[تحریر: لال خا ن، ترجمہ: نوروز خان]
آج 7اکتوبر 2012ء کو وینزویلا میں ہو رہے انتخابات تاریخ ساز اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات کے تنائج کے اثرات نہ صرف وینزویلا اور لاطینی امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہوں گے بلکہ ان سرحدوں کے پار بہت دور تک عوام کے شعور اور طبقاتی جدوجہد کی رفتار پر اثر انداز ہوں گے۔یہ حادثاتی طور پر یا محض کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مغربی سامراجی ممالک کے حکمران اشرافیہ کے ماہرین، منصوبہ سازوں اور میڈیا کی ان انتخابات کے نتائج میں بہت زیادہ دلچسپی اور توجہ مرکوز ہے۔ ان کی جانب سے شاویز کو ڈکٹیٹر، جابر، مطلق العنان حاکم، منشیات کا سوداگر، امریکہ کا دشمن اور دہشت گردجیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔ان کی پیش کردہ تصویر کے مطابق وینزویلاایک پر تشدداور غیر محفوظ ملک ہے جہاں جرائم، کرپشن اور افرا تفری کا راج ہے،لیکن وہ گزشتہ دہائی کی شاندار کامیابیوں اور سماجی ترقی یا ماضی کی حکومتوں سے ورثے میں ملنے والی سماجی عدم مساوات کی وجوہات کا ذکر نہیں کرتے۔ شاویز کے خلاف یہ توہین آمیز حملے بے سبب نہیں۔ وہ بولیویرین تحریک کی فتح سے خوفزدہ ہیں۔ ایران، شمالی کوریا اور اسلامی بنیاد پرستی وغیرہ کے خلاف ان کی لفاظی کی حقیقت کچھ اور ہے۔
در حقیقت سامراجی اور وینزویلا کی اشرافیہ ایک متحدہ اپوزیشن (جسے سامراج اور اس کے ایجنٹوں نے بنایا ہے) کے صدارتی امیدوار اینریک کاپریلس رادونسکی کے لیے پر زور انتخابی مہم چلا ر ہے ہیں۔دائیں بازو کے اس امید وار کے لیے سامراجی حمایت کے پیچھے بلا کسی رکاوٹ کے سامراجی لوٹ مار کی بحالی اور سرمایہ دارانہ استحصام کو تیز کرنے کے مفادات کار فرما ہیں۔عالمی بینک کے جاتے ہوئے صدر صدر رابرٹ زویلک کے اس برس جون میں دیے گئے بیان سے سامراجی حمایت واضع ہو جاتی ہے جس میں اس نے کہا کہ ’’شاویز کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں، کاپریلس کی فتح مغربی نصف کرہ ارض کو پہلا جمہوری نصف کرہ بنانے کا موقع فراہم گی‘‘۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ شاویز نے قریباً چودہ برسوں میں آٹھ انتخابات اور ریفرینڈم جیتے ہیں جن کی توثیق نام نہاد ’’آزاد‘‘ امریکی مبصرین نے بھی کی ہے بشمول جمی کارٹر فاؤنڈیشن کے۔
لیکن سامراجیوں اور ان کے منصوبہ سازوں کے لیے جمہوریت کی تعریف بہت سادہ ہے، یعنی جو حکومت ان کے اشاروں پرناچے وہ جمہوری ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی جمہوریت کا مطلب آزاد منڈی کی خودمختاری اور بے پناہ شرح منافع کے حصول کی خاطر کارپوریٹ سرمائے کے لیے بے لاگ استحصال کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ کاپریلس انہی پالیسیوں کا حامی ہے۔ وہ خود کو بائیں بازو کی جانب دیکھنے والا سیاسی معتدل کہتا ہے، لیکن یہ وینزویلا کے امیر ترین خاندانوں میں ایک سے تعلق رکھنے والے کی اس شخص کی محض لفاظی ہے جس کا نجکاری، کٹوتی اور نیو لبرل ازم کا پروگرام ملک کو 1980ء اور 1990ء کی ’’برباد دہائیوں‘‘ جیسی غربت اور معاشی جمود میں لے جائے گا۔
کاپریلس اور دائیں بازو کی اپوزیشن کی تیل کی بڑی کمپنیوں اور سامراج کی اطاعت شعاری کا نتیجہ ماضی کی طرح وینز ویلا کے تیل کے وسیع زخائر کی پھر سے لوٹ مار ہو گا۔ ان کی جانب سے کاپریلس کی اتخابی مہم کی بڑے پیمانے پر مالی معاونت اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں اس کا ثبوت ہیں۔ اس آدمی کے سیاسی ریکارڈ میں 2002ء میں ہونے والی شاویز محالف فوجی بغاوت کی حمایت جس میں شاویز چند دنوں کے لیے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھااور اس کے دوران کیوبا کے سفارت خانے پر حملہ بھی شامل ہے۔ اس فوجی بغاوت کو امریکہ اور موجودہ اپوزیشن کی حمایت حاصل تھی جو اب جمہوریت کی علمبردارای کا ڈھونگ رچا ر ہے ہیں۔ کاپریلس کی اعلان کردہ خارجہ پالیسی سامراج کی اطاعت گزاری اور بائیں بازو کی حکومتوں سے سرد تعلقات کی ہے جن میں کیوبا، ایکواڈور، بولیویا، نیکاراگوا اور لاطینی امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کی اٹھتی لہر میں منتخب ہونے والی دیگر حکومتیں شامل ہیں۔ لیکن عوام اتنے معصوم نہیں ہیں۔وہ مسکراہٹ کے نقاب کے پیچھے اشرافیہ کے اصل بد صورت چہرے کو دیکھ سکتے ہیں۔
