| تحریر: الیاس خان |
یوں توہر آنے والا دن بہت سی کہانیوں کو جنم دیتا ہے لیکن بعض ایام اپنے دامن میں سبق آموز داستان رکھنے کی بدولت نہایت اہمیت کے حامل بن کر منفی یا مثبت تاریخی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ لہٰذا انکو جانچنے،پرکھنے اور اسباب تلاش کرنے کیلئے تاریخی پس منظر اور سیاق وسباق کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں 5 جولائی 1977ء بھی ایک ایسا دن ہے جس نے پاکستانی سماج کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے اور سیاسی تاریخ کے دھارے کو ایک نئی ڈگر پر موڑ دیا۔ 5 جولائی (1977ء) وہ زہر ہے جو نہ صرف چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خون میں سرائیت کرگیا اورانہیں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں اتار گیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ان گنت کارکنان بھی مختلف طریقوں سے قبروں میں چلے گئے۔ بعد ازاں اسی زہر کے اثرات چیئرمین بھٹو کے دیگر اہل خانہ کیلئے بھی جا ن لیوا ثابت ہوئے۔ نیز پاکستان کے کروڑوں غریب عوام و محنت کش بھی تا حال اس زہر کے زیر اثر نہایت مفلوج اور ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک سائنسی اصول ہے کہ کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کیلئے اس سے جڑے تاریخی واقعات کو جوڑ کر اور تسلسل میں رکھ کر تجزیہ کیا جائے۔ واقعات کو تاریخی تسلسل سے علیحدہ کر کے یا واقعات کاجزوی تجزیہ کرنا وقت گزاری تو ہو سکتا ہے مگر اس سے کوئی حقیقی نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا 5 جولائی جسے یوم سیاہ کہا جاتا ہے کا تعلق چیئرمین بھٹو اور پیپلز پارٹی سے اسی طور منسلک ہے اور وہ اسباب اور وجوہات تلاش کرنی ضروری ہیں جو 5 جولائی کے جنم کا باعث بنی اور جس نے پاکستانی سماج کو تاراج کر کے تعفن زدہ بنا دیا جو تا حال اسی کرب میں مبتلا ہے اور اسی المیہ کی بدولت کئی نسلیں برباد ہو چکی ہیں۔ کسی نے کہا تھا !
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی سیاسی جماعت نے اتنے کم عرصے میں اتنی مقبولیت حاصل کی ہو جیسی پیپلز پارٹی نے کی جس نے 30 نومبر 1967ء میں جنم لیکر 1970ء میں عظیم انتخابی کامیابی پا کر اقتدار حاصل کر لیا۔ دراصل 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں دیگر ممالک کی طرح پاکستانی سماج بھی سوشلسٹ انقلاب کیلئے کروٹ لے رہا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی اس آرزو کی تکمیل کیلئے چیئرمین بھٹو نے محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور کچلے ہوئے عوام کے ساتھ اور پاکستان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ و وعدہ کیااور یہ تحریری معاہدہ وہ تاسیسی دستاویز ہے جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کی حکمران اشرافیہ اور عوام دشمن عناصر پر لرزا طاری کر دیا۔ پارٹی کی اس تاسیسی دستاویز میں جو سوشلسٹ انقلابی پروگرام دیا گیا اس سے محنت کش طبقے میں ایک جرأت،حوصلے اور امید نے جنم لیا۔ جس کی بدولت پاکستانی غریب عوام چیئرمین بھٹو کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئی۔ اس کیفیت نے بھٹو اور عوام کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق پیدا کر دیا۔ چیئرمین بھٹو نے پاکستان کی کروڑوں عوام سے پارٹی کی تاسیسی دستاویز کی شکل میں جو وعدہ کیا وہ پیپلز پارٹی کی روح بن گیا۔ اس دستاویز نمبر 5کے بنیادی اصولوں میں پہلا مقصد ہی یہ تھا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی عوام کی عین خواہشات کے مطابق اس ملک کو ایک سوشلسٹ معاشرے میں ڈھال کر مساواتی جمہوریت کے ذریعے غیر طبقاتی معاشرے کا قیام عمل میں لائے گی اور اقتصادی و سماجی انصاف کے حصول کی خاطر سوشلسٹ نظریات و معیشت پر عمل کرے گی۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت عوام کے استحصال کا باعث ہوتی ہے،سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں عوام کی تقدیر چند امیر لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور ملک میں ترقی و خوشحالی اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک ریاست بھاری مشینری، فولاد، ادویات اور دیگر تمام چھوٹی بڑی صنعتیں اور زر مبادلہ کے تمام ذرائع یعنی بینک، اسٹاک ایکسچینج اور دیگر انشورنس کمپنیاں قومیا کر عوام کے اجتماعی انتظام و انصرام میں نہ کر دے،نیز مفت تعلیم، مفت علاج اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا حصول ہر شہری کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے۔ جسے پیپلز پارٹی اقتدار میں آ کر پورا کرنے کا ذمہ لیتی ہے۔
یہ مذکورہ بالا چند سطور پیپلز پارٹی کا تاسیسی دستاویز یا معاہدہ، جو عوام اور بھٹو کے درمیان طے پایا،کا حصہ ہے۔ جو پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام کا نچوڑ ہے۔ اسی پر کشش انقلابی سوشلسٹ پروگرام نے چیئرمین بھٹو کی شخصیت کو قدر و منزلت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو جب کسی سیاسی جلسے کیلئے ملک کے کسی شہر،قصبے یا دیہات میں جاتے تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں محنت کش اور غریب عوام اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے جلسہ گاہوں کو انسانی سمندر میں بدل دیتے۔
یہ لاکھوں کے ہجوم کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی فراہم کردہ بسوں کے مرہونِ منت نہ ہوتے بلکہ محنت کش اپنی مدد آپ کے تحت ان جذبوں کا اظہار کرتے۔ چیئرمین بھٹو اپنے خطابات میں عوام سے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا وعدہ کر کے عوامی تائید حاصل کر کے اپنے انقلابی کارواں کو آگے بڑھا دیتے۔
چنانچہ اس ساری صورتحال میں بے بس و لاچار حکمران اشرافیہ عوامی سمندر اور چیئرمین کے محنت کش طبقے کے ساتھ پختہ ہوتے جدلیاتی رشتہ سے خوف زدہ ہو کر سازشیں کرنے لگے۔ اس مقصد کی لئے سب سے پہلے پاکستان کی مذ ہبی جماعتوں کو میدان میں اتارا گیا۔ جماعت اسلامی،جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر مذہبی و فرقہ پرست جماعتیں اپنے اپنے فتوؤں کی توپیں لیکر عوامی طوفان کے سامنے آگئیں۔ فتوؤں کی گولہ باری شروع کر دی گئی کہ جو PPP کو ووٹ دے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ جو بھٹو کے جلسوں میں جائے گا وہ جہنمی ہو جائے گا۔ جو عورت سوشلزم کو ووٹ دے گی اسکا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ مگر محنت کش عوام اور خواتین کسی فتوے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار سوشلسٹ انقلا ب کرنے کی دھن میں چیئرمین بھٹو کے گرد منڈلانا اپنا ایمان سمجھتے رہے اور طاغوت بے بس ہو گیا۔ پھر عوام دشمن عناصر اور سوشلسٹ انقلاب کی یلغار سے خوفزدہ افراد نے دوسری چال چلی، وہ یہ کہ جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں، موقع پرستوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی اور پارٹی میں شامل ہو کر طرح طرح کی سازشیں کر کے سوشلسٹ انقلاب کی اٹھان کو زائل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ تمام طاغوت ایک مقصد کے لئے اکٹھا ہو گیا۔ جبکہ پاکستا ن کا نام نہاد بایاں بازو اس انقلابی اٹھان کو امریکہ اور CIA کی تحریک کہتا رہا۔
