے علاوہ بشارالاسد کے تسلط میں جو علاقہ ہے اس کی اپنی علیحدہ حیثیت ہے۔ ان پانچ حصوں پر قابض مختلف گروہوں کے درمیان شدید لڑائی اپنے اپنے علاقے کو وسیع کرنے کے حوالے سے جاری ہے اور ہر گروہ کے تسلط کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لئے مختلف علاقائی اور سامراجی طاقتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ پھر ہر دہشت گرد گروہ کوئی ایک یکجا تنظیم نہیں ہے بلکہ مختلف جرائم پیشہ اور ڈاکوؤں کے چھوٹے چھوٹے ٹولے کچھ عرصہ کے لئے متحدہو کر کوئی تنظیم بنا لیتے ہیں جس میں ہر ٹولہ اپنی لوٹ مار کے لئے کسی بھی وقت وفاداریاں بدل لیتا ہے اور جتنے ان تنظیموں کے اندر چھوٹے یا بڑے گروپ ہیں اتنے ہی ان کے زیر تسلط علاقے کے بھی ٹکڑے ہو تے ہیں۔
گزشتہ دنوں جیش الاسلام نامی ایک تنظیم کی ویڈیو منظر عام پرآئی ہے جس میں اس تنظیم کو داعش کے کچھ لوگوں کا اسی طرح وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو انداز داعش کا خاصہ تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تنظیم پچاس گروپوں کے اتحاد پر مشتمل ہے۔ اسی قسم کی صورتحال شام اور عراق میں متحرک دیگر دہشت گرد گروپوں کی بھی ہے۔ ان گروپوں کا اندرونی اتحاد انتہائی مفاد پرستانہ ہونے کی وجہ سے ہر گروپ کو اس اتحاد کو بر قرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر کے لوٹ مار کے وسیع مواقع فراہم کرنے پڑتے ہیں اور ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں یہ گروہ زیادہ کامیاب گروپ کی جانب سرک جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ خود کو زیادہ وحشت ناک طاقت ثابت کرنے کی بنیاد پر ہی سامراجی طاقتوں کے سامنے خود کو نمایاں کر کے زیادہ دولت حاصل کی جاسکتی ہے، اسی لئے ہمیں مختلف گروپوں کے درمیان ایک خون ریز مقابلہ بازی نظر آتی ہے۔ دولت کے حصول کے لئے آگ اور خون کے اس کھیل میں ان خطوں کے عوام برباد ہو رہے ہیں۔ اب تک شام کی تقریباً نصف آبادی بے گھر ہو کر ملک کے دوسرے حصوں یا دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر چکی ہے۔ بظاہر شام میں بر سرِپیکار گروپوں کی اکثریت اسد حکومت کے خاتمے کیلئے لڑ رہی ہے۔ لیکن ہر گروپ کی پشت پناہی کرنے والی سامراجی طاقت یہ کوشش کرتی ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس کا حمایتی گروپ شام پر کنٹرول حاصل کرے۔ اس کشمکش نے تمام گروپوں کی باہمی لڑائی میں اضافہ کر دیا ہے جس سے پورا خطہ ایک نہ ختم ہونے والی خون ریزی میں دھنس چکا ہے۔ اسد حکومت بھی مسلسل کمزور ہوتی جارہی ہے اور شاید زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکے لیکن اس کا خاتمہ شام پرکنٹرول اور اختیار کے حصول کی زیادہ شدید لڑائی کو جنم دے گا۔
قطر کے وزیر خارجہ خالدالعطیہ نے گزشتہ دنوں فرانس کے ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’ ہم ہر قسم کی انتہا پسندی کے مخالف ہیں لیکن داعش کے علاوہ تمام گروہ اسد حکومت کے خاتمے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر اعتدال پسند گروہ نصرہ فرنٹ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم آپکے ساتھ مل کر کام نہیں کریں گے تو امریکہ کیسے یہ کہہ سکتا ہے! آپکو صورتحال کا جائزہ لیکر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کر نا پڑیگا‘‘۔ قطر خطے کی نئی ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی امداد میں سعودی عرب سے زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ قطر سعودی حکمرانوں کے خلاف ہر جگہ اپنا اثر و رسوخ بنانے کے لئے قدرتی گیس سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین، غزہ میں حماس اور تیونس میں غنوشی کی حمایت کے علاوہ شام اور عراق میں بھی اپنے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپوں کی معاونت کے ذریعے وہاں جاری خونریزی میں ملوث ہے تا کہ ان خطوں کی لوٹ میں اپنا حصہ وصول کر سکے۔ 2022ء میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے قطر میں انعقاد کے لئے 260 ارب ڈالرکے تعمیراتی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ ان منصوبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت زار کا اندازہ صرف اس ایک خبر سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق 2014ء میں ہر دو دن میں ایک محنت کش کی موت واقع ہوتی رہی ہے۔ یہ وہ اموات ہیں جن کی خبر منظر عام پر آئی، کتنی ایسی اموات ہیں جو سامراجی ذرائع ابلاغ کی مجرمانہ خاموشی کی نظر ہو جاتی ہیں۔ قطر کی کل لیبر فورس کا 90 فیصد غیر ملکی محنت کشوں پر مشتمل ہے اسی لئے خلیج کی دیگر ریاستوں کی طرح بنیادی جمہوری حقوق اور لیبر قوانین کا یہاں بھی کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ غیر ملکی محنت کشوں کی اتنی زیادہ اموات کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد سامراجی آقاؤں نے قطر کو محنت کشوں کے حالات میں بہتری لانے کے لئے فوری اقدامات کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس حکم کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ سامراجی آقاؤں کو قطر کے محنت کشوں کے حالات پر واقعی بہت تشویش تھی بلکہ اس کا مطلب قطر کے حکمرانوں کو یہ احساس دلانہ مقصود تھا کہ محنت کشوں کے استحصال کی خبریں اگر اسی طرح منظر عام پر آتی رہیں تو ہمیں یورپ کے محنت کشوں کی تنقیداور دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے قطر کے حکمرانوں نے ان محنت کشوں کے حالات کو منظر عام پر آنے سے روکنے کا کافی حد تک ’’انتظام‘‘ کر لیا ہے۔ چونکہ منڈی کی معیشت کے راج میں صحافت کا مقصد بھی دولت کا حصول ہی ہے اور اگر کسی خبر کو شائع نہ کرنے کے زیادہ پیسے مل رہے ہوں تو دھندے کا اصول یہی ہے کہ ایسی خبر نہ شائع کی جائے۔ خلیجی ممالک کے رجعتی حکمران خاندان اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی سخی واقع ہوئے ہیں اور ان کی اس سخاوت سے سب سے زیادہ مغرب کا نام نہاد جمہوریت پسند اور آزاد میڈیامستفید ہوتا ہے جس کی کچھ خبریں وکی لیکس کے حالیہ سعودی عر ب کے بارے میں انکشافات میں بھی سامنے آئی ہیں۔
سعودی شاہی خاندان یمن پر جارحیت کے تین ماہ بعد ایک انتہائی مشکل کیفیت میں پھنس چکا ہے۔ یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں نے اس بد قسمت ملک کے باسیوں کو برباد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطابق یمن کی 80 فیصد آ بادی کو بنیادی ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔ سعودی جاحیت نے یمن کے پہلے سے خستہ حال انفرا سٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ہزاروں عام لوگوں، جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں، کا قتل عام کرنے کے باوجود سعودی حکمران اس جارحیت کے طے کردہ مقاصد میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کرپائے۔ نہ تو حوثی باغیوں کی مزاحمت کو توڑا جا سکا اور نہ ہی عبدالحادی کی حکومت کو بحال کرایا جا سکا ہے۔ یمن پر تین ماہ سے زیادہ عرصے تک فضائی بمباری کے بعد حقیقت یہ ہے کہ یمن کے زیادہ تر علاقے پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ صرف مشرقی صوبے جس پر القاعدہ اور عدن جہاں جلاوطن صدر حادی کے حمایتی قابض ہیں، کے علاوہ تقریبا پورا ملک حوثی باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔
سعودی حکمرانوں کی تمام رعونت خاک میں مل گئی ہے اور اب اس جنگی مہم جوئی کی شکست اور شرمندگی سے بچنے کے لئے حوثی باغیوں کو مذاکرات میں انتہائی سخت شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی حکمران بضد رہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2216 پر عملدرآمد کرایا جائے جس کی وجہ سے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ اس قرار داد کے مطابق حوثی باغیوں کو اپنے زیر قبضہ تمام علاقہ چھوڑنا پڑے گا اور اس کے ساتھ جلاوطن صدر حادی کی حکومت کو جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے واپس بحال ہونے میں مدد فراہم کرنی ہو گی اور اپنا تمام اسلحہ اس حکومت کے حوالے کرنا ہو گا۔ جن باغیوں کو سعودی اور اتحادی طیاروں کی بمباری کے ذریعے سعودی غلامی قبول کرنے پرمجبور نہیں کیا جا سکا ان سے مذاکرات کی میزپر اس قسم کے مطالبات کیسے تسلیم کرائے جا سکتے ہیں جب وہ جانتے ہیں کہ سعودی حکومت کو جنگ میں شکست ہو چکی ہے۔ حوثی باغی پاکستان کے ایک رجعتی آمر ضیا الحق کی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ’’خادمین حرمین شریفین‘‘ اپنی فوج پر اعتبار نہیں کرتے۔ سعودی حکمران یمن کے تنازعے کی دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور انہیں نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ نہ تو فضائی حملوں کے ذریعے اور نہ ہی مذاکرات کے ذریعے حوثی باغیوں کو سعودی غلامی قبول کرانے میں کامیابی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب طویل عرصے تک اس قسم کی فضائی جنگ بھی نہیں جاری رکھی جاسکتی اور نہ ہی حوثی باغیوں کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ شاہی خاندان کی نئی قیادت کی حماقت نے آلِ سعود کے پچھواڑے میں ایک ایسی آگ بھڑکا دی ہے جس سے نہ تو پہلو تہی کی جاسکتی ہے اور نہ اسے بجھانا ممکن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جلد یا بدیر سعودی حکمرانوں کو حوثی باغیوں کے ساتھ ہی کسی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ عارضی امن معاہدے کی شرائط پر دستخط کرنے پڑیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یمن میں اس خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو اب روکا نہیں جاسکتا۔
یمن کی یہ آگ اپنے شعلے اور تپش سعودی عرب کے اندر منتقل کر تی رہے گی۔ اس قسم کی کچھ خبریں ابھی سے آنا شروع ہو گئی ہیں جیسے یمن کی سرحد کے قریب واقع سعودی علاقے نجران کے مختلف قبائل نے مل کر شاہی خاندان کے خلاف احرار النجران کے نام سے ایک اتحاد بنایا ہے جو یمن کے باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ سعودی عرب کے تین سو فوجیوں نے کمانڈر سمیت بغاوت کر کے یمن کی باغی افواج میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ سعودی عرب کے جنوبی اور پسماندہ علاقوں میں آباد قبائل اپنے معیارِ زندگی کے حوالے سے یمن کے غریب لوگوں کے زیادہ قریب تر ہیں اور ان لوگوں میں شاہی خاندان کی رجعتی آمریت اور پر تعیش طرز زندگی کے حوالے سے شدید نفرت بھی موجود ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ نفرت یمن کے باغیوں کے ساتھ ہمدردی کی صورت میں اپنا اظہار کرے۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی اجارہ داری برقرار رکھنے کی لڑائی سعودی عرب کی مالی مشکلات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ امریکی شیل تیل کی صنعت کو برباد کرنے کے لئے تیل کی قیمتوں میں کمی کوبرقرار رکھنے میں سعودی عرب کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے خرچ ہوتے جا رہے ہیں۔ سال 2015ء کے بجٹ کا خسارہ 38.6 ارب ڈالر ہے۔ یمن پر جارحیت، دہشت گردوں کی امداد اور دیگر خفیہ وارداتوں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب سالانہ اربوں ڈالر مختلف عالمی اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز کو رشوت کے طور پر دیتا ہے تا کہ اس کے رجعتی کردار اور وحشیانہ ریاستی جبر کی خبریں منظرِعام پر نہ آئیں۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے ا پنی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا جس میں دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ مالی مسائل میں اضافہ بھی ہے۔
سعودی حکمران یمن پر جارحیت، بحرین میں فوج کشی، شام اور عراق میں دہشت گردوں کی حمایت سے لیکر ملک کے اندر شیعہ آبادی پر ریاستی جبر اور حکمرانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی آواز بلند کرنے والوں پر تشدد جیسی ہر واردات کا ایک ہی جواز پیش کرتے ہیں اور وہ ایرانی ریاست کا خوف ہے۔ اس گھسے پٹے جواز کی بنیاد پر شاہی خاندان کا جبر اب لمبے عرصے تک جاری نہیں رہ سکے گا۔ شاہی خاندان کے تقریباً 22ہزار شہزادوں میں بھی بہت سے باغی ہیں اور اگر نیچے سے کوئی بڑی عوامی تحریک ابھرتی ہے توان باغیوں کی تعداد کافی زیادہ ہو گی۔ شیعہ آبادی کی جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کے دوران فرقہ واریت کی مخالفت آبادی کے دیگر حصوں میں اس جدوجہد کے لئے ایک سر گرم حمایت پیدا کر رہی ہے۔ دہشت گردی کی کاروائی میں مارے جانیوالے چار لوگوں کی تدفین کے موقع پر تین جون کو دمام میں سات لاکھ سے زیادہ لوگوں کے اجتماع میں فرقہ واریت، دہشت گردی اور ریاستی جبر کی بیک وقت مذمت کی گئی۔ در حقیقت سات لاکھ لوگوں کا یہ اجتماع ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ تھا اس کو کسی بھی صورت میں محض تدفین یا آخری رسومات میں شرکت کرنے والوں کا اجتماع نہیں کہا جا سکتا۔
سعودی عرب کی مقامی آبادی کا 47 فیصد 24 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ حکمرانوں کو ان نوجوانوں سے بھی بڑا خطرہ لاحق ہے۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات کے مطابق شاہی خاندان ان تمام نوجوانوں کی مکمل جاسوسی کا انتظام کرتا ہے جو دوسرے ممالک میں حصولِ تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ اس جاسوسی میں سب سے زیادہ جس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے وہ یہ کہ آیا وہ نوجوان سعودی عرب کے حکمرانوں، طرزِ حاکمیت اور نظام سے عدمِ اطمینان کا اظہار تو نہیں کر رہے۔ ریاستی جبر کے خلاف سطح کے نیچے پلنے والے طوفان کی سرسراہٹ موجود ہے جو جلد یا بدیر کئی ایک داخلی اور خارجی واقعات کے دباؤ کے تحت سطح کو پھاڑ کر اپنا اظہار کرے گا۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے انتہائی اہم ملک مصر کے شمالی علاقے سینائی میں یکم جولائی کو پولیس اور فوج کی پانچ مختلف چوکیوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں ساٹھ اہلکار مارے گئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی داعش کی مصری برانچ نے قبول کی ہے۔ مصر میں سیسی کی حکومت پہلے ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کے جمہوری حقوق پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دوسالوں میں سیسی حکومت نے تقریباً 41 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جن میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو مصر کے دوسرے انقلاب کے روحِ رواں تھے۔ اخوان المسلمین کے کارکنان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے ساتھ مصر کے انقلابی نوجوانوں کے خلاف بھی ریاستی انتقام کا عمل جاری ہے۔ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے نام پر ہر قسم کی سیاسی سرگرمی کو ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 29 اپریل 2015ء کو مڈل ایسٹ مانیٹر ویب سائٹ نے مصر کی اعلیٰ انتظامی عدالت کا ایک فیصلہ شائع کیا جس میں اس عدالت نے سرکاری شعبے کے تمام ملازمین کے لئے ہڑتال کرنا غیر قانونی قرار دیا ہے۔ مصر کے صحافیوں کی یونین نے10 جون کو ہڑتال کی۔ اس میں گرفتار صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، اس وقت مصر کی مختلف جیلوں میں تین سو سے زیادہ صحافی قید ہیں۔ اگرچہ ریاست اس معاملے میں بہت محتاط ہے اور محنت کشوں پر براہ راست جبر سے اجتناب کر رہی ہے اور زیادہ انحصار کھوکھلے وعدوں اور مستقبل میں بہتری کی جھوٹی امیدوں پر ہے۔
سماج کی عمومی صورتحال بھی انتہائی ابتر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق مصر کی کل آٹھ کروڑ بیس لاکھ آبادی میں سے ایک تہائی یعنی دو کروڈ تہتر لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افراطِ زر کی شرح 13.1 فیصد ہے۔ سیسی حکومت معیشت میں بہتری کیلئے مسلسل بیرونی سرمایہ کاری کیلئے موافق حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مصر کی معیشت تاحال خلیجی ممالک سے ملنے والی امداد کے سہارے چل رہی ہے جس میں ایک بڑی رقم سعودی عرب نے اخوان المسلمین کے خلاف کاروائی کے معاوضے کے طور پر فراہم کی تھی جس کا مقصد قطر کا اثر و رسوخ ختم کرنا تھا۔ سعودی دلالی میں ہی سیسی حکومت نے گزشتہ دوسالوں سے رفاح کی سرحد پر موجود زیادہ تر زیرِ زمین سرنگوں کو بند کر رکھا ہے جن کے ذریعے غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی اپنی ضروریات کا سامان لے جاتے تھے۔ سیسی حکومت نے غزہ کی حکمران جماعت حماس پر سینائی کے علاقے میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں معاونت کا الزام بھی عائد کر رکھا ہے۔ در حقیقت قطر اور اخوان المسلمین کے ساتھ حماس کے قریبی مراسم کی سزا عام عوام کو بھگتنی پر رہی ہے۔ مصر کے مختلف شعبوں کے محنت کش اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
محلہ ٹیکسٹائل سے لیکر اساتذہ، قدرتی گیس، سٹیل مل سمیت تمام اداروں میں محنت کشوں کی ہڑتالیں وقفے وقفے سے ابھرتی رہتی ہیں۔ 30 جون 2013ء کو عددی اعتبار سے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب بر پا کرنے والے مصر کے محنت کش، نوجوان اور عوام سیسی حکومت سے مایوس ہو کر ایک بار پھر تاریخ کے میدان میں اتریں گے۔ اپنی جدو جہد کے تجربات اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے اسباق کی روشنی میں مصرکے محنت کش اور نو جوان یہ ناگزیر نتیجہ اخذ کریں گے کہ حکومتیں نہیں اس نظام کو بدلنا پڑے گا۔ اس قسم کی تحریک کا ابھار مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو لرزہ کے رکھ دے گا۔ مشرق وسطیٰ کے سماجوں پر حاوی موجودہ رجعت اور خونریزی کا خاتمہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس نظام کے خاتمے کے آغاز کی تمام توقعات کا محور مصر ہو سکتا ہے جو انقلابات کو جنم دینے کے حوالے سے ابھی تک بہت زرخیز ہے۔
متعلقہ:
یمن پر سعودی جارحیت اور پاکستان