شاویز 1980ء کی دہائی میں فوج کے کمانڈوڈویژن میں کرنل تھا۔ در حقیقت وہ ایک وقت میں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے پہاڑوں میں کی جانے والی گوریلا کاروائیوں کے خلاف آپریشن میں بھی شامل تھا۔ کمیونسٹ گوریلوں میں ایک خاتون لیڈر ماریا لیون بھی تھی جو 2002ء کی فوجی بغاوت کے بعد شاویز کی حکومت میں سینئر وزیر بنیں۔ ماضی کے مخالفین بعد میں انقلاب کی لڑائی میں یکجا ہو گئے۔شاویز جب 1998ء میں جب پہلی مرتبہ منتخب ہوا تو وہ کوئی سوشلسٹ نہیں تھا۔لیکن جب اس نے سرمایہ دارانہ انقلاب کرنے کی کوشش کی تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ان فریضوں کی تکمیل کی سب سے شدید مخالفت سرمایہ دار اشرافیہ اور سامراج کی جانب سے آئی۔ سرمایہ دار، سیاست دان، واشنگٹن سے لیکر لندن اور میڈر ڈ میں موجود ریاستوں کے سربراہان نے اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے ایجنڈے کے آگے جھک جائے۔ ہسپانوی وزیر اعظم ہوزے ماریا آزنر نے اسے کہا کہ ’’ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ‘‘ اور احکامات ماننے کے عوض دولت اورعیش و عشرت کی لالچ دی۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے سابقہ چیف لارنس ایگل برگ کے مطابق دنیا میں موجود ہر گندے طریقے کو شاویز کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے یا پھر اس کے لیے حکمرانی کو مشکل بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
جلد ہی وینزویلا کو معاشی سبوتاژ، تیل کی صنعت کی ہڑتال، سڑکوں پر بدامنی اور میڈیا کی جارہانہ یلغار کا نشانہ بنادیا گیا جس میں زمینی حقائق کو ملکی اورعالمی سطح پر مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ شاویز جتنا مقبول ہوتا گیا، شاویز کے مخالفین کو امریکی ایجنسیوں کی جانب سے اتنے ہی زیادہ ڈالرملنے لگے تا کہ وہ حکومت کو غیر مستحکم، بدنام، نا اہل ثابت کریں اوراس کا تختہ الٹ دیں، یا پھر شاویز کو قتل یا کسی بھی اور طریقے سے اقتدار سے بے دخل کر سکیں۔ امریکی کانگریس کے اراکین کا ایک گروپ جس میں ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن دونوہی شامل ہیں، کئی برسوں سے وینزویلا کو ’’دہشت گردی کی سرپرست ریاستوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کی کوششیں کر رہیں۔ ان کے مطابق وینزویلا اور ایران، وینزویلا اور کیوبا اور حتیٰ کہ وینزویلا اور چین کے تعلقات بھی امریکہ کے لیے ’’سنگین خطرہ‘‘ ہیں۔
اپنے تجربات کی بنیاد پر شاویز اس نتیجے پر پہنچا کہ بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض کو سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بنیاد پر اس نے اکیسویں صدی کے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔ جس کا نتیجہ 2002ء کی فوجی بغاوت کی صورت میں نکلا۔فوج کے سپاہیوں اور نچلے عہدوں کی اکثریت میں شاویز کی حمایت اور کیراکس میں دس لاکھ افراد کے باہر آ جانے سے فوجی بغاوت کو36گھنٹوں میں شکست ہو گئی۔اس کے بعد شاویز نے ریڈیکل اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جس میں تیل کی صنعت اور معیشت کے کچھ حصوں کو قومی تحویل میں لینا شامل ہے۔ پہلے جس دولت کا80فیصد ملک سے باہر جایا کرتا تھا، اسے تحویل میں لے کر بنیادی ڈھانچے اور سماجی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں 1999ء سے2010ء تک غربت میں21فیصد کمی آئی ہے۔ ناخواندگی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ریل، سڑکوں اور بندر گاہوں میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ غریبوں کے لیے مفت اور مکمل طبی سہولیات میسر ہیں۔بے گھر افراد کے لیے 250000نئے گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ ہفتہ وار اوقات کار 44گھنٹے سے کم ہو کر 40گھنٹے ہو چکے ہیں۔ زچگی سے پہلے اور بعد کی چھٹیاں بڑھا کر 26ہفتے کر دی گئی ہیں۔ مرد اور عورت کی برابری اس انقلابی عمل کا خاصا ہے۔
لیکن سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ نہیں کیا گیا اور اشرافیہ معیشت کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ بجلی کی بندش اور بڑھتے ہوئے جرائم یہ ثابت کر رہے ہیں ریاستی سرمایہ داری کی اندر رہتے ہوئے بھی مناسب انفرا سٹرکچر تعمیرنہیں کیا جا سکتا۔ شاویز کسی مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی کا تربیت یافتہ کیڈر نہیں۔ لیکن ایک پارٹی کی ضرورت نے اسے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا (PSUV)بنانے پر مائل کیا۔تاہم یہ پارٹی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور کئی ترقی پسند گروپوں کا ملغوبہ تھی جن میں کوئی نظریاتی اور تنظیمی یکجہتی نہیں تھی۔ مفاد پرست دائیں بازوکے عناصر پی ایس یو وی کے اندر ایک مضبوط شکل میں یکجاء ہو گئے، جس میں اکثریت اصلاح پسند اور موقع پرست رجحانات کی ہے جو سازشی اور غداروں کا کردار اداد کر رہے ہیں۔ وہ انقلابی سوشلزم پر یقین نہیں رکھتے۔افسر شاہی کے کچھ حصے ان ریڈیکل اصلاحات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں جن کا اعلان شاویز اکثر کرتا رہتا ہے۔ یہ سب اقتدار کے دوران بننے والی پارٹی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ انقلاب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی ہے جو ایک دہائی سے جاری ہے۔
وینز ویلا کے عوام غیر متزلزل طریقے سے انقلاب کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور سامراج اور رد انقلابی قوتوں کے حملوں کو ناکام کرتے آ رہے ہیں۔ وہ انقلاب کی حاصلات کے دفاع کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن ا نقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا، وینزویلا میں موجودہ بحران کی وجہ بھی یہی ہے۔ آج عوام کو میڈیا کے پروپیگنڈے اور مالیاتی سرمائے کی یلغار کے سامنے ایک مرتبہ پھر سے آزمایا جائے گا۔دائیں بازو کی سروے کمپنی ڈاٹانیلسز کے سروے کے مطابق شاویز کو 43.6فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ کاپریلس کو27.7فیصد کی۔ فتح کی صورت میں شاویز انقلاب کو مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔وہ اقتدار کی عوام تک منتقلی کے لیے ملک کے طول و عرض میں کمیونز (Communes)یا سوشلسٹ مقامی اداروں کے نظام کا قیام چاہتا ہے۔اکانومسٹ کے مطابق یہ ’’سوویتوں کا لینن اسٹ طریقہ ہے‘‘۔ اکانومسٹ مزید لکھتا ہے کہ ’’اور اگر شاویز کو شکست ہو گئی ؟شاویز نے اس ماہ پہلے ہی کہا ہے کہ کاپریلس کی فتح وینزویلا کو انتہائی غیر مستحکم کر دے گی، یہاں تک کہ ’خانہ جنگی‘ بھی ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے شکست تسلیم نہ کرنے کی صورت میں فوج صدر کی حمایت کرے گی۔ شاویز کی قوتوں میں سے ایک مسلح افواج کے اندر اس کی حمایت ہے جو مسٹر شاویز کے سوشلسٹ پراجیکٹ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں‘‘۔سامراجیوں اور اشرافیہ کے حملوں کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ وہ آگے بڑھ کے سوشلسٹ انقلاب کو مکمل کر ڈالے۔ پی ایس یو وی کے اندر تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکسی قوتیں بڑی تبدیلیوں میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔
متعلقہ: