| تحریر: دانیال عارف |
گزشتہ دنوں ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ تین عورتیں مل کر چوری کی واردات کا پلان بنا تی ہیں۔ شروع میں سب ٹھیک ٹھاک پلان کے مطابق چل رہا ہوتا ہے لیکن جب چوری کر کے باہر نکلتی ہیں تو ان میں سے ایک عورت کے پاس سے سامان کی برآمدگی ہو جاتی ہے۔ باقی دو عورتیں موقع کا فائدہ اٹھا کر وہاں موجود ہجوم کے ساتھ مل کر شور و غل شروع کر دیتی ہیں اور پکڑی جانے والی عورت کو خوب برا بھلا کہتی ہیں۔ اس دوران میں وہ عورت اپنے جرم کو جہاں ملے جلے الفاظ میں قبول کرتی ہے وہیں یہ واویلا بھی کرتی ہے کہ اس کے ساتھ چوری میں باقی دو خواتین بھی ملوث تھیں۔
یہ مختصر سی کہانی آج کل پاکستانی سیاست میں ہونے والے بھونچال کی عکاسی کرتی ہے۔ تین اپریل کو سامنے آنے والے دنیا کے بڑے سکینڈل پاناما لیکس کی زد میں جہا ں بیشتر ممالک کے حکمران اورنامی گرامی ’’معزز‘‘ اور ’’شریف‘‘ حضرات آئے ان میں سے پاکستان میں سے اب تک 259 نام سامنے آئے ہیں جن کے آف شور کمپنیوں میں شیئرز ہیں۔ ان میں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے قائدین سمیت ان کے رشتہ داروں کے نام بھی شامل ہیں۔ نہ صرف سیاسی حضرات بلکہ مختلف میڈیا گروپس، این جی اوز، عدلیہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ’’چور مچائے شور‘‘ والا محاورہ ہی حقیقت معلوم ہوتا ہے۔
اگر ہم اس پورے گھن چکر کو سمجھنے کے لئے ان بنیا دی اصولوں کو سمجھیں جن کے باعث یہ مالیاتی سکینڈلز وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں تو ہمیں گہرائی میں تجزیہ کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ داری میں رائج جو اصول اس نظام کی بنیاد ہے وہ منافع کا حصول ہے۔ منافع کے حصول اور شرح منافع میں اضافے کے لئے ہر طرح کا طریقہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایسے میں ’’قانونی‘‘ اور غیر قانونی جیسی اصطلاحات بڑی بھونڈی اور بے معنی ہو جاتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی اس لڑائی میں باہمی محبت اور نفرت، اتحاد اور نفاق ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس منافع کے حصول کی بنیادی ہوس کے باعث مختلف قسم کی سماجی اور نفسیاتی بیماریاں مثلاً مقابلہ بازی، حسد، لالچ اور نفرت پروان چڑھتی ہیں جو کہ انسانی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہیں اور آج انسانی سماج کی ہر رگ میں سرائیت کئے ہوئے ہیں۔
تمام تر استحصال اور جبر کے باوجود سرمایہ داری اپنے آغاز میں ایک ترقی پسند (Progressive) نظام تھا۔ اس نے یورپ میں جاگیر داری کا خاتمہ کیا، پیداواری قوتوں کو تیز ترقی دی، رفتہ رفتہ پوری دنیا کو ایک منڈی میں تبدیل کر کے جوڑا اور انسانیت کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی منازل سے روشناس کروایا۔ لیکن یہ سب محنت کشوں کے بدترین استحصال کے بغیر ممکن نہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ منڈیوں پر قبضہ کی لڑائی مختلف ممالک میں شدت اختیار کر گئی تو ہمیں اس کا اظہار سامراجی قوتوں کے درمیان دو عالمی جنگوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ نظام اپنی حدود تک پہنچ گیا اور اس کا ترقی پسندانہ کردار اس کی پھیلائی گئی غربت، محرومی، بربادی اور جنگوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا۔ صنعت اور پیداواری عمل میں شرح منافع کی گراوٹ کے پیش نظر سرمایہ داروں نے پیسے سے پیسہ بنانے کے نئے طریقے ایجاد کئے۔ اس سارے عمل میں سرمایہ دار طبقہ چونکہ سماج پر حاکم طبقے کا کردار ادا کرتا ہے لہٰذا مختلف طریقہ ہائے واردات استعمال کر کے یہ طبقہ نہ صرف اپنے سرمائے اور اقتدار کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ شرح منافع کے حصول کے لئے لوٹ مار کی کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی ادارے بھی انہی مقاصد کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اس وقت سرمایہ کے اس گھن چکر نے نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک کو گھیر رکھا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک مثلاً یونان بھی اب ان سامراجی اداروں کے رحم و کرم پر ہیں جو عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے لئے بضدہیں۔ مختلف ممالک ان سامراجی اداروں سے قرضہ لے کر ملکی معیشت کو چلاتے ہیں لیکن یہ ادارے ان ممالک کو قرضے سخت شرائط پر فراہم کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کے لئے لوٹ مار کی نئی راہیں بھی متعارف کروائی جاتی ہیں۔ اس پیرائے میں پاکستان کی نحیف، کمزور اور لاغر معیشت پر قرضوں کا حجم مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک کا بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر ہے جو کہ ایک اندازے کے مطابق 2018ء تک 91 ارب ڈالر ہو جائے گااور ہر سال حکومت کو داخلی و بیرونی قرضوں پر 20 ارب ڈالر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کرنے ہوں گے۔ یقیناًان نئے قرضوں کے حصول کے لئے زیادہ سخت شرائط لاگو کرنا پڑیں گی جس کا بوجھ بالآخر عوام کی اکثریت پر ٹیکسوں کی شکل میں ڈالا جائیگا۔ پہلے سے ہی آئی ایم ایف کی موجود شرائط کے مطابق 65 قومی اداروں کی نجکاری اور ضرورت کی اشیا پر ٹیکس کا اضافہ کیا جارہا ہے۔
ان حالات میں آنے والی ہر سرمایہ دارانہ حکومت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ہر پالیسی تسلیم کرنا پڑے گی۔ اس کیفیت میں چہروں یا سیاسی جماعتوں کی تبدیلی سے معیار زندگی تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ یہ سارے حکمران ایک ہی طبقے سے ہیں اور ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں۔ تمام پارٹیاں اور ان کی قیادتیں بالواسطہ اور بلاواسطہ حکومت میں رہ چکی ہے یا آج بھی ہے۔ پاکستان کی مروجہ سیاست پر غور کیا جائے تو سب کے سب حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن کا ناٹک بھی کرتے ہیں۔ سب کرپٹ بھی ہیں اور کرپشن کے خلاف شور بھی مچاتے ہیں۔ لیکن اگر اس نظام کے اند ر رہتے ہوئے انتہائی نیک اور پارسا حکمران بھی اقتدار میں آ جائے تو بھی بہتری ناممکن ہے اور وہ بھی یہی کرنے پر مجبور ہو گا جو آج ہو رہا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس کے علاوہ کچھ ممکن نہیں۔ اس صورتحال میں تبدیلی کے جھوٹے اور مکارانہ نعرے لگا نا موجودہ حکمرانوں کے جرائم سے بھی گھناؤنا جرم ہے۔ کیا تحریک انصاف کے پاس تقریباً 20 ہزار ارب روپے کے داخلی و بیرونی قرضے ادا کرنے کے لئے کوئی جادوئی چھڑی موجود ہے؟ کیا اس کے اپنے لیڈر جو ماضی میں حکمرانی کے مزے ہر جماعت میں رہ کر لوٹ چکے ہیں، انہوں نے اپنے حلقوں میں سارے عوامی مسائل حل کر دئیے تھے؟ کیا خیبر پختونخواہ میں لوگوں کے حالات بہتر ہو پائے ہیں؟ کیا عالمی مالیاتی اداروں کے اس گھن چکر اور اس سے بڑھ کر لوٹ کھسوٹ کے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے سوا کوئی حل موجود ہے؟ اگر نہیں تو تبدیلی کا ہر ایک نعرہ کھوکھلا، زہریلا اور پرفریب ہے۔ معیشت اسی وقت محنت کشوں، نوجوانوں اور وسیع تر عوام کی زندگی میں کوئی بہتری لا سکتی ہے جب اسے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود سے آزاد کیا جائے۔ پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب تمام تر ذرائع پیداوار کو اشتراکی ملکیت میں لیا جائے، تمام بیرونی و داخلی قرضوں کو ضبط کیا جائے اور معیشت کو منافع کی بجائے انسانی ضرورت کے تحت جمہوری بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ یہ فرائض سوشلسٹ انقلاب ہی ادا کر سکتا ہے۔
متعلقہ: