اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟

اگر پاکستان کے مالکان کی آزادی کی 65 سالہ تاریخ ہے تو اس ملک کے محنت کش محکوموں کی بغاوت اور جدوجہدِ آزادی کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج ایک اور جشنِ آزادی یہاں کے 20 کروڑ انسانوں کی محرومیوں اور بربادیوں کے ماتم پر منایا جا رہا ہے۔ان کی زندگیوں‘ اذیتوں اور عذابوں کو قوم پرستی اور محب وطنی کے نشے میں غرق کر کے حکمران طبقات انکی ظالم ریاست ان کے دہشت گرد مذہبی جنونیت کے گروہ، ان کے قوم پرست اور لبرل حکمران،ان کے دانشور،ان کی عدلیہ اور ان کا آزاد میڈیا اس خلق کو اس سرمایہ دارانہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔
برِ صغیر کا خونی بٹوارا ایک انقلاب کو کچلنے کے لئے سامراجی درندوں کا اپنے مقامی دلالوں کے ذریعے ایک درد ناک زخم تھا اور برِصغیر جنوب ایشیا کے جسم کی اس چیر سے آج بھی خون بہہ رہا ہے۔سامراجی استحصال اور مقامی حکمرانوں کی لوٹ مار کا نظام تو بچ گیا۔لیکن ڈیڑھ ارب انسانوں کی نسلیں دربدر برباد اور ہلکان ہو کر رہ گئیں۔آزادی کے بعد ہندوستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں نے سرمایہ دارانہ غلامی کی ان بیڑیوں کو توڑنے کیلئے بے پناہ جدوجہد کی اور تحریکیں چلائیں۔ لیکن ایک مارکسی قیادت کے فقدان سے آج بھی اس سرمایہ دارانہ زندان کے عذابوں سے نالاں اور بیزار ہیں۔وہ پھر ابھریں گے تحریک کی قیادت اور انقلاب ان کا نصیب بن کر رہیں گے۔ ٹوٹے ہوئے پاکستان میں یہ بغاوت بٹوارے کی دو دہائیوں کے بعد اٹھی تھی۔ وہ وہاں تک پہنچی تھی جس منزل کو شاید ہندوستان میں ایک سپنا بنا دیا گیا تھا۔ 1968-69 ء کا انقلاب جو سوشلزم سے پیشتر کسی مقام کسی پڑاؤ کسی مرحلے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔لیکن یہاں نہ تو کوئی لینن اسٹ پارٹی تھی اور نہ ہی مارکسی قیادت۔ اس خلاء میں بھی محنت کشوں کی انقلابی تحریک خود ایک پارٹی تراش لائی۔
لیکن چونکہ نظریات مبہم تھے۔ تنظیم تیار نہیں تھی نامکمل تھی اس لئے پیپلز پارٹی انقلابی سوشلزم کے نام پر یہاں کے محنت کشوں کی 139 دنوں کی کل تاریخ میں اس انقلابی ریلے کی انقلابی پارٹی تو نہ بن سکی لیکن روایت ضرور بن گئی تھی۔نظریاتی ابہام اور ریاست کے اندر ریاست بننے کی اہلیت نہ رکھنے والی پارٹی ہونے کے المیے سے دوچار یہ پارٹی سرمایہ دارانہ ریاست میں آ کر اسی ریاست کی قیدی بن گئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس چکر کو توڑنے کی کو شش کی جسکی پاداش میں اس کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ پھریا لڑنا تھا یا پھر مرنا تھا۔ جب قیادت نے مصالحت کی تو نظریات کی موت ہونا شروع ہو گئی۔جب نظریات ماند پڑ جائیں تو خود غرضی اور بد عنوانی پنپتے ہیں۔انہی آدرشوں نے نظریات کا خون کر کے اس عوام کی پارٹی کو سامراج اور حکمرانوں کا آلہ کار بنا دیا۔ آج نواز شریف‘ جماعت اسلامی اور عمران خان جیسے رجعت پسند دائیں بازوکے افراد اس ملک کے ہر عذاب‘ ہر جرم کی گالی پیپلز پارٹی کو دے رہے ہیں۔پارٹی کی سرمایہ دارانہ قیادت نے اس نظام کے تحفظ کی عوام دشمن پالیسیوں سے ان کو یہ مواقع خود فراہم کئے ہیں۔ان کیلئے اقتدار اور حاکمیت کے راستے خود ہموار کئے ہیں۔لیکن اگر یہ دائیں بازو کے لوگ اقتدار میں آ بھی جائیں تو یہ بدحالی مزید تباہ کاریوں میں ہی جائے گی۔فوج اس شدید بحران کی وجہ سے براہ راست حکمرانی میں آنے سے خوف زدہ ہے۔ سماج میں اس بحران کے کرب سے ایک کہرام مچا ہے۔ عوام اس المناک زندگی کو بدلنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔اس کو بدلنے کے لئے ایک راہ تلاش کر رہے ہیں۔ جہاں ریاست کا ہر ادارہ معاشرے میں سلگنے والی اس آگ سے جھلس رہا ہے وہاں پیپلز پارٹی پر براجمان لیڈروں میں بھی تمام مصالحتوں اور اقتدار کی مراعتوں کے باوجود تضادات تصادموں میں پھٹ رہے ہیں۔ عوام کی اصل ایشوز پر بکھری ہوئی تحریکوں کو میڈیا نان ایشوز کے ذریعے مزید منتشر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن جب پیٹ خالی ہو‘ جب زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل ہر لمحے کو دوبھر کر دیں‘ تو پھر کب تک بغاوتیں رکیں گی‘ کب تک تحریکیں منتشر ہوں گی اور کب تک عوام کا انقلابی ابھار تھمے گا۔ایک مارکسی قیادت میں یہ انقلابی تحریک ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار ہو گی۔ لیکن پھر انقلابات اگر تاریخ کے دھارے موڑ دیتے ہیں تو پھروہ تہذیب‘ اخلاقیات اور جغرافیوں کی موجود اقدار اور تسلیم شدہ معمول بھی چیر دیتے ہیں۔۔۔!