کسے خبر تھی کہ 20 ستمبر 1996ء کی ڈھلتی ہوئی شام اس قدر خون آشام تاریکی میں تحلیل ہوجائے گی۔ شام کا دھندلکا جب رات کی تاریکی میں ڈھل رہا تھا تو پاکستان کے سب سے معروف سیاسی پتے 70-کلفٹن کے گرد ونواح کی بجلی بند کر دی گئی۔ جب میر مرتضیٰ بھٹو کا قافلہ اس گھر کے قریب پہنچا تو پورے علاقے پر ایک پروحشت ناک سناٹا چھا چکا تھا۔ اس تارگی اور خاموشی کی آڑ میں پولیس کی بھاری نفری کسی خونریز شکاری کی طرح تاک لگائے ہوئے تھی۔ قافلے کی گاڑیاں رکتے ہی گولیوں کی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ اپنے ایک ساتھی کے گرنے پر مرتضیٰ بھٹو نے جھپٹ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اورباہر چھلانگ لگا دی۔ وہ پولیس والوں کی جانب لپکا اور ان کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مر تضیٰ کی پکار کا جواب سرکاری بارود سے دیا گیا۔ خود کار ہتھیاروں کی یہ فائرنگ آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔ مرتضیٰ کے جسم میں گولیاں پیوست ہوتی گئیں اور زخموں سے نڈھال یہ 42سالہ قد آور اور خوبرو جوان زمین پر آگرا۔ ایک ہولناک سناٹا چھا گیا۔ مرتضیٰ کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں 11 بج کر 45 منٹ پر وہ رخصت ہوگیا۔ اس خونی حملے میں مرتضیٰ کے چھ جانثار ساتھی بھی شہید ہوئے۔ یہ پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا اور مرتضیٰ کی بہن بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان تھیں۔ مقدمات درج ہوئے، ٹرائل ہوئے، کئی پولیس افسران اور گواہوں کو ثبوتوں سمیت پراسرار طور پر مٹا دیا گیا، اس نوعیت کے بے شمار دوسرے مقدمات کی طرح یہ مقدمہ بھی عدالتی کاروائیوں اور قانونی پیچیدگیوں میں دفنا دیا گیا۔ آصف زرداری سمیت دوسرے کئی سرکاری و غیر سرکاری ملزمان ’’ثبوت نہ ملنے‘‘ پر بری کردئے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کی انقلابی سیاست اور نظریاتی جدوجہد سے خوفزدہ حکمرانوں اور ریاستی دھڑوں نے اس موت کے بعد سکون کا سانس لیا۔
مرتضیٰ بھٹو کی داستان حیات بھی بھگت سنگھ سے ملتی جلتی ہے۔ بچپن میں وہ چے گویرا کا حلیہ اپنا کر گوریلا جنگ کا کھیل کھیلا کرتا تھا۔ اس نے یورپ میں حکمرانوں کے بڑے ناموں والے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی لیکن اپنے انقلابی نظریات سے روگردانی نہیں کی۔ ابھی وہ زیر تعلیم ہی تھا کہ 4اپریل 1979ء کو خونخوار فوجی آمر ضیاالحق نے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروا دیا۔ اس صدمے نے مرتضیٰ کو مایوس کرنے کی بجائے اس کے سینے میں بغاوت اور انتقام کی آگ بھڑکا دی۔ تمام تر سفارتی مہمات اور سیاسی ایجی ٹیشن کے باوجود وہ اپنے والد کی سزائے موت کو نہیں رکوا سکاتو اس نے ریاست اور آمریت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا انتقام سرمائے کی جمہوریت نہیں بلکہ صرف انقلاب کے ذریعے لیا جاسکتا ہے۔ 1979ء میں ہی اس نے کابل میں ’’الذوالفقار‘‘ نامی گوریلا تنظیم کی بنیاد رکھی اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس تنظیم نے ضیا آمریت کے خلاف بہت سی کاروائیاں کیں، کچھ کامیاب ہوئیں اور کچھ ناکام۔ اس کٹھن سفر میں مرتضیٰ کو دیوہیکل ریاست کے وحشیانہ جبر کے ساتھ ساتھ بہت سی غداریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس نے بہت تکالیف اور اذیتیں برداشت کیں۔ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی محدودیت اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کے باعث 1980ء کی دہائی کے وسط تک الذوالفقار ٹوٹ کر بکھرنے لگی اور رفتہ رفتہ اس کا وجود عملاً ختم ہوگیا۔ لیکن اس ساری جدوجہد کے دوران مرتضیٰ نے کئی اسباق سیکھے اور اہم نتائج اخذ کئے۔ جیسا کہ بھگت سنگھ نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے سماج کو یکسر بدل دینے والا انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ بندوق کے زور سے اگر سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ بھی دیا جائے تو عوام کی مکمل حکمرانی اور صحت مند مزدور ریاست قائم نہیں کی جاسکتی۔
جلاوطنی کے دوران مرتضیٰ نے مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تصانیف کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ 1993ء میں بے نظیر کے دوسرے دور حکومت کے دوران جب وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے پاکستان واپس آیا تو اسے سیدھا جیل سدھار دیا گیا۔ اس کی ماں بیگم نصرت بھٹو نے ہر مشکل وقت میں اپنے بیٹے کا ساتھ دیا اور اس کا اخلاقی اور جذباتی سہارا بنیں۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ مارکسزم اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے موضوعات پر انقلابی ساتھیوں کے ساتھ طویل بحثوں کے ذریعے سوشلزم کے نظریات کو سمجھنے اور سیاسی لائحہ عمل تشکیل دینے میں مصروف رہا۔ مرتضیٰ نے انقلاب روس اور چین سمیت دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دئیے تھے۔ اس کا پسندیدہ موضوع بالشویک انقلاب کے بعد روس پرحملہ آور ہونے والی 21 سامراجی ممالک کی جارحیت کو شکست دینے میں ٹراٹسکی کا کردار اور لائحہ عمل ہوا کرتا تھا۔ اس نے ماضی میں مسلح جدوجہد کے طریقہ کار اور حکمت عملی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو دوبارہ اس کے بنیادی سوشلسٹ منشور پر استوار کرنے کی سیاسی جدوجہد شروع کی۔ اس سلسلے میں مرتضیٰ نے بینظیربھٹو کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو انقلاب کی باتیں نہ کبھی پسند آئیں ہیں اور نہ ہی آسکتی ہیں، یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس کے باعث مرتضیٰ اور بے نظیر کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی حکومت کی ریاست اور استحصالی نظام سے مصالحت کے باعث پارٹی کارکنان خصوصاً نوجوانوں میں مرتضیٰ کی مقبولیت بڑھنے لگی تھی۔ ان حالات میں بالادست طبقات کے چند سیاستدان مرتضیٰ کے قریب ہوکر اپنے گھیرا تنگ کرنے لگے۔ انہوں نے مرتضیٰ کو الگ پیپلز پارٹی بنانے کی ترغیب دینا شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی میں سرگرم مارکسسٹوں نے اس عمل کے مخالفت کی۔ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو مرتضیٰ پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھااور الگ پارٹی بنا کر کیا جاسکتا تھا، پارٹی میں مرتضیٰ کا سیاسی اور ذاتی اثرورسوخ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی اسے چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ ان حالات میں الگ پارٹی بنانا اپنے آپ کو ان لاکھوں کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں سے کاٹنے کے مترادف تھا جو پیپلز پارٹی کی صفوں میں اتحاد کو ہی اپنی نجات سمجھتے تھے اور پارٹی کی اصل سماجی بنیاد تھے۔ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر الگ پارٹی قائم کرنے کے بعد رجعتی قوتوں کے لئے مرتضیٰ بھٹو کو نشانہ بنانا آسان ہوگیا اور موقع ملنے پر انہوں نے جان لیوا وار کرڈالا۔
سازشی تھیوریوں سے ہٹ کر اگر سیاسی اور سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو مرتضیٰ بھٹو کی اصل قاتل وہ استحصالی قوتیں ہیں جو سامراجیت، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف مرتضیٰ کے سوشلسٹ نظریات سے خوفزدہ تھیں۔ اس قتل کا مقصد پیپلز پارٹی کو اس کے بنیادی سوشلسٹ منشور اور انقلابی پروگرام پر ایک نئی استواری سے روکنا تھا۔ مرتضیٰ کے قتل کے بعد پارٹی قیادت کی نظریاتی زوال پزیری کا عمل جاری رہا اور پیپلز پارٹی 1997ء کے انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ 2013ء کے انتخابات میں انہی وجوہات کی بنا پر پارٹی کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی سیاسی بحالی صرف انہی نظریات کی بنیاد پر ممکن ہے جن کے لئے مرتضیٰ نے اپنی جان دی۔ حکمران طبقات کے پاس بہت سی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جنہیں وہ بوقت ضرورت اپنے استحصالی نظام کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن نوزائیدہ پیپلز پارٹی کو محنت کشوں اور نوجوانوں نے 1960ء کی دہائی کے اواخر میں اٹھنے والے انقلابی طوفانوں میں راتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت بنا دیاتھا، انہوں نے کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی کو اپنے خون سے سینچا ہے لیکن آج ان کی نئی نسلیں کہیں زیادہ ذلت اور استحصال کی اذیت میں اپنی قربانیوں کا حساب مانگ رہی ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو کا لہو اس نئی نسل کو سوشلسٹ انقلاب کا پیام دے رہا ہے۔ اسی انقلاب کی برسات سے ہی مرتضیٰ بھٹو اور تمام دوسرے انقلابی شہیدوں کے لہوکے دھبے دھلیں گے!