[تحریر: پارس جان]
کامریڈ کرامت بھی گزر گئے۔ طویل اور ان تھک جدوجہد کا ایک اور باب بند ہو گیا۔ اس نئے زخم نے کتنے ہی پرانے اور ادھ بھرے زخموں کو ہرا بھرا کر دیا۔ جس پر ہمیں ناز تھا وہ قوتِ برداشت جیسے یکدم بے وفا ہو گئی۔ پتھرائی ہوئی بنجر آنکھیں بھی نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ اچانک کچھ طفلانہ خواہشیں بھی بیدار ہو رہی ہیں۔ دل ضد کر رہا ہے کہ ماضی کے گھنے جنگل سے کچھ شاخیں توڑ لائے۔ KESC کے محنت کشوں کی لازوال جدوجہد کے وہ انمول دن جو کامریڈ کرامت کے شانہ بشانہ سرمایہ دارانہ جبر سے ٹکراتے ہوئے گزارے، ان کی یاد شریانوں میں کھلبلی مچا رہی ہے۔ مل کر دیکھے ہوئے ایک روشن مستقبل کے خوابوں نے خیالات میں جیسے کہرام برپا کیا ہوا ہے۔ یہ اخلاقیات کے مبلغین نام نہاد خیال پرست دانشور کیا جانیں کہ ہم مادیت پسندوں کے سینوں میں دل کتنی شدت سے دھڑکتا ہے۔ KESC کے مرکزی آفس کے سامنے گِزری کے گرین پلاٹ میں بیٹھے وہ گھنٹوں تحریک کے مستقبل، معیشت، سیاست اور فلسفے پر لمبی لمبی بحثیں، سماعتوں کے کتنا قریب ہو گئی ہیں۔ کل جب میں آغا خان ہسپتال کی ایمر جنسی میں ان کو دیکھنے پہنچا تو وہ نیم مردہ حالت میں بے حص و حرکت پڑے تھے۔ ان کے قریب 15 منٹ ششدر کھڑے ہوئے جیسے وہ سارے پل اور سارے لفظ تازیانوں کی طرح مجھ پر برس پڑے۔
بعض اوقات جب احتجاج میں تاخیر سے پہنچنے پر کامریڈ کرامت ناراض ہو جاتے تھے تو زندگی اچانک کتنی بے رنگ ہو جاتی تھی۔ مان بھی جاتے تو وقتاً فوقتاً بہانے بہانے سے پھر جملے کستے رہتے تاکہ آئندہ ہم دیر نہ کریں۔ ان کی طبیعت کے لا ابالی پن میں کتنی اپنائیت تھی۔ بعض اوقات تو گھنٹوں کیا دنوں روٹھے رہتے اور پھر خود ہی کسی بہانے سے مان جاتے اور اچانک اتنے مہربان ہو جاتے جیسے کبھی خفا ہی نہ ہوئے تھے۔ عام طور پر سنجیدگی ان کا طرزِ عمل تھا مگر کبھی کبھی اتنا شائستہ اور پر وقار ہنس دیتے جیسے ہم پر احسان کر رہے ہوں۔ ان کی ان مسکراہٹوں کا قرض پتہ نہیں ہم چکا پائیں گے یا نہیں۔ خاص طور پیپلز پارٹی کے ایک مخصوص لیڈر کی نجکاری کے خلاف تقریر سن کر یوں طنزاً قہقہہ لگاتے کہ سب چونک چاتے۔ اس لمحے ایسا لگتا جیسے ان کی ساری سیاسی بصیرت ان کے رخساروں اور پیشانی کی سلوٹوں میں سمٹ گئی ہو۔ اتنی ذہین اور متین مسکان کے بعد اگرچہ کچھ کہنے کی حاجت باقی نہ رہتی پھر بھی بس ایک جملہ دو تین دفعہ دہرا دیتے یا بعض اوقات کافی دیر دہراتے رہتے ’یہ یا تو بالکل پڑھتا نہیں ہے یا پھر دال میں کچھ کالا ہے‘۔ اپنی تحریک کے ساتھیوں کے ساتھ جتنے نرم اور مہربان تھے، محنت کشوں کے غداروں کے ساتھ اتنے ہی بے مہر اور جلالی ہو جاتے۔ جس کے دل میں بھی محنت کشوں کی تحریک کے خلاف کوئی خیال ہوتا تو وہ بھی خوف کے مارے ان کے قریب سے نہ گزر سکتا۔ ان کی تحریر میں جتنی چاشنی تھی، تقریر میں اس سے کہیں زیادہ تاثیر تھی۔
کامریڈ کرامت اپریل 1957ء میں کبیروالا میں پیدا ہوئے۔ انقلابی سیاست کا آغاز زمانہ طالب علمی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی ترقی پسند طلبہ تنظیم ’’انقلابی کونسل‘‘سے کیااور مرتے دم تک سوشلزم کے نظریات سے وفادار رہے۔ ضیاالحق کی وحشی آمریت کے عہد میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے محنت کشوں کی بغاوت میں پیش پیش رہے۔ بعد ازاں ریاستی جبرکی وجہ سے انہیں کراچی منتقل ہونا پڑا۔ وہ محض سرگرم ٹریڈ یونین کارکن ہی نہیں تھے بلکہ فلسفے پر بھی خاص عبور رکھتے تھے۔ ان کے نظریے کی مستقل مزاجی کا عالم یہ تھا کہ زندگی کے آخری انتہائی کربناک دنوں میں کسی کامریڈ نے ازراہِ مذاق کہہ دیا کہ ’کامریڈ اب تو خدا ہی آپ پہ رحم کرے‘، تو غصے سے لمحہ بھر سوچ کے جواب دیا کہ ’میں آج بھی خود کو کسی کے رحم و کرم پر محسوس نہیں کرتا‘۔ دو روز قبل بھی ایک کامریڈ سے اس بات پر سخت ناراض ہوئے کہ ابھی تک تنظیم کی دستاویز ان کو کیوں نہیں پہنچائی۔ KESC کی تحریک کی ناکامی کے بعد کامریڈ نے بھی 4500 برطرف شدہ مزدوروں کی طرح زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں گزارے۔ دو عشروں پر محیط ان کی سیاسی جدوجہد کے دوران ان کے سامنے ان کے بہت سے نام نہاد رفقا نے بہت مال بنایا مگر انہوں نے الٹا خرچ کیا۔ سیاست سے مال بنانے کے مکروہ فعل سے ان کو سخت نفرت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی جمع پونجی نہ تھی اور جب میڈیکل الاؤنسز بند ہوئے مرض تہری اذیت میں بدل گیا۔ وہ کئی برسوں سے گردے اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اتنی تکلیف میں بھی اپنی خودداری اورحساسیت پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ نئی نسل کے ہزاروں انقلابی کارکنوں کے لیے ان کی زندگی بلاشبہ مشعلِ راہ ہے۔
یوں تو ہم محنت کشوں کا ایک ایک پل اذیتوں اور مشکلات سے بھر پور ہوتا ہے مگر اس تازہ ستم نے تو جیسے زخموں پر نمک ہی مَل دیا ہو۔ کامریڈ کرامت فوت نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نیو لبرل اکانومی کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ نجکاری کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے دیگر ہزاروں گھرانے بھی اتنی ہی کربناک زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں اور اذیتوں کے باوجود ہم مارکسسٹ ’وجودی‘ ادیبوں کی طرح زندگی سے بیزار نہیں ہوتے۔ ہم زندگی سے محبت کرتے ہیں، اتنی محبت کہ اس کے لیے ہم ہزار بار موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اسی جوش اور ولولے کے ساتھ زندگی کے تقدس اور حرمت کے لیے لڑتے رہیں گے۔ اے سرمایہ دارانہ نظام بات سن! ہم تجھ سے مخاطب ہیں۔ تو نے جو کئی صدیوں سے ہمارے آبا ء و اجداد اور محنت کش بہن بھائیوں کا قتلِ عام کیا ہے ان سب کا حساب کتاب اپنی جگہ، مگر کامریڈ کرامت کی زندگی کے آخری ایام میں جو ان کے قابلِ تعظیم محسوسات کو تو نے زِک پہنچائی ہے، محض اسی کی پاداش میں تیرا قتل ہم پر واجب ہو گیا۔ نسلِ انسانی کی بقا کی جدوجہد کی قسم ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے۔