پھر دسمبر 1970ء کا انتخابی معرکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین بھٹو کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے وعدے پر واضح اکثریت سے جیت لیا۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو کامیابی حاصل ہو گئی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان میں ابھرنے والے انقلابی طوفان کو انتخابات کے ذریعے سے زائل کرنے کی کوشش جب ناکام ہو گئی تو حکمران طبقات نے جنرل یحییٰ کی قیادت میں اس انقلاب کوشکست دینے کے لئے ملک کو دو لخت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان میں تحریک انقلابی پارٹی کی قیادت میسر نہ ہونے کے باعث قومی بنیادوں پر زوال پذیر ہو گئی جبکہ مغربی پاکستان میں سامراجی ممالک اور یہاں کے حکمران طبقات کو پیپلز پارٹی کو اقتدار سونپنا پڑا۔
چیئرمین بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے وقوع پذیر ہونے کے تمام حالات و واقعات پر ایک اہم کتاب ’’ عظیم المیہ‘‘ کے نام سے لکھی۔ جسکا پہلا اور دوسرا ایڈیشن بالترتیب ستمبر اور اکتوبر 1971ء میں شائع ہوا۔ شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات کا جواب دیتے ہوئے بھٹو نے اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر 11 پر واضح طور پر کہا کہ عوامی لیگ کے 6 نکات مشرقی پاکستان سے استحصال کا خاتمہ نہیں کر سکتے، پورے پاکستان کے مسائل کا واحد حل حقیقی سوشلسٹ نظام معیشت ہے اور پیپلز پارٹی اپنے جنم سے اب تک اسی پروگرام پر قائم ہے۔ اسی طرح کتاب مذکورہ کے صفحہ نمبر 6 پر چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تیسری دنیا کے مسائل اور اور ترقی کا راز صرف اور صرف سوشلسٹ نظام معیشت کے اجرا میں ہے۔ اس کتاب ’’ عظیم المیہ‘‘ کے تحریر ہونے تک چیئرمین بھٹو کا عزم اور یقین سوشلسٹ معیشت کے قیام پر غیر متزلزل تھا۔ مگر حصولِ اقتدار کے بعد جمہوری ردِ انقلاب کے نئے عہد نے جنم لیا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی صفوں میں جاگیردار، وڈیرے، نواب، عوام دشمن اور بیوروکریسی کے ایجنٹ داخل ہوچکے تھے۔ جنہوں نے رفتہ رفتہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پر اپنے اثرات مرتب کرلیے اور پارٹی کے اہم فیصلے کرنے میں ان کا کلیدی کردار بنتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ پارٹی کی ضلعی اور شہری تنظیموں کے فیصلے اور نامزدگیاں خفیہ ایجنسیاں اور کمشنر و ڈپٹی کمشنر کرنے لگے۔ یہی صورتحال پارٹی کی تاسیسی دستاویز سے انحراف کی شروعات تھی۔ تحریک کے دباؤ کی بدولت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سوائے چند صنعتوں اور کچھ تعلیمی اداروں کے قومیانے کے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا وعد ہ پورا نہ کرسکے اور عوام دشمن قوتیں، جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار، بیوروکریسی کے ایجنٹ گھناؤنی سازشوں میں کامیاب ہوگئے۔
چیئرمین بھٹو اور محنت کش عوام کا 68-69ء میں قائم ہونے والا جدلیاتی رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا اور پیپلز پارٹی میں گھسے ہوئے موقع پرست جاگیردار وارداتیوں نے محنت کش طبقے اور پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو مایوسی کی گہری کھائی میں پھینک دیا۔ سازشوں کے چال کامیابی سے بچھتے چلے گئے اور 1977ء آن پہنچا۔ پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے تمام اداکار ایک ہی اسٹیج پر اکھٹے ہوگئے۔ ان میں مذہبی بنیاد پرست‘نام نہاد بائیں بازو کے جغادری لبرل اور قوم پرست سب شامل تھے۔ تاریخ کا بزدل ترین جرنیل منافق اور خائن جنرل ضیا اپنے خونی جبڑوں کو امریکی ڈاکٹر ہنری کسنجر کی معاونت سے تیز کرچکا تھا۔ یہ سب انسانی شکلوں میں خون خوار بھیڑیے چیئرمین بھٹو اور پاکستان کے محنت کش طبقے سے سوشلسٹ انقلاب کی تکرار کا انتقام لینے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے۔ مارچ 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزام اور بعدازاں نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کے لیے معصوم عوام کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ محنت کش طبقہ بھی نالاں اورمایوس تھا۔ اس تحریک کے پس منظر میں امریکی ڈالر بھی تھے چنانچہ 5 جولائی پہنچ گیا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ
دعویٰ کروں گا خون کا موسیٰ پہ روزِ حشر
کیوں اس نے باڑھ دی میرے قاتل کی تیغ کو
5 جولائی 1977ء کے بعد پاکستان میں جو انارکی پھیلائی گئی۔ جس رجعت‘ مذہبی‘ منافرت‘ لسانیت‘ فرقہ واریت‘ کلاشنکو ف کلچر اور ہیروئن کا اجراء نیز بنیاد پرستی کا زہر سماجی رگوں میں اتارا گیا اس کااحاطہ تحریر ہذا میں ناممکن ہے۔
تاہم 5 جولائی 1977ء کا سبق جس کا چیئر مین بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ جو انہوں نے اپنے عدالتی قتل سے قبل جیل کی کال کوٹھڑی میں لکھی میں اظہار کیا، انھوں نے کہا۔
’’ میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ، قابلِ قبول حل یا مصالحت، محض یوٹوپیائی دیوانے کا خواب ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابلِ مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں نکلے گا‘‘۔
5 جولائی کو جو شب خون پیپلز پارٹی پر مار ا گیا اس کے خلاف کارکنوں نے دلیری اور انقلابی ولولے سے مقابلہ کیااور باطل قوتوں کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، اپنی پیٹھ پر کوڑے بھی کھائے اور جیلوں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان قربانیوں کا مقصد یہی تھا کہ محنت کش عوام کے حقوق کی سوشلسٹ جدوجہد کو زندہ رکھا جائے اور اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ لیکن بعد میں آنے والی قیادتوں نے سوشلزم کے نظریے سے مکمل انحراف کرتے ہوئے سامراجی پالیسیوں کو اپنایا اور ان تمام قربانیوں کو سرِ بازار نیلام کر کے اپنی دولت اور جائیدادوں میں بے دریغ اضافہ کیا۔
آج کی پیپلز پارٹی اپنے ماضی پر ایک دھبہ بن کر رہی گئی ہے۔ محنت کش عوام موجودہ قیادت سے بیزار ہو گئے جس نے اقتدار میں آکر روٹی تو کیا دینی تھی ان عوام سے پانی تک چھین لیا ہے۔ نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی سے لے کر مذہبی بنیاد پرست جماعتوں اور ایم کیو ایم سے اتحاد کارکنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد بھی کارکنوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ قیادت اور اس کے کاسہ لیسوں کی اربوں روپے کی بدعنوانی کا دفاع کریں اور اپنی روز مرہ کی زندگی کی ذلتوں کو اور قیادت کی عوام دشمن کاروائیوں کو فراموش کر دیں۔ آج ایسا ممکن نہیں۔ محنت کش اپنے پر ہونے والے تمام حملوں کا انتقام جہاں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں اور ججوں سے لیں گے وہاں پارٹی کے ان قائدین کو کبھی معاف نہیں کریں گے جنہوں نے ان ظالموں کے ساتھ مل کر محنت کشوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ اس ملک کے محنت کش جب دوبارہ انقلاب کی راہ پر روانہ ہوں گے تو وہ ان غداروں کو اپنا راہنما تسلیم نہیں کریں گے۔ انقلابی تحریکیں اپنی قیادتیں خود تراشتی ہیں۔ آج بھی پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب ہے اور جو لوگ اس نظریے پر قائم رہے اور اس کی جدوجہد میں مگن ہیں وہی محنت کشوں کی ابھرنے والی تحریکوں کو آگے کا رستہ دے سکتے ہیں۔
5 جولائی 1977ء کا کوڑا آج بھی محنت کش طبقے کی پیٹھ پر برس رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران طبقے سے اس کا انتقام لیا جائے اور سوشلزم کا پرچم بلند کرتے ہوئے تمام غداروں، موقع پرستوں اور ظالم طبقات سمیت اس سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کر نے کے لیے تحریک کا آغاز کیا جائے